Inquilab Logo

اور کامیابی تمہارا مقدر بن جائے گی

Updated: June 10, 2023, 10:52 AM IST | Raees Siddiqui | Mumbai

رضوان نیند کی گولیوں کی پوری شیشی اپنے منہ میں انڈیلنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک جھٹکے سے وہ شیشی دور جا گری۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

رضوان نیند کی گولیوں کی پوری شیشی اپنے منہ میں انڈیلنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک جھٹکے سے وہ شیشی دور جا گری۔ سامنے دیکھا تو اس کی ماں کھڑی تھی جو روزانہ کی طرح آج رات بھی اس کے لئے گرم دودھ کا گلاس لے کر کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ اپنی ماں کو دیکھ کر وہ گھبرا گیا اور پھر دھیرے دھیرے اپنے آپ کوسننے لگا: ’’مجھے مر جانے دیجئے۔ میں جینا نہیں چاہتا۔ میں فیل ہو گیاہوں۔ میں نا کام زندگی نہیں گزار سکتا
 ’’لیکن بیٹا، بات کیا ہے جو تم خود کشی کرنا چاہتے تھے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام اور ملکی قانون میں خود کشی حرام اور جرم ہے۔ اپنے جسم کو کسی بھی طرح کی تکلیف دینا قطعی منع ہے۔‘‘
 ’’ماں، نویں کلاس کا نتیجہ آگیا ہے۔ کمال اول آیا ہے جو اکثر مجھ سے پوچھا کرتا تھا اور میں فیل ہو گیا ہوں۔ یہ سب ہمارے کلاس ٹیچر رضوی صا حب کی وجہ سے ہوا ہے۔ کمال ان سے ٹیوشن پڑھتا ہے۔ انہوں نے مجھ سے بھی کئی بار ٹیوشن لینے کے لئے کہا لیکن مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے رضوی صاحب نے مجھے اپنے سبجیکٹ فزکس میں فیل کر دیا ہے!‘‘ اس پر ماں حیران ہوتے ہوئے بولی، ’’لیکن یہ اتنی بڑی بات تو نہیں ہے کہ تم خود کشی کرلو۔‘‘
 رضوان نے اپنی تکلیف بتاتے ہوئے کہا، ’’ماں، یہ میرے لئے بہت بڑی بات ہے۔ میں لوگوں کو کیسے منہ دکھائوں گا۔ لوگوں کو کیسے سمجھائوں گا۔ میں فیل ہونے کی شرمندگی کے ساتھ اسکول کیسے جا سکتا ہوں! میں رضوی صاحب کی کسی سے برائی بھی نہیں کر سکتا ہوں۔ یہ آپ ہی کی تاکید ہے کہ کسی کی غیبت نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
 اس کی ماں نے رضوان کی ذہنی کیفیت کا بخوبی اندازہ لگا لیا تھا۔ اس لئے وہ اس کے پاس بیٹھ گئی اور بڑے لاڈ و پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی، ’’بیٹا! تم صرف نویں کلاس کے ایک سبجیکٹ میں فیل ہونے پر اپنی جان دینے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ دسویں اور بارہویں کے بورڈ کے امتحان میں کیا ہر بچہ پاس ہو جاتا ہے؟ کیا ہر بچہ بی اے، ایم اے میں پاس ہو جاتا ہے؟ ہندوستان کی سب سے بڑی ملازمت آئی اے ایس میں ہر بچہ پہلی کوشش میں کامیاب نہیں ہوتا ہے۔ کوئی دو بار میں پاس ہوتا ہے تو کوئی تین بار میں۔ کوئی کبھی پاس ہی نہیں ہو تا ہے۔ کیا فیل ہونے والے یہ بچے خود کشی کر لیتے ہیں؟ نہیں وہ ایسا نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ صوبہ کی اعلیٰ سروس اسٹیٹ پبلک سرس کمیشن کا امتحان دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس میں بھی پاس نہیں ہوتے ہیں۔ تو کیا یہ سب بچے خود کشی کر لیتے ہیں ؟ نہیں، بالکل نہیں! یہ بچے زندگی کو کامیاب اور بہتر بنانے کے لئے پہلے سے زیادہ محنت کرتے ہیں یا کوئی دوسرا مناسب راستہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن تمہاری طرح کوئی مرنے کی نہیں سوچتا ہے! دنیا میںکامیاب اور بڑے لوگوں میں شمار ہونے والوں کی زندگی میں جھانکو، ان کی زندگی کے بارے معلومات حاصل کرو۔ ان کی زندگی کے بارے میں مضمون اور کتابیں پڑھو، تو تمہیں معلوم ہوگا کہ انہوںنے آسانی سے کامیابی حا صل نہیں کی ہے۔ بہت سے ایسے سائنس داںہوئے ہیں جن کا اسکول میں پڑھنے میں دل نہیں لگتا تھا اور ایک سائنس داں، تھا مس ایڈیسن کو تو غبی اور کند ذہن کہہ کر اسکول سے نکال دیا گیا تھا جبکہ اس نے بلب اور بہت سی ایجادات کیں۔ بہت سے ایسے کامیاب اور بڑے تاجر ہوئے ہیں جو اپنی اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں کر سکے۔ بہت سے سیاستداں اورسماج کے بڑے لوگوں کو نا انصافی، بھید بھائو، سازش، بے جا طرفداری، سفارش اور رشوت کے خلاف ایک لمبی لڑائی لڑنی پڑی ہے۔ کامیاب لوگوں میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو سونے یا چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے۔ ہربڑے آدمی نے بہت جدوجہد اور رات دن محنت اور کوششوں کے بعد کامیابی و کامرانی پائی ہے۔ ‘‘ رضوان بہت غور سے اپنی ماں کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ بولا، ’’ماں، آپ بجا فرما رہی ہیں لیکن مین بہت جذباتی اور حساس ہوں۔ ‘‘
 ماں نے اس کو ممتا بھری نگاہوں سے دیکھا اور بہت پیار سے اس کے سر پر آہستہ آہستہ شفقت بھراہاتھ پھیر تے ہوئے کہا، ’’بیٹا، جذباتی اور حساس ہونا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اس کو اپنی کمزوری مت بنائو۔ اس کو اپنی طاقت بنائو۔ ہمیشہ ہمت اور حوصلہ رکھو اور بڑی سے بڑی پریشانی اور ناکامی پر دل مت چھوٹا کرو۔ زندگی کو ایک جنگ سمجھو اور اس کا بہت صبر اور سنجیدگی سے مقابلہ کرو۔ آخر میں لگاتار کوشش، لگن اور جی توڑ محنت سے فتح اور کامیابی تمہارا مقدر بن جائے گی 
 اسی دوران رضوان کے والد بھی کمرہ میں آگئے اور خاموشی سے ماں بیٹے کی باتیں سنتے رہے۔ وہ بہت خوش تھے کی ماں اپنے بیٹے کو بہت تسلی اور پیار سے سمجھا رہی تھی، بیٹے کی کاؤنسلنگ کر رہی تھی۔ ان سے خاموش نہ رہا گیا۔ وہ اچانک اس کے سامنے آکر بول اٹھے، ’’بیٹا، ہمارے پیار نبیؐ، تمام صحابیوں اور نیک دل بادشاہوں تک نے اپنی پوری زندگی بے حد جد و جہد میں گزاری ہے۔ ایسے عظیم لوگوں نے بھی دنیاوی پریشانی، تکلیف اور سازشوںکا سامنا کیا ہے لیکن انہوں نے تمام تکلیف دہ مسائل کو صبر و تحمل، سلیقہ اور سمجھداری سے حل بھی کیاہے۔ وہ کبھی زندگی سے ہارے نہیں۔ انہیں کبھی خودکشی کے بارے میں خیال تک نہیں آیا۔ ان کی زندگی ہمارے لئے کسی گائیڈ، کسی کاؤنسلر، کسی رہنما، کسی روشنی اور کسی مشعل سے کم نہیں ہے۔  یہ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ سرکاری یا پرائیویٹ، ہرچھوٹی بڑی ملازمت یا تجارت کرنے کے دوران، لوگ ایک دوسرے سے آگے برھنے کیلئے، ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہیں، رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں، سازشوں کا جال بنتے ہیں، مذہب، علاقہ، ثقافت اور زبان کا سہارا لے کر ا متیاز، بدگمانی اور تعصب پیدا کرتے ہیں یعنی ہمیں زندگی بھر اپنے وجود کی پہچان بنائے رکھنے کیلئے جدو جہد کرتی رہنی پڑتی ہے! زندگی میں ہر شخص کو نا پسندیدہ باتوں، تکلیفوں، بھید بھائو اور سازشوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پھول اپنے ساتھ کانٹے بھی رکھتے ہیں۔ زندگی پھول اور کانٹوں کے ساتھ گزارنی پڑتی ہے۔ خوشی اور شادمانی کے ساتھ ساتھ، رنج و غم بھی زندگی کالازمی حصہ ہیں۔ مجھے تو غالب کے اس شعرسے زندگی بسر کرنے کا حوصلہ ملتا رہتا ہے
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج 
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ ا ٓساں ہو گئیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK