’کوشش کرنےوالوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی‘کی سطر ملاڈ کے رہنے والے شاہد سعید انصاری پر صادق آتی ہے۔ ان کی زندگی میں کتنی پریشانیاں رہی ہیں لیکن انہوں نے سبھی کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا ہے۔
EPAPER
Updated: January 25, 2025, 2:10 PM IST | Ashwin Farrow | Mumbai
’کوشش کرنےوالوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی‘کی سطر ملاڈ کے رہنے والے شاہد سعید انصاری پر صادق آتی ہے۔ ان کی زندگی میں کتنی پریشانیاں رہی ہیں لیکن انہوں نے سبھی کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا ہے۔
’کوشش کرنےوالوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی‘کی سطر ملاڈ کے رہنے والے شاہد سعید انصاری پر صادق آتی ہے۔ ان کی زندگی میں کتنی پریشانیاں رہی ہیں لیکن انہوں نے سبھی کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا ہے۔ شاہد سعید وہیل چیئر کرکٹر ہیں، ساتھ ہی اپنی اور اہل خانہ کی کفالت کے لئے زومیٹو ڈلیوری ایجنٹ کی حیثیت سے ملازمت بھی کرتے ہیں۔ ۴۴؍سالہ وہیل چیئر کرکٹر صبح اور دوپہر کے وقت کرکٹ کی مشق کرتا ہے اور شام سے رات تک زومیٹو پر ڈلیوری ایجنٹ کا کام کرتاہے۔ خیال رہے کہ ملاڈ کے اس کھلاڑی نے ۲۰۱۷ء سے اب تک ۴۰؍بین الاقوامی میچ کھیلے ہیں اور اس میں ایک نصف سنچری بنانے کے ساتھ وکٹ کے پیچھے شاندار کیچ اور اسٹمپنگ کئے ہیں۔
شاہد سعید کو پہلے ہی سے کرکٹ کا کھیلنے کا بہت شوق تھا لیکن جب وہ ایک برس کے تھے تب متعدد مرتبہ بخار کی وجہ سے ان کے پیر معذور ہوگئے تھے۔ ان کی والدہ شمیم انصاری (۷۳؍سال) بتاتی ہیں کہ جب وہ چھوٹا تھا تو کس طرح رینگتے ہوئے میدان کی ۳؍فٹ کی دیوار کے پاس جاتاتھا اور اس پر چڑھ کر میدان میں چھلانگ لگاتا تھا، وہ اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ میدان پرکھیلا کرتا تھا۔ ملاڈ ،مالونی کی تنگ گلی کے ۱۰؍ بائی ۱۲؍ فٹ کے مکان میں رہنے والی شمیم انصاری نے انقلاب کوبتایا کہ ’’وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ ایک دن وہ ہندوستان کی نمائندگی کرے گا، لیکن اس وقت ہمیں یہ ناممکن لگتا تھا۔ ‘‘
اسکول کی فیس کے لئے پیسے نہیں تھے
شاہد سعید انصاری کی زندگی میںصرف معذوری کا المیہ نہیں تھا بلکہ وہ مالی طورپر بھی بچپن ہی سے پریشان رہے۔ انہوں نے ملاڈ میں واقع کوئین میری ہائی اسکول میںچوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی لیکن خستہ مالی حالت نے انہیں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی۔ چند برسوں کے بعد انہوںنے بوریولی کے یشونت راؤ کالج میں ٹیکنیکل کورس کے لئے داخلہ لیا تاہم یہاں بھی پیسوں کی تنگی کے سبب یہ کورس بھی مکمل نہ ہوسکا۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف کام کرکے اپنا پیٹ پالنا شروع کردیا۔
شاہد سعید انصاری نے بتایا کہ ’’۱۹۹۰ء میں میں نے سلائی کا کام شروع کیا۔ اس کے چند برسوںکے بعد میں نے گھروں میں الیکٹرک اشیا کی مرمت شروع کردی۔ ۲۰۰۰ء میں جب موبائل کا انقلاب آیا تب میں نے اسے درست کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔ ۲۰۱۵ء تک میں یہ کام کرنے کے ساتھ ہی اپنے دوستوں کے ساتھ گلی کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔ اس وقت مجھے وہیل چیئر کرکٹ کی معلومات نہیں تھی۔ جب اس کی معلومات ہوئی تو میں نے اس کی ٹریننگ لینی شروع کردی۔ ۲۰۱۷ء میں آگرا میں اس کا ٹرائل سلیکشن تھا اور خوش قسمتی سے مجھے اس کے لئے منتخب کر لیا گیا۔ اس وقت بنگلہ دیش کے خلاف ٹیم کا سلیکشن تھا اور میں اس ٹیم میں شامل ہوگیا۔ میں نے بنگلہ دیش کے خلاف ہندوستان کی جانب سے کرکٹ میں قدم رکھا۔‘‘ شاہد سعید مہاراشٹر ٹیم میں بحیثیت آل راؤنڈر کھیلتے ہیں۔
شاہد سعید کو اس بات پر فخر ہے کہ انہوں نے ۴۰؍ انٹر نیشنل میچوں میں ایک نصف سنچری بنائی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ’’ہندوستانی وہیل چیئر کرکٹ کے باقاعدہ اعداد وشمار موجود نہیں ہیں۔ لیکن میں نے ۱۸۔۲۰۱۷ء کے دوران ڈھاکہ میں ہونے والے ٹی ۲۰؍ میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف میچ فاتح ۶۰؍ رن بنائے تھے۔ ‘‘
ایشیا کپ کی تیاری
اس وقت شاہد اپریل میں پاکستان میں ہونے والے تیسرے ایشیا کپ کی تیاری میں مصروف ہیں۔ اس ٹورنامنٹ کے بعد پاکستان میں ہی ۸؍ ٹیموں کا عالمی کپ ہونے والا ہے۔ لیکن ان کے کرکٹ کریئر میںان کی مالی طورپر حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے۔ انصاری نے بتایا کہ’’آگرا میںموجود دویانگ کرکٹ کنٹرول بورڈ ہمارا بنیادی ادارہ ہے لیکن ہندوستانی کرکٹ بورڈ اسے تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی وجہ سے ہمیں مالی مسائل کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ ہم ہندوستانی کھلاڑیوں کو رقم نہیں ملتی ہے، اگر ہم کوئی ٹورنامنٹ جیتتے ہیں تب ہم سبھی کھلاڑی انعامی رقم کو آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں جوکہ معمولی ہوتی ہے۔ ‘‘
شاہد سعید اس لئے اپنی اور اہل خانہ کی کفالت کے لئے زومیٹو میں ڈلیوری ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ اس کے لئے انہو ں نے ایک الیکٹرک وہیل چیئربھی کرائے پر لی ہے۔ ملاڈ کے وہیل چیئر کرکٹر نے بتایا کہ ’’زومیٹو نےمیری کافی مدد کی ہے۔ ابتدائی طورپر یہ کمپنی ایک ڈلیوری کے ۱۸؍ روپے ادا کرتی تھی جس سے میں ماہانہ ۶؍ سے ۸؍ ہزار روپے کما لیتا تھا۔ تاہم حال ہی میں زومیٹو نے وہیل چیئر ایجنٹ کے لئے یہ رقم بڑھا کر ۸۰؍ روپے کردی ہے جس سے میں اب ماہانہ ۱۵؍ سے ۱۸؍ ہزار روپے کمالیتا ہوں جس میں سے مجھے ۳۰؍ فیصد وہیل چیئر کا کرایہ ادا کرنا پڑتاہے۔ ایک الیکٹرک وہیل چیئر کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے اور یہ میری پہنچ سے باہر ہے۔ میرے لئے یہ اچھی بات ہے کہ میری ملازمت شام سے رات کی ہے جس سے میں صبح اور دوپہر کے وقت کرکٹ کی مشق کرسکتاہوں۔ ‘‘
اخراجات کا بوجھ
ظاہر سی بات ہے کہ وہ اتنی بہتر حالت میں نہیں ہیں کہ اپنی ضرورتوں کو پوری کرنے کے ساتھ اپنے اہل خانہ کا بھی پیٹ بھر سکیں۔ شاہد سعید نے بتایا کہ ’’میری بیٹی حورینا اب ۳؍برس کی ہونے والی ہے اور وہ اگلے سال سے اسکول جانا شروع کردے گی جس کی وجہ سے میرے اخراجات بڑھ جائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ مالی استحکام کے لئے مجھے سرکاری ملازمت مل جائے گی۔ ‘‘ شاہد سعید انصاری ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ انہوں نے وہیل چیئر کرکٹ لیگ کے لئے قومی سطح پر ٹیموں کو جمع کرنا شروع کردیا ہے، انہوں نے مدھیہ پردیش، کیرالا اور مہاراشٹر کی ٹیمیں تیار کی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اسپانسرس سے بھی رابطہ کررہے ہیں۔
اسپانسرس جمع کرنے اور زومیٹو کی ڈلیوری کرتے کرتے ان کی پہچان ملاڈ کے ریستوراں مالک رونی ڈی سوزا سے ہوئی جو برطانیہ میں گھڑسوار، فٹبال، ہاکی اور باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کو ٹریننگ دینے والا ادارہ یوکے یونائٹیڈ اسپورٹس بھی سنبھالتے ہیں۔ رونی ڈی سوزا نے کہا کہ ’’جب شاہد نے مجھ سے رابطہ کیا تو میںاس سے بہت متاثر ہوا اور ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ مجھے امید ہے کہ جلد ہی ان کی تقدیرکا ستارہ بھی چمکے گا۔‘‘