Inquilab Logo

گول میز کانفرنس

Updated: October 01, 2022, 1:30 PM IST | Ishtiaq Bachchrayoni | Mumbai

ننھی، ببو، منو، چنو سب ہی چھوٹی سی گول میز کے اردگرد بیٹھے کسی خاص مسئلے پر غور کر رہے تھے۔ دراصل وہ لوگ بڑوں کی روک ٹوک سے پریشان تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ وہ اپنی مرضی کی کریں اور میٹنگ کے سبھی اراکین ایک فیصلہ کرتے ہیں کہ

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

ننھی، ببو، منو، چنو سب ہی تو موجود تھے۔ سب کے سب چھوٹی سی گول میز کے اردگرد بیٹھے کسی خاص مسئلے پر غور کر رہے تھے۔ کل بھی اسی طرح اوپر کے کمرے میں جلسہ ہو رہا تھا۔ مگر امّی کی بے جا اور بے وقت مداخلت نے ساری کارروائی چوپٹ کرکے رکھ دی تھی۔ آج پھر موقع پاکر کمیٹی کے سارے ممبر دوپہر کو تمام گھر والوں کو سوتا دیکھ کر یہاں جمع ہوگئے تھے۔
 ڈبو، جو جلسے کی صدارت کر رہے تھے، کھڑے ہوئے۔ اُلّوؤں کی طرح دیدے گھما کر انہوں نے اِدھر اُدھر بڑے غور سے دیکھا۔ جب انہیں پوری طرح یقین ہوگیا کہ امّی اور بجیا میں سے کوئی بھی آس پاس نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے آنے کا امکان ہے، تو انہوں نے تھوڑا سا کھانس کھنکار کر تمہید باندھی : ’’بھائیو اور بہنو! کیا آپ جانتے ہیں کہ آج آپ لوگوں کو یہاں سوچ وچار کے لئے کیوں تکلیف دی گئی ہے؟ دراصل آج آپ لوگوں کو ہنگامی حالات میں اس ہنگامی میٹنگ میں اس لئے بلایا گیا ہے کہ ہم اپنے ذاتی مسئلوں اور لجھنوں پر غور کرکے انہیں سلجھانے کی کوشش کریں۔ آپ خود ہی سوچئے اس آزادی اور جمہوریت کے دور میں ہم پر یہ آئے دن کیوں ستم ڈھائے جاتے ہیں روزمرہ نئی نئی مصیبتیں اٹھانے کو ہمیں ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ابّا جان کی طرح ہر وقت منہ سجائے بیٹھے رہیں، بجیا کی طرح کتابیں کھولے منہ سکوڑے فلسفیوں کی طرح چغد بنے نظر آئیں یا امّی کی طرح منہ میں تالا لگائے اپنے کاموں میں لگے رہیں۔ ہر وقت بھلا گھر میں ہم ماتمی فضا کیسے قائم کئے رہیں؟ آخر کچھ ہمارے بھی تو حق ہیں، ہمارے بھی ارمان اور خواہشیں ہیں۔ ان کا گلا گھونٹنے کا آخر ان لوگوں کو کیا حق ہے۔ ہنسنے بولنے، کھیلنے کودنے اور اِدھر اُدھر دوڑنے بھاگنے پر آخر یہ بندشیں کیوں؟ ہمیں ہر وقت بدتمیز اور نالائق جیسے خطابوں سے کیوں نوازا جاتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ مزے دار چیزیں ہمیں کم سے کم کھانے کو دی جاتی ہیں۔ ذرا کھانے بیٹھئے تو ادھر سے بھائی جان چیختے ہیں ’’جنگلی ہیں جنگلی! ذرا بھی تو کھانے کی تمیز نہیں ‘‘ امّی پکار اٹھتی ہیں، ’’ہیں ہیں! بھئی ذرا کم کھاؤ۔ یہ فاقے کے ماروں کی طرح کھانے پر کیوں ٹوٹ پڑتے ہو۔ جب درد ہوگا تو سارے گھر کو سر پر اُٹھائے پھرو گے۔‘‘ پیٹ نہ ہوا ایک مصیبت ہوگئی۔ کل ہی کا واقعہ لے لیجئے۔ انڈوں کا حلوہ بنا تھا۔ مگر مصیبت یہ کہ وہ بھی تھوڑا تھوڑا سا ملتا ہے، جیسے دوا کی کوئی خوراک۔ کل میں اس پر احتجاج کر بیٹھا۔ رونے چلّانے لگا کہ مَیں تو کھاؤں گا۔ بس پھر کیا تھا۔ زیادہ تو خیر کیا ملتا، اُلٹے کان کھینچے۔ کل کی اسی بات نے ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کس طرح کل کی پٹائی کا انتقام لیا جائے۔ دوستو اور بھائیو! اب کل کا انتقام بس اس طرح لیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی ترکیب سے سارے حلوے کو صاف کر دیا جائے۔‘‘
 ڈبو میاں نے خیال ہی خیال میں چٹخارہ لیتے ہوئے تقریر جاری رکھی، ’’ہاں تو آج ہمیں یہی سوچنا ہے کہ کس طرح اس حلوے کو ٹھکانے لگایا جائے۔ دوستو! بھلا یہ ظلم ہم کس طرح اور کب تک سہہ سکتے ہیں کہ حلوہ ہمارے سامنے رہے اور ہم اسے اپنی مرضی سے کھا بھی نہ سکیں۔ سوچئے اور پھر سوچئے کہ ہم کس طرح اپنی اس اُلجھن کو سلجھا سکتے ہیں۔‘‘ ڈبو کسی پیشہ ور نیتا کی طرح ہاتھوں کو گھماتے ہوئے پورے جوش و خروش کے ساتھ بولے اور اپنی کرسی پر بیٹھ کر پھر سوچ کے ساگر میں ڈوب گئے۔
 کچھ دیر بعد چنو میاں اُٹھے۔ اُن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی قدر باغیانہ اور انقلابی طبیعت کے واقع ہوئے تھے۔ کہنے لگے ’’کیوں نہ حلوے کو سرے سے پار ہی کر دیا جائے اور پھر مزے لے کر اسے کھایا جائے۔‘‘
 سارا کمرہ تالیوں سے گونج رہا تھا۔ دو چار نے ان کے خیال کی تائید کی۔ لیکن صدر جلسہ، حضرت ڈبو کسی قدر فکرمند انداز میں کھڑے ہوئے اور کچھ سوچنے کے سے انداز میں بولے ’’دیکھئے بھئی.... اس قدر تالیاں نہ بجائے۔ جوش میں نہ آیئے.... نیچے تمام لوگ سو رہے ہیں کسی کی بھی آنکھ کھل گئی تو آنے والی مصیبت سے آپ سب لوگ بخوبی واقف ہیں شانتی سے مسئلے پر غور کیجئے۔ چنو میاں کی تجویز زیادہ بری تو نہیں۔ مگر جانتے ہیں آخر اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ محض پٹائی اور ڈانٹ پھٹکار۔ کیونکہ بات کسی سے پوشیدہ تو رہ نہیں سکتی کہ یہ حرکت ہم ہی لوگوں نے کی ہے ظاہر ہے چوری کے الزام میں اور دھر لئے جائیں۔‘‘ جلسہ تقریباً گھنٹہ بھر تک زور شور کے ساتھ چلتا رہا مگر کوئی قطعی فیصلہ نہ ہوسکا۔ گڈو، مجو اور لڈن اپنی ذہانت کے مشہور تھے۔ آخر طے یہی پایا کہ اس مسئلہ کو ان تینوں کی کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے۔ یہ کمیٹی خود سوچ وچار کے کوئی راہ نکالے۔
 اس وقت تو بات آئی گئی ہوگئی۔ پھر شام ہوگئی۔ بجیا اپنی کسی سہیلی کے یہاں چائے پر گئی ہوئی تھیں۔ ابّا اس دن دفتر میں مصروف تھے۔ باقی سب لوگ چائے کی میز پر ڈٹے ہوئے تھے۔ امی نے حلوے کا بڑا سا مرتبان منگایا۔ مرتبان سے جیسے ہی انہوں نے قاب میں حلوہ نکالنا چاہا، چیخ اٹھیں ’’اُف گڈو اس میں تو کیڑے رینگ رہے ہیں!‘‘ گڈو نے بھی مرتبان میں جھانکا ’’مگر امّی یہ پیدا ہو کیسے گئے؟‘‘ بس پھر کیا تھا۔ اچھا خاصا کہرام مچ گیا.... امّی نے دو چار بار اپنی عینک کو ٹھیک کرکے مرتبان کا جائزہ لیا۔ ان کا پارہ چڑھتا جا رہا تھا ’’اس گھر میں تو کوئی چیز ڈھنگ سے رہ نہیں سکتی۔ کسی نے جھوٹا چمچہ ڈال دیا ہوگا ساری لاگت بیکار گئی نا؟ دیکھو تو ڈھیر سا حلوہ بیکار ہوگیا۔ بیچارے بچے بھی ایسے ہی رہ گئے نا۔ کھایا ہی کہاں تھا انہوں نے بھلا؟‘‘ اور وہ بری طرح جھلا اُٹھیں، ’’یہ شمی ہی کی حرکت ہوگی۔‘‘
 ساری مصیبت اب بجیا کے سر جا پڑی۔ منو، مجو اور چنو سبھی منہ پھیلائے بیٹھے تھے۔ امی نے سب کو دلاسہ دیا ’’منہ نہ بناؤ بچو.... آ جانے دو اس شمی کی بچی کو دیکھو کیسی خبر لیتی ہوں۔ تمہارے لئے کل ہی اس سے زیادہ حلوہ بنا دوں گی۔‘‘
 کچھ دیر بعد گڈو، مجو اور لڈن امّی کے پاس آئے ’’امّی لایئے حلوہ پھینک آئیں۔‘‘ ’’ہاں ہاں جاؤ بیٹا۔ مگر ذرا احتیاط سے پھینکنا۔ مرتبان ٹوٹ نہ جائے۔‘‘ یہ کہہ کر امّی باورچی خانے میں چلی گئیں۔ اوپر کا کمرہ پھر آباد تھا۔ ہلکی ہلکی کانا پھوسی کے ساتھ دبے دبے قہقہے اُبل رہے تھے۔ گول میز کانفرنس پھر ہو رہی تھی۔ صاحب ِ صدر کھڑے ہوئے ’’ہمیں بڑی مسرت ہے کہ گڈو، مجو اور لڈن میاں کی ذہانت اور کوششوں سے آج سارا حلوہ ہمارے اپنے قبضے میں ہے۔ آج بے دھڑک ہم سارا حلوہ خوب مزے لے لے کر کھا سکتے ہیں۔‘‘ ’’کیسا حلوہ! اس میں تو کیڑے پڑ گئے ہیں!‘‘ منو بیچ ہی میں بول اُٹھے۔ لڈن نے زور دار قہقہہ لگایا ’’کیڑے؟ لو بھئی وہ کیڑے تو یہ رہے۔‘‘ انہوں نے کیڑوں کی پرچ سامنے لا کر رکھ دی ’’لو بھئی لو نڈر ہو کر اب بس شروع ہو جاؤ۔ کیڑوں والی بات مَیں ابھی بتائے دیتا ہوں۔ بھئی اس دن جلسے کے بعد مَیں برابر سوچتا رہا کہ کس طرح حلوے کو حاصل کیا جائے۔ لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مر جائے۔ آخر میری سمجھ میں ایک ترکیب آ ہی گئی۔ ہم نے مل کر آٹے کی چھوٹی چھوٹی بتیاں بنائیں۔ تم لوگوں نے دیکھا ہوگا امّی روٹیاں پکاتے وقت ہاتھوں میں لگے ہوئے آٹے کو مسل مسل کر صاف کرتی ہیں تو چھوٹی چھوٹی بتیاں سی بن جاتی ہیں بس یہ نادر خیال وہیں سے لیا گیا۔ تھوڑی سی محنت ضرور کرنا پڑی۔ ان بتیوں کے منہ پر توے کی کالک لگا دی گئی۔ اور پھر موقع پا کر انہیں مرتبان میں بکھیر دیا گیا۔ یہ رہیں ساری مروڑیاں اس پرچ میں، جن کو دوبارہ چن چن کر الگ کر لیا گیا ہے۔ امی کی نگاہ تو ہے ہی کچھ کمزور۔ آج ہم لوگوں کو معلوم تھا کہ بجیا چائے پر مدعو ہیں۔ ابّا دفتر میں مصروف ہیں۔ بس موقع اچھا تھا۔‘‘ ایک زور دار قہقہہ پڑا اور جٹ گئے سب حلوے پر!
 یہ کہنا تو بے کار ہی ہے کہ بجیا کی واپسی پر ان پر امّی خوب ہی تو گرم ہوئیں۔ جیسے جیسے ان پر ڈانٹ پڑتی تھی ہم اپنی ہنسی روکنے میں بے قابو ہوئے جا رہے تھے اور بجیا وہ بیچاری سراپا حیرت تھیں۔ کوئی ان کی بات سنتا ہی نہ تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK