• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جرنیل سنگھ فٹ بال کے میدان پر چٹان کی طرح کھڑے رہتے تھے

Updated: February 20, 2025, 10:08 PM IST | Agency | New Delhi

۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ءکی دہائی کے دوران ہندوستانی فٹ بال کے سنہری دور میں ایسےکھلاڑیوں کی کمی نہیں تھی جو تکنیک کے لحاظ سے ایشیا کے کسی بھی کھلاڑی کا مقابلہ کر سکیں۔

The great football player Jarnail Singh. Photo: INN
عظیم فٹ بال کھلاڑی جرنیل سنگھ۔ تصویر: آئی این این

۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ءکی دہائی کے دوران ہندوستانی فٹ بال کے سنہری دور میں ایسےکھلاڑیوں کی کمی نہیں تھی جو تکنیک کے لحاظ سے ایشیا کے کسی بھی کھلاڑی کا مقابلہ کر سکیں۔ ہندوستان اپنےتکنیکی معیار اور حکمت عملی کی اختراعات کے لیے مشہور تھا۔ چنی گوسوامی، پی کے بنرجی اور تلسی داس بلرام جیسے تمام شاندار باصلاحیت کھلاڑی ہندوستانی فٹ بال ٹیم کے درخشاں چہرے تھے۔ ہر فٹ بال ٹیم میں ایک ایسا کھلاڑی ضرور ہوتا ہے جو خاموشی سے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مخالف ٹیم پر دباؤ اور تابڑ توڑ حملے کرتا ہے۔ اس سنہری دور میں ہندوستانی فٹ بال ٹیم کے لیے وہ شخص جرنیل سنگھ تھے۔ 
 ورسٹائل فٹبال کھلاڑی جرنیل سنگھ ہندستانی فٹبال کےبہترین ڈیفینڈر تھے۔ وہ ہندوستانی فٹ بال کےجائنٹ کہلائے جاتے تھے۔ ان کی مہارت، ٹیکلنگ، سلائڈنگ ٹیکل، ان کی بروقت ٹائمنگ، والی کلیئرنس، یہ بس بے مثال تھا۔ وہ سینٹرل ڈیفینڈر کے طور پر کھیلتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہندوستان کے اب تک کےبہترین ڈیفینڈر ہیں۔ اس میں ان کا کوئی موازنہ نہیں۔ جرنیل سنگھ ایشیا کے سب سےزیادہ خوفزدہ کرنے والےڈیفینڈر تھے۔ ان کا ہینڈلنگ، انٹرسیپشن اور مین ٹو مین مارکنگ بے مثال تھی۔ وہ ایک ایسے کھلاڑی تھے جنہوں نے اپنے مخالفین کو خوفزدہ کیا۔ 
 جرنیل سنگھ سینٹر بیک کے طور پر کھیلا کرتے تھے۔ وہ ۱۹۶۵ء سے۱۹۶۷ءتک ہندوستان کی قومی فٹ بال ٹیم کےکپتان رہے۔ انہیں ۱۹۶۴ءمیں بطور فٹ بال کھلاڑی ان کی کامیابیوں کے لیے ارجن ایوارڈسےنوازا گیا۔ انہوں نے ۱۹۶۰ءکےسمر اولمپکس میں مردوں کے ٹورنامنٹ میں بھی حصہ لیا۔ ۱۹۶۰ءکی دہائی میں ایشیا کے بہترین ڈیفینڈرس میں سےایک سمجھے جانے والے جرنیل سنگھ نے اپنے کریئر کا بیشتر حصہ موہن باغان کے ساتھ گزارا۔ جرنیل سنگھ ڈھلوں جنہیں جرنیل سنگھ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ۲۰؍فروری ۱۹۳۶ءکوہوشیار پور، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ 
 ٹیم کی کامیابی کے لیے ان کی لگن اور قوت ارادی کی بہترین مثال ۱۹۶۲ءکےایشیائی کھیلوں کےفائنل کے دوران جنوبی کوریا کے خلاف ہیڈر کے ذریعے ان کا میچ جیتنے والا گول ہے۔ چوٹ لگنے کی وجہ سے کوارٹر فائنل میچ کے بعد سے جرنیل کے سر میں ۶؍ ٹانکے لگے ہوئے تھے، لیکن ان کا عزم غیر متزلزل رہا اور انہوں نے سیمی فائنل اور فائنل راؤنڈ میں سر میں شدید چوٹ کے ساتھ کھیلنا جاری رکھا۔ حیرت انگیزطور پر، انہوں نے فائنل راؤنڈ میں صرف ہیڈر کے ساتھ میچ جیتنے والا گول کیا، اور ہندوستانی فٹ بال کے ہیرو بن گئے کیونکہ ہندوستانی ٹیم نے ایشین گیمز ۱۹۶۲ءمیں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ 
 ۱۹۷۴ءمیں مردیکا کپ میں وہ رنر اپ رہنے والی ہندوستانی ٹیم کا حصہ تھے۔ اسی سال، وہ کے اےایف سی ایشین کپ میں اپنے ملک کے لیے کھیلے، جہاں وہ رنر اپ کے طور پر بھی رہے جب اسرائیل نے ٹرافی جیتی۔ ۱۹۶۵ءسے ۱۹۶۷ءتک انہوں نےقومی ٹیم کی کپتانی کی اور۱۹۶۹ءمردیکاکپ اور ۱۹۷۰ءسنگاپورفرینڈشپ ٹورنامنٹ میں ٹیم کی قیادت کی۔ انہوں نے ۱۸۷۶ءمیں افغانستان میں جیسن کپ میں دوبارہ ہندوستان کی قیادت کی۔ وہ ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۰۰ءکو کینیڈا کے وینکوور میں دمہ کی بیماری کی وجہ سے ۶۴؍سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK