Updated: November 15, 2024, 10:30 AM IST
|
Agency
| New Delhi
ہندوستانی کھیلوں کی تاریخ شاندارکارناموں سے بھری پڑی ہے۔ ہندوستان کےپاس بہترین ایتھلیٹس رہے ہیں جنہوں نے متعدد موقعوں پر ملک کا نام روشن کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنی مہارت، ہمت، جوش اور لگن کے بل بوتے پر دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، ملک کاسرفخرسے بلند ضرور کریں گے۔
سری رام سنگھ۔ تصویر : آئی این این
ہندوستانی کھیلوں کی تاریخ شاندارکارناموں سے بھری پڑی ہے۔ ہندوستان کےپاس بہترین ایتھلیٹس رہے ہیں جنہوں نے متعدد موقعوں پر ملک کا نام روشن کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنی مہارت، ہمت، جوش اور لگن کے بل بوتے پر دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، ملک کاسرفخرسے بلند ضرور کریں گے۔ تمام نامور اور معروف کھلاڑیوں میں ایک مشہور ایتھلیٹ سری رام سنگھ بھی ہیں جنہیں ہندوستان کے باصلاحیت، لیجنڈری ٹریک اینڈ فیلڈ اور بہترین ایتھلیٹ کے طور پرجاناجاتاہے۔ ان کی کھیلوں کی زندگی ان کی کامیابیوں کی منہ بولتی تصویر ہے۔
ملکھا سنگھ کی طرح سری رام سنگھ بھی ہندوستان کےبےمثال ایتھلیٹ رہے ہیں۔ معروف ہندستانی ایتھلیٹ ملکھا سنگھ اور گربچن سنگھ رندھاواکے بعد اولمپک فائنل میں جگہ بنانے والے ایک بھولے ہوئےہیرو سری رام سنگھ تھے۔ مونٹریال اولمپکس، ۱۹۷۶ءمیں انہوں نے ۸۰۰؍میٹرریس کےفائنل میں پہنچ کرتمغےکی امیدیں جگائی تھیں، لیکن وہ فائنل میں ساتویں نمبرپر رہے۔ سری رام کو ریس مکمل کرنے میں ۴۵ء۷۷:۱؍منٹ لگے۔ تاہم یہ بھی ایک ریکارڈ تھا۔ الیاس بابر کے ایک شاگرد، جو اب تک کے بہترین ہندوستانی ایتھلیٹکس کوچوں میں سے ایک ہیں، سری رام نے بابر کے اصرار پر درمیانی دوری کی دوڑشروع کی۔ انہوں نے ۱۹۷۰ء کے بنکاک ایشین گیمزمیں چاندی کا تمغہ جیتااور ۱۹۷۴ء میں تہران میں سونے کا تمغہ جیتا۔ ہندوستانی کھلاڑی سری رام سنگھ نےکئی بین الاقوامی مقابلوں میں ہندوستان کیلئےتمغے جیتے ہیں۔ سری رام سنگھ ہندوستان کے سب سے کامیاب درمیانی فاصلہ ایتھلیٹس میں سے ایک ہیں۔
سری رام سنگھ شیخاوت کی پیدائش۱۴؍نومبر ۱۹۴۸ءکو ہوئی۔ وہ ایک سابق ہندوستانی رنر ہیں۔ سری رام سنگھ نے ۱۹۶۸ءمیں راجپوتانہ رائفلز میں شمولیت اختیار کی، جہاں وہ کوچ الیاس بابر کے زیر اثرآئے۔ بابرنےانہیں اپنی توجہ ۴۰۰؍میٹرسے ۸۰۰؍میٹر پر منتقل کرنے پر آمادہ کیا۔ بنکاک میں ۱۹۷۰ءکےایشین گیمز میں انہیں ۸۰۰؍میٹرمیں برما کےجمی کرمپٹن کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرناپڑا۔ سنگھ ۱۹۷۲ءمیں میونخ اولمپکس میں باہر ہو گئے تھے، لیکن ان کے۷ء۴۷:۱؍کے وقت نے کرمپٹن کے ایشیائی ریکارڈ کو بہتر بنا دیا۔ مقابلے سے پہلے انہوں نےکبھی مصنوعی ٹریک پرریس نہیں کی تھی۔ انہوں نے ۱۹۷۴ءکےایشین گیمز میں سونے کا تمغہ جیتنے کےلیے اپنا وقت ۶ء۴۷:۱؍تک بڑھایا۔ سری رام سنگھ کے کریئر کا سب سے قابل فخر لمحہ ۱۹۷۶ء کے مونٹریال اولمپکس میں ۸۰۰؍میٹر کی دوڑ تھی۔ کوالیفائنگ راؤنڈ، سیمی فائنل اور فائنل لگاتار دن منعقد ہوئے۔ پہلی ریس میں، انہوں نے اپنا ہی ایشین ریکارڈ ۴۵ء۸۶:۱؍ کی ٹائمنگ کے ساتھ توڑا سیمی فائنل میں، وہ ۴۲ء۴۶:۱؍کےٹائمنگ کے ساتھ چوتھےنمبرپرآئے۔ فائنل میں، ہیٹس کی طرح، سری رام نے بہت تیز رفتاری سے دوڑ لگائی اور پہلے ۴۰۰؍میٹر میں ۵۰ء۸۵؍ سیکنڈکے حیرت انگیز وقت کےساتھ میدان کی قیادت کی، جو کہ حتمی گولڈ میڈلسٹ کیوبا کے البرٹو جوانتورینا سے بھی تیز تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے باصلاحیت نوجوانوں کو اس کھیل میں تربیت دینے کا بیڑا اٹھایا اور آج بھی ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ سری رام کا شماربھی ہندوستان کے باصلاحیت اور مکمل ایتھلیٹس میں ہوتاہے۔ انہوں نے ملکی اور عالمی سطح پر اپنی شاندار کارکردگی اورصلاحیتوں کامظاہرہ کر کے خاندان کے ساتھ ساتھ ملک کا نام بھی روشن کیا ہے۔ ایتھلیٹس میں ایک ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ملک کوبین الاقوامی سطح پر ایک چمکدار ستارے کی طرح روشن کیا۔