• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’ اولمپکس کے انعقاد سے کھلاڑیوں کو تحریک حاصل ہوگی‘‘

Updated: November 08, 2024, 11:57 AM IST | Hyderabad

نکہت زرین نے ۲۰۳۶ء کھیلوں کی میزبانی کیلئے ہندوستان کی جانب سے دعویداری پیش کرنے پر خوشی کا اظہار کیا۔

2-time world champion Indian boxer Nikhat Zareen. Photo: INN.
۲؍بار کی عالمی چمپئن ہندوستانی مکےباز نکہت زرین۔ تصویر: آئی این این۔

۲۰۳۶ء کے اولمپکس کھیلوں کی میزبانی کے لئے ہندوستان کی جانب سے باضابطہ بولی لگانے کے بعد، ۲؍ بار کی عالمی چمپئن مکے باز نکہت زرین نے کہا کہ یہ بولی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرے گی لیکن ساتھ ہی انہوں نے کھیلوں کی مجموعی ترقی کو فروغ دینے کے لئے ہر ریاست میں اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا ( سائی) کے قیام پر زور دیا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے کھیلوں کے ایونٹ کو ہندوستان میں لانے کی دیرینہ خواہش اور منصوبے کو حکومت کی طرف سے بھرپور حمایت حاصل ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بار بار ۲۰۳۶ء میں ہندوستان میں اولمپکس لانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ 
نکہت زرین نے ایک خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ’’۲۰۳۶ء کے اولمپکس کھیلوں کی میزبانی ہندوستانی کھلاڑیوں کےلئے حوصلہ افزا ہوگی۔ اگر ہم اولمپکس جیسے بڑے ایونٹس کی میزبانی کرنا چاہتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ ہر ریاست میں ’سائی‘ کےمراکز ہونے چاہئیں۔ موجودہ وقت میں صرف علاقائی مراکز ہیں۔ اگر مجھے ٹریننگ کی ضرورت ہے تو مجھے روہتک، گوہاٹی، اورنگ آباد یا جہاں بھی یہ مراکز واقع ہیں جانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا’’ مجھے تربیت حاصل کرنے کیلئے اتنی جدوجہد کرنی پڑتی ہے تو ۲۰۳۶ء کو ذہن میں رکھ کر تیاری کرنے والے چھوٹے بچوں کیلئے چیلنجز کا تصور کریں۔ میں ۲۰۳۶ء تک تو کھیلنے والی نہیں ہوں لیکن دیگر بچو ں کیلئے اپنے والدین کو ٹریننگ کیلئے بھیجنے کیلئے راضی کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اگر اچھے کوچز کے ساتھ ایک سائی سینٹر ہر ریاست میں ہو تو اس سے سب کو فائدہ ہو گا اور ہم نچلی سطح پر کھلاڑیوں پر توجہ مرکوز کر سکیں گے۔ ‘‘
تلنگانہ پولیس میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) نکہت زرین نے مزید مشورہ دیا کہ ہر ریاست میں کثیر سہولت والے اسٹیڈیم ہونے چاہئیں تاکہ نوجوان کھلاڑیوں کو بہتر انفرااسٹرکچر کے ساتھ ٹریننگ حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے نوجوان کھلاڑیوں کی مدد کرنے کے لئے ایک پالیسی ہونی چاہئے جو نچلی سطح سے مالی طور پر مستحکم نہیں ہیں۔ انہیں معیاری کوچ فراہم کرکے اور انہیں سہولیات تک رسائی فراہم کرکے، ہم انہیں ایک ٹھوس آغاز فراہم کر سکتے ہیں جس سے انہیں سینئر لیول تک پہنچنے میں مدد ملے گی اور ممکنہ طور پر وہ ملک کا سر فخر سے بلند کر سکیں گے۔ 
واضح رہے کہ نکہت زرین کی پیرس میں اپنے اولمپک ڈیبیو پر تمغہ جیتنے کی امیدوں پر پانی پھر گیا تھا جب وہ خواتین کے ۵۰؍ کلوگرام باکسنگ ایونٹ کے راؤنڈ آف ۱۶؍میں متفقہ فیصلے سے چین کی وو یو سے ہار گئیں۔ پیرس مہم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ۲؍ بار کی عالمی چمپئن اور ایشین گیمز میں کانسے کا تمغہ جیتنے والی باکسر نے کہا’’کوئی دباؤ نہیں تھا کیونکہ میں اس سے پہلے بہت سے ایسے مقابلے جیت چکی تھی جہاں کسی کو مجھ سے جیتنے کی امید نہیں تھی۔ پیرس میرا پہلا اولمپکس تھا اور میں غیر سیڈڈ تھی، میرے وزن کے زمرے میں میرے صرف ۲؍ اہم حریف تھے۔ ترکی کی باکسر (بوسیناز کاکیروگلو) اور چینی۔ میں نے ترک باکسر کو شکست دی تھی لیکن مجھے چینی باکسر کے خلاف پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تھا، اس لئے میں لاعلم تھی۔ میں نے اسے صرف کھیلتے ہوئے دیکھا تھا لیکن اس کے ساتھ پہلے مقابلہ نہیں کیا تھا۔ بدقسمتی سے پیرس میں، میں نے دوسرے راؤنڈ میں ہی چینی باکسر کا سامنا کیا اور مقابلے سے باہر ہو گئی تھی۔ ‘‘
نکہت زرین نے کہا’’شکست سے زیادہ مجھے اس بات کا افسوس ہوا کہ تمغے ان مکے بازوں کو ملیں جنہیں میں نے پہلے شکست دی تھی۔ یہ واقعی دل کو تکلیف دینے والی بات تھی کہ میں ۲؍ مرتبہ عالمی چمپئن ہونے کے باوجود اولمپکس میں تمغہ نہیں جیت سکی۔ ‘‘اولمپکس میں اپنی شکست بارے میں بات چیت کرتے ہوئے نکہت زرین نے کہا کہ ’’یہ آسان نہیں تھا۔ شکست کے بعد ہر کوئی ’کوچ‘ بن جاتا ہےاور اپنے ماہرانہ مشورے دینا شروع کر دیتا ہے۔ جب آپ جیتتے ہیں تو ہر کوئی آپ کو مبارکباد دینے آتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ پیرس کے بعد بہت کم لوگ مجھ تک آئے۔ ایک کھلاڑی کو شکست کے بعد واقعی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس وقت سب غائب ہو جاتے ہیں۔ تاہم، مجھے احساس ہوا کہ یہ زندگی کا حصہ ہے۔ کسی اور کی توقعات سے زیادہ، یہ میری اپنی توقعات تھی جو مجھ پر بہت زیادہ تھیں اور مجھے دکھ ہوا کہ میں ان پر پورا نہیں اتر سکی۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK