Inquilab Logo

خوابوں کا خریدار

Updated: November 12, 2022, 12:04 PM IST | Ikhlas Ahmed | Mumbai

ایک ضعیف شخص خواب بیچتا ہے۔ بھلا خواب بھی کیا مٹھائی یا کھلونے ہیں جو یوں بیچے جاسکتے ہیں۔ رمیش بے چین ہوجاتا ہے اور وہ اس شخص سے ایک خوشگوار خواب خریدتا ہے۔ اس رات اسے خواب آتا ہے اور....

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

رمیش رنگین چاک کے ٹکڑوں سے فرش پر تصویریں بنانے میں مصروف تھا کہ اُسے باہر گھنٹی کی آواز سنائی دی۔ ٹن ٹن، ٹناٹن.... آواز لمحہ بہ لمحہ قریب تر ہوتی جا رہی تھی، اس نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ ایک ضعیف سا آدمی پہلی گلی سے گزر کر اُس کی گلی میں داخل ہو رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک گھنٹی تھی جسے وہ ہلا ہلا کر بجا رہا تھا۔
 یوں تو اس گلی میں بہت سے پھیری والے آتے ہیں اور طرح طرح کی آوازیں لگاتے ہیں، دہی بڑے اور گول گپے والے، ململ لٹھے نائلون والا، ریشمیں چوڑیوں والا یہاں تک کہ سوئی دھاگے والا بھی، ان سب کی آوازوں سے رمیش مانوس تھا، لیکن یہ ضیف سا آدمی جو ابھی ابھی اس گلی میں داخل ہوا تھا اب سے پہلے اس طرف کبھی نہیں آیا تھا۔ ایک رنگ برنگا پھول دار بکس، نہ بہت بڑا نہ چھوٹا، نواڑ کے سہارے اس کے گلے سے لٹک رہا تھا، اس کا لباس بھی کچھ عجیب سا تھا۔ اُس نے ڈھیلا ڈھالا پائجامہ اور لمبا سا نیلے اور سرخ رنگ کا کُرتا پہن رکھا تھا۔ اس کی چال، اس کا آواز لگانے کا انداز۔ اس کا سب کچھ رمیش کو بہت عجیب اور پُرکشش لگ رہا تھا۔ گھنٹی بجانے کے ساتھ ساتھ وہ بڑی دلکش آواز میں صدا لگا رہا تھا:
گھنٹیاں بجاتا ہوں
اور خواب بیچتا ہوں مَیں
سندر اور چمکیلے سپنے
لے لو رنگ برنگے خواب
لے لو سبز و سنہری خواب
 رمیش کھڑکی سے ہٹ کر تیزی سے باہر کی طرف بھاگا اور اس کے پاس پہنچ گیا۔ کئی بچّے اسے گھیرے کھڑے تھے اور اس پر سوالوں کی بوچھار کر رہے تھے۔
 ’’تم خواب بیچتے ہو؟‘‘ آواز میں حیرت اور بے یقینی تھی۔
 ’’بھلا خواب بھی کیا مٹھائی یا کھلونے ہیں جو یوں بیچے جاسکتے ہیں!‘‘
 ’’خواب تو بس دیکھے جاتے ہیں۔ وہ کوئی چیز تھوڑی ہوتے ہیں....‘‘
 ’’ایک خواب کی کیا قیمت ہے؟‘‘ رمیش نے پوچھا۔
 ’’صرف چھ نئے پیسے، بولو، کون سا لوگے؟‘‘ خوابوں کے تاجر نے کہا۔
 ’’مجھے ایک ہلکا پھلکا خوشگوار سا خواب دے دو۔‘‘
 ’’یہ لو۔‘‘ اس نے ایک چھوٹی سی پڑیا اپنے رنگ برنگے بکس میں سے نکال کر رمیش کے ہاتھ میں دے دی، اور کہا ’’سونے سے پہلے اُسے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لینا۔‘‘
 رمیش نے اس رات کھانا وقت سے کچھ پہلے ہی کھا لیا اور پڑیا تکیے کے نیچے رکھ کر سونے کے لئے لیٹ گیا، تھوڑی ہی دیر میں وہ سو چکا تھا، اس نے دیکھا وہ ایک عجیب و غریب دُنیا میں ہے، اس کے چاروں طرف میٹھا نیلگوں پانی ہے۔ لطیف اور شفاف لہریں اسے گدگدا رہی تھیں، نرم مخملی سمندری گھاس اور چمکتی ہوئی بے شمار سیپیاں اور گھونگے ہیں، چمکتی ہوئی آنکھوں والی چھوٹی چھوٹی سیکڑوں رنگین مچھلیاں بڑے دل آویز انداز میں اِدھر اُدھر تیرتی پھر رہی ہیں۔ اور تب یکایک ایک بہت بڑا کیکڑا اپنی دونوں بڑی بڑی اگلی ٹانگوں کو ہلاتا ہوا تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ اس سے خود کو بچانے کے لئے رمیش نے زور زور سے ہاتھ پاؤں جو مارے تو اس کی آنکھ کھل گئی، اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ اگلے روز وہ پھر ایک خواب خریدے گا۔
 اگلے روز رمیش نے ایک نیلا خواب خریدا۔ اور اس پڑیا کو سرہانے رکھ لیٹ گیا۔ نیند کی وادی میں پہنچتے ہی اُس نے اپنے آپ کو ہوا کی طرح ہلکا محسوس کیا۔ وہ اوپر کی طرف اُٹھ رہا تھا۔ اوپر اور اوپر درختوں، مکانوں اور پہاڑوں سے بھی اونچے وہ بادلوں کے تیرتے ہوئے ٹکڑوں سے بھی بلند بے تکان اُڑا جا رہا تھا۔
 ایک راکٹ زناٹا ہوا اس کے قریب سے گزر گیا، ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر اِدھر اُدھر بھاگے جا رہے تھے رمیش اس منظر میں گم اس سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اس نے دیکھا بے شمار گدھ جن کے پنجے بہت تیز اور خوفناک ہیں، جن کی چونچیں نوک دار اور آگے سے مڑی ہوئی ہیں بڑی تیزی سے اُس کی طرف بڑھے چلے آرہے ہیں، خوف سے اس کی چیخ نکل گئی اور اُس نے خود کو اپنے بستر پر پایا۔ اس کا ماتھا اور گردن پسینے سے تر تھی۔
 اس تجربے کے بعد رمیش خوابوں سے توبہ کر چکا تھا پھر بھی وہ دوسرے روز خواب بیچنے والے کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔
 ’’اس بار مجھے وہ خواب دو جو تمہارے پاس سب سے اچھا ہو۔‘‘ اس نے کہا۔
 اور رمیش نے ایک بار پھر خواب دیکھا۔ اس مرتبہ اس نے خود کو ایک سر سبز وادی میں پایا جہاں طرح طرح کی چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ چشمے گنگنا رہے تھے۔ سنہری ہرن اور شوخ و شریر گلہریاں دوڑتی پھر رہی تھیں دور بہت اونچے برف پوش چوٹیوں والے پہاڑ سونے کی طرح چمک رہے تھے، اس کے سامنے کشادہ اور دور تک پھیلے ہوئے مرغزار کے بیچوں بیچ ایک ندی بڑی آہستہ آہستہ بہہ رہی تھی، دوسرے لمحے وہ ندی کے دوسرے کنارے پر تھا، عظیم الشان اور پُروقار مندروں، مسجدوں اور گرودواروں کی عظمت میں گم، اُن کی محبت میں کھویا ہوا۔
 اس نے لوگوں کو طرح طرح کے لباس پہنے دیکھا، سب ایک دوسرے سے جدا۔ اس نے لوگوں کو طرح طرح کی انجانی زبانیں بولتے سنا، سب ایک دوسرے سے مختلف۔ پھر بھی وہ سب خوش تھے، ایک دوسرے سے ہنس کر مل رہے تھے، انہیں اس کی پروا نہیں تھی کہ اُن کے لباس ان کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا، وہ حیرت زدہ، مسرور سا سب کچھ دیکھا گیا۔
 یہ کتنا بڑا، کتنا پیارا اور کس قدر خوبصورت ملک ہے رمیش نے سوچا، کتنی عجیب سی بات ہے سب کچھ ایک ہی نظر میں میرے سامنے ہے۔ یہ سر سبز و شاداب کھیت، وہ روپہلی اور سنہرے اناج سے بھرے کھلیان، اونچے میناروں اور بڑے گنبدوں والے شہروں سے گھرے ہوئے وسیع اور گھنے جنگلات، کارخانے، بجلی گھر، ڈیم، شمال میں اونچے پہاڑوں سے لے کر زمین پھیلتی ہی چلی گئی ہے۔ یہاں تک کہ جنوب میں گہرا اور شور مچاتا سمندر اس کے پاؤں چومنے لگتا ہے، تیز اور روشن دھوپ میں چمکتی جھلملاتی زمین۔
 اور تب جیسے خواب سرک گیا ہو، رمیش نے کھڑکی سے باہر دیکھا طلوع ہوتے ہوئے سورج کی نرم کرنوں نے آم کے پیڑ پر آئے ہوئے بور کو سنہرا رنگ دیا تھا۔
 ’’یہ تو وہی میرے خوابوں کا دیس ہے‘‘ اُس نے زیر لب کہا، ’’یہ تو میرا اپنا ہی ملک ہے، میری اپنی دھرتی، میری مادر وطن.... پھر وہ خواب! وہ خواب کیا تھا!‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK