• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’سچن کے بعد وراٹ آئے، میرے بعد بھی کوئی آئےگا‘‘

Updated: August 16, 2024, 11:20 AM IST | Abhishek Tripathi | Mumbai

گول کیپر پی آر شری جیش نے اپنے کریئر،ریٹائرمنٹ اور پیرس اولمپکس میں ہندوستانی ہا کی ٹیم کی کارکردگی کے تعلق سے کہا کہ لگاتار ۲؍اولمپک میڈل جیتنا معمولی بات نہیں ہے۔

PR Sreejesh. Photo: INN
پی آر سریجیش۔ تصویر : آئی این این

پیرس اولمپکس میں کانسے کا تمغہ جیتنے والی ہندوستانی ہاکی ٹیم کے گول کیپر پی آر شر ی جیش کا کہنا ہے کہ ٹیم طلائی تمغہ جیتنے کی حقدار تھی لیکن کانسے کا تمغہ خالی ہاتھ آنے سے بہترہے۔ ہندوستانی ہاکی صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے اور ہم اگلے اولمپکس میں سونے کا تمغہ ضرور جیتیں گے۔ بین الاقوامی کریئر سے ریٹائر ہونے والے شری جیش نے کہا کہ پیرس میں ان کی کارکردگی کو دیکھنے کے بعد اب بہت سے نوجوان گول کیپر کا رول ادا کرنے کیلئے تیارہوں گے۔ انقلاب نے شری جیش کے ساتھ بات چیت جو اس طرح ہے
 آپ کے جانے سے پیدا ہونے والی خلاء کو پُر کرنا آسان ہو گا؟
جلد ہی کوئی میری جگہ لےلے گا۔ جیسے سچن تینڈولکر ریٹائر ہوئے تو وراٹ کوہلی آئے۔ اسی طرح میرے جانے کے بعد اب بحث ہے کہ اگلا کون ہوگا۔ لوگ آتے رہیں گے، ستارے آتے رہیں گے اور کچھ عرصے کیلئے لوگوں کو شری جیش کی کمی محسوس ہوگی لیکن بعد میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ شبھم بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ موہت ایک نوجوان لڑکا ہے، وہ بھی کافی اچھا ہے۔ سورج ہے اور جب انہیں کھیلنے کا تجربہ ملے گا تو وہ بھی اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔ 
 آپ کی وجہ سے کھلاڑی گول کیپر بننے پر غور کریں گے؟
 یہی چیز ہم نے بدلی ہے۔ پچھلے تین چار میچوں میں گول کیپنگ کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ اس سے بہت سے کھلاڑیوں کو حوصلہ ملے گا کہ گول کیپنگ بھی ایک اچھی پوزیشن ہے، جہاں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ہندوستانی ٹیم میں جگہ بنا سکتے ہیں۔ دوسری بڑی بات یہ ہے کہ میری نظر میں گول کیپنگ بہت گلیمرس پوزیشن ہے۔ آپ کو قریب سے دیکھا جاتا ہے، سب کی نظریں آپ پر ہوتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب کھلاڑی گول کیپر بننے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ 
ٹوکیو میں جب ہم جیتے تو آپ گول پوسٹ کے اوپر بیٹھے تھے پیرس میں بھی آپ نے ویسا ہی کیا۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟
جب ہم نے ٹوکیو اولمپکس میں کانسے کا تمغہ جیتا تھا تو یہ بات میرے ذہن میں آئی اور میں گول پوسٹ پر چڑھ گیا لیکن اس بار پیرس میں، میں نے پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ یہاں بھی گول پوسٹ پر بیٹھ کر اپنےکریئر کو الوداع کہوں گا۔ 
 ہندوستانی ہاکی میں مزید کیا بہتری لانی چاہیے؟
  بلجیم سیمی فائنل کے لئے بھی کوالیفائی نہیں کر پایا اس لئے اس سے شکست سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آسٹریلیا نے بھی کوالیفائی نہیں کیا لیکن ہم نے کیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم بہتر کر رہے ہیں۔ یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ ہم کس کو شکست دے رہے ہیں یا ہار رہے ہیں بلکہ یہ زیادہ اہم ہے کہ بڑے ٹورنامنٹ میں ہم کس مقام پر رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔ تمام کھلاڑیوں کا اعتماد بڑھ گیا ہے اور اگلے اولمپکس میں آپ دیکھیں گے کہ وہاں کھیلنے والی ٹیم میں ۱۱؍سے زائد کھلاڑیوں کو ۲۔ ۲؍ اولمپکس کھیلنے کا تجربہ ہوگا۔ اس ٹیم کیلئے مستقبل میں بڑی ٹیموں کو شکست دینا مشکل نہیں ہوگا۔ 
 کہیں نہ کہیں دل میں طلائی تمغہ نہ جیتنے کا ملال ہوگا؟ 
 بلاشبہ ہم گولڈ میڈل جیتنے کے مستحق تھے لیکن بدقسمتی سے ہم جیت نہیں سکے۔ اس کا درد ہمیشہ دل میں رہے گا لیکن کانسے کا تمغہ جیتنا خالی ہاتھ رہنے سے بہتر ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہم نے لگاتار ۲؍ کانسے کے میڈل جیتے ہیں۔ 
 آپ کوچنگ کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں ؟
  فی الحال میں اس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچ رہا ہوں۔ کوچنگ میرے لئے بالکل نیا تجربہ ہوگا۔ میں نے تربیت حاصل کی ہے لیکن کبھی پیشہ ورانہ کوچنگ نہیں کی۔ یہ میرے لئے بھی ایک نیا چیلنج ہوگا۔ میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھوں گا۔ 
 آپ اپنے کریئر کو کیسے دیکھتے ہیں ؟
  جب میں جیوراج اسپورٹس میں کھیلنے گیا تو وہاں میں نے ہاکی کو دیکھا۔ میں نے ہاکی کا انتخاب کیا اور کھیلنا شروع کیا لیکن میں زیادہ دوڑنا نہیں چاہتا تھا اس لئے میں گول کیپر بن گیا۔ وہاں میرے ۲؍ کوچز جے کمار اور رمیش کولپا تھے۔ ان دونوں نے میری بہت مدد کی۔ میرے والدین نے مجھے بہت سپورٹ کیا۔ وہاں سے میں قومی کیمپ میں آیا اور ہریندر سرنے براہ راست مجھے جونیئر ٹیم میں منتخب کیا۔ میں انڈر۔ ۱۶؍کیمپ میں گیا، جہاں سے میرا سفر شروع ہوا۔ اب میں جس مقام پر پہنچا ہوں یہاں تک پہنچنے کیلئے بہت سے لوگوں نے میری مدد کی ہے۔ ۲۰۰۸ءمیں ہم اولمپکس کیلئے کوالیفائی نہیں کر سکے جبکہ ۲۰۱۲ء کے اولمپکس میں ہم ایک بھی میچ نہیں جیت سکے۔ ہم ۲۰۱۶ءمیں آٹھویں نمبر پر رہے اور اب ہم نے لگاتار ۲؍ اولمپکس میں تمغے جیتے ہیں۔ میرے لئے یہ سفربہت ہی شاندار رہا ہے۔ یہاں تک پہنچنا بڑی بات ہے جہاں سے میں نے ہاکی شروع کی تھی۔ 
 برطانیہ کے خلاف شوٹ آؤٹ کے دوران کیا سوچ رہے تھے؟
اس وقت میرے ذہن میں ایک بات چل رہی تھی کہ میچ ہر قیمت پر جیتنا ہے۔ ہمیں آخری لمحات میں ایک گول ملا لیکن برطانیہ نے بھی گول کیا۔ اس کے بعد پنالٹی شوٹ آؤٹ کا سہارا لیا گیا گیا۔ مجھے اپنے آپ پر بھروسہ تھا کہ میں کچھ شاٹس ضرور روک لوں گا اور اس سے مخالف ٹیم پر دباؤ پڑے گا۔ ایسا ہی ہوا اور ہمارے کھلاڑیوں نے شوٹ آؤٹ میں گیند کو صحیح نشانے پر مارا اور ہم وہ میچ جیت گئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK