Updated: January 03, 2025, 11:28 AM IST
|
Agency
| New Delhi
استقامت اور جذبہ کسی بھی چیلنج پریہاں تک کہ سمندر کے وسیع و عریض پھیلاؤ پر بھی قابوپا سکتاہے۔ یوں تو دنیامیں بے شمار تیراک ہیں جن کو صرف سوئمنگ پول اور تالابوں میں ہی تیرناآتا ہے لیکن کچھ تیراک ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان تالابوں اور سوئمنگ پول سےباہر نکل کر دنیا کے بڑے بڑے سمندروں کوپار کرکے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئےہیں۔
مشہور تیراک بولا چودھری۔ تصویر: آئی این این
استقامت اور جذبہ کسی بھی چیلنج پریہاں تک کہ سمندر کے وسیع و عریض پھیلاؤ پر بھی قابوپا سکتاہے۔ یوں تو دنیامیں بے شمار تیراک ہیں جن کو صرف سوئمنگ پول اور تالابوں میں ہی تیرناآتا ہے لیکن کچھ تیراک ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان تالابوں اور سوئمنگ پول سےباہر نکل کر دنیا کے بڑے بڑے سمندروں کوپار کرکے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئےہیں۔ بولا چودھری بھی ایک ہندوستانی تیراک ہیں جو اپنی لمبی دوری کی تیراکی کے لیے مشہور ہے۔ بولا چودھری ۷؍سمندر پار کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ انہوں نےانگلش چینل کو ۲؍بار یعنی پہلی مرتبہ ۱۹۸۹ء میں اور دوسری مرتبہ ۱۹۹۹ءمیں عبور کیا۔ انہوں نے ۲۰۰۵ءمیں انگلش چینل کو عبور کرکے پہلی ایشیائی خاتون بن کر صرف ۸؍گھنٹے ۳۵؍منٹ میں مشکل سفر مکمل کر کیا اور تاریخ رقم کی۔ بولا، جنہیں اکثر ’سمندر کی ملکہ‘ کہا جاتا ہے، نے ساتھی تیراکوں کو متاثر کرتے ہوئےدنیا بھر میں بہت سے مشکل آبی راستوں کوفتح کیاہے۔
بولا چودھری کی پیدائش۲؍جنوری ۱۹۷۰ءکو مغربی بنگال کےہگلی میں ہوئی۔ ن کے والدین نے کم عمری میں ہی اپنی بیٹی کی صلاحیتوں کو پہچان لیا تھا۔ جب وہ ۲؍برس کی تھیں تو ان کے والد بولا کو تیراکی کے سبق کے لیے پہلی بار دریائے ہگلی پر لے گئے۔ ۵؍سال کی عمرمیں بولا کو تیراکی کے تربیتی اسکول میں داخل کرادیا گیا تھا۔ تیراکی سیکھنے کے صرف ایک سال بعد، بولا نے ایک سوئمنگ کلب میں شمولیت اختیار کی جہاں بولا کو ایک پیشہ ور نے تربیت دی۔ مغربی بنگال کے ایک چھوٹے سے شہر سے آنے والی یہ لڑکی، نہیں جانتی تھی کہ سوئمنگ سوٹ کیا ہوتا ہے، اور پول میں فراک پہن کرجاتی تھی۔ ایک دن، ان کی ماں نے ایک دکان میں ایک سوئمنگ سوٹ دیکھا اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے ایک سوٹ سلوائیں گی۔ خاندان کی خراب مالی حالت اور درکار کپڑوں کے بارےمیں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے انہوں نے سوتی کپڑے سے بنا سوئمنگ سوٹ سلوایا۔ لیکن بولا کو اس کے معیار کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ وہ صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ پانی سے محبت کرتی ہے۔ بولا کونمکین پانی سے الرجی تھی۔ تیراکی کے بعد ان کی جلد جل جاتی تھی اورپوری رات جسم پرخارش رہتی تھی لیکن بولانے اس طرح کی رکاوٹوں کو آڑے آنے نہیں دیا۔ وہ ہمیشہ ایک پیشہ ور تیراک بننا چاہتی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ وہ تیراکی کے لیے پیدا ہوئی ہیں ۔
۱۹۸۴ءمیں انہوں نے۶ء۱۹:۱؍سیکنڈکاقومی ۱۰۰؍میٹر بٹر فلائی ریکارڈ قائم کیا۔ ۱۹۸۶ءمیں سیول ایشین گیمز کے دوران، انہوں نے ۱۰۰؍میٹربٹر فلائی میں ۵ء۲۷:۱؍سیکنڈ اور۲۰۰؍میٹربٹر فلائی میں ۱۹ء۶۰:۲؍سیکنڈکا ایک اور ریکارڈ قائم کیا۔ بولانے ۱۹۸۹ء میں لمبی دوری کی تیراکی شروع کی اور اسی سال انگلش چینل عبور کیا۔ انہوں نے ۱۹۹۶ءمیں ۸۱؍کلومیٹر کی لمبی دوری کی تیراکی جیت لی، اور ۱۹۹۹ء میں بولاچودھری نے دوبارہ انگلش چینل عبور کیا۔ اگست ۲۰۰۴ء میں، انہوں نے سری لنکا کے تالایمنار سے تمل ناڈو کے دھنوشکوڈی تک تقریباً ۱۴؍گھنٹے میں آبنائے پالک تیر کر یہ ریکارڈ بنایا۔ ان کی کامیابیوں نےانہیں قومی شناخت دلائی اور انہیں ملک کے۲؍ اعلیٰ ترین اعزازات - ارجن ایوارڈ اور پدم شری سے نوازا گیا۔
سمندر کے خطرات کو فتح کرنے کے بعد وہ سیاست کے میدان میں بھی اتریں۔ وہ ۲۰۰۶ءسے ۲۰۱۱ءتک مغربی بنگال کے نندن پور اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے بھی رہی ہیں۔