Inquilab Logo

کالا گلاب

Updated: November 27, 2021, 1:32 PM IST | Arif Khalid Sheikh | Mumbai Nagpada

بادشاہ سلامت کی بینائی دن بدن کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ راج طبیبوں نے اُنہیں بتایا کہ اس مرض کا علاج ایک خاص قسم کے کالے گلاب میں پوشیدہ ہے۔ اس کالے گلاب کی تلاش کے لئے بادشاہ اپنے بیٹے شہزادہ عثمان کو سفر پر بھیجتا ہے۔ پڑھئے مکمل کہانی:

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

خدا ترس بادشاہ ملک آج بے حد غمگین تھے کیونکہ راج طبیبوں نے اُنہیں ایک ایسے مرض میں مبتلا ہونے کی اطلاع دی جس کا علاج ایک خاص قسم کے کالے گلاب میں پوشیدہ تھا۔ دراصل بادشاہ سلامت کی بینائی دن بہ دن کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ حالانکہ اُن کی عمر اتنی نہیں تھی جس میں بینائی متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔ اِس لئے وہ بہت پریشان تھے۔ اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اُنہوں نے وزراء اور دانشوروں کو دیوانِ خاص میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ کافی غور و حوض کے بعد یہ طے پایا کہ نایا ب کالا گلاب حاصل کرنے کے لئے شہزادے کی مدد لی جائے۔ ’’ شہزادہ عثمان سا جیالا، بہادر، نڈر اور مہم جو بھلا اور کون ہو سکتا ہے؟‘‘ یہ سن کر بادشاہ نے شہزادے کو بلا بھیجا اور اُسے نایاب کالا گلاب لانے کا حکم دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ شہزادے نے فوراً حُکم کی تعمیل کرتے ہوئے رخت سفر باندھا۔
 کئی دِنوں کی مسافت کے بعد وہ ایک ایسی ریاست میں پہنچا جہاں ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ وجہ جاننے پر معلوم ہوا کہ اس ریاست کے محل کے قریب ایک ایسا درخت ہے جو دن بہ دن پھیلتا جا رہا ہے۔ جس کے سائے سے سارا محل اندھیرے میں ڈوب چکا ہے اور محل کے باشندے سورج کی روشنی سے محروم ہوئے جا رہے ہیں۔
  اگر کوئی اس درخت کو کاٹنے کی کوشش کرتاہے تو وہ اور تیزی سے بڑھنے لگتا ہے گویا جادوئی درخت ہو۔ اب ہر کوئی اس درخت سے خوفزدہ ہے۔  شہزادہ نے اس ریاست کے بادشاہ کو اس مشکل سے نکالنے کا مصمم اِرادہ کر لیا وہ تیزی سے آگے بڑھا اور درخت کو کاٹنے لگا۔ حیرت انگریز طور پر درخت بڑھنے کے بجائے کٹتا چلا گیا اور آن کی آن میں زمیں بوس ہو گیا۔ ہر طرف آفرین کا شور بلند ہوا۔ لوگ جوق در جوق جمع ہونے لگے۔ بادشاہ تک بھی اس خبر کی رسائی ہو چُکی تھی وہ فوراً شہزادے سے ملنے پہنچا اور اُسے گلے سے لگا لیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ نجومیوں کی پیشن گوئی کے مطابق کوئی بہادر شہزادہ ہی اُنہیں اس مشکل سے چھٹکارہ دلا سکتا تھا۔ اور وہ بہادر اُنہیں مل چکا تھا۔ بادشاہ نے نہایت تزک و احتشام سے اپنی بیٹی افشاں کو شہزادے سے بیاہ دیا اور شہزادے کو اپنی فرزندگی میں لے لیا۔ چند دنوں کی رہائش کے بعد شہزادے نے اپنے سفر کا مقصد بادشاہ پر آگاہ کیا اور رخصتی کی اجازت طلب کی۔ طے یہ پایا کہ شہزادہ عثمان منزلِ مقصود کی حصولیابی کے بعد ہی شہزادی افشاں کو لے کر اپنی ریاست لوٹے گا۔ اب ایک بار پھر شہزادہ تنہا اپنے سفر کے لئے تیار تھا۔ چلتے چلتے وہ مغرب کی سمت ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں چند ایک جھوپڑیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ دیکھنے پر یہ نو آبادی لگ رہی تھی۔اُس نےجھاڑ جھنکاڑ سے گھری ایک جھوپڑی پر دستک دی۔
 ’’کون.....؟‘‘
 ’’ کون ہے؟‘‘
 ’’اندر آ جائیں....‘‘ نحیف آواز میں کسی نے کہا۔ اس نے دروازے کو اندر کی جانب ڈھکیلا جو ہلکی آہٹ سے کھل گیا۔ شہزادہ جھک کر اندر داخل ہوا۔ جھوپڑی شروع ہوتے ہی ختم ہو رہی تھی۔ اندر ایک ضعیف بُزرگ کچھ چیتھڑے نما کپڑوں میں لپٹے لیٹے نظر آئے۔ گھنی داڑھی مونچھوں نے اُن کے چہرے کو چھپا رکھا تھا۔ ان کی گول گول آنکھوں میں عجیب سی کشش تھی.... جیسے کچھ راز لئے ہوئے ہوں۔
 اُس نے اُنہیں سلام کیا۔
 وہ بدبدائے.... شاید سلام کا جواب دیا ہو۔ جسے شہزادہ سن نہ سکا۔ اُن کی حالت زار دیکھ کر اُسے بڑا ترس آیا۔ آخر اس بے آب و گیاہ ویرانے میں انھیں کون چھوڑ گیا.... زِندگی کو اتنا مایوس اور معذور دیکھ وہ آبدیدہ ہوگیا۔
 اس نے اپنے مشکیزےسے پانی پلایا۔ چرمی جھولے سے چند ایک پھل کھلائے۔ پھر اُن کے بڑھے ہوئے بال کاٹے۔ اب وہ آسانی سے اُنہیں دیکھ سکتا تھا۔ عمر رسیدہ بزرگ شہزادے کے نیک عمل سے خوش ہوئے۔ انہوں نے شائستگی سے پوچھا ’’بیٹا! تم شہزادے معلوم ہوتے ہو.... اس ویرانے میں کیا کر رہے ہو؟‘‘
 ’’بابا! مَیں ایک نایاب کالے گلاب کی کھوج میں ہوں اور چاہتا ہوں کہ کسی طرح اُسے حاصل کر لوں۔‘‘ پھر شہزادے نے اپنے والد کی بیماری کے متعلق بتایا۔
 بابا مسکرائے.... اور اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا وہ وہاں سے غائب ہو گئے۔ اب وہاں نہ بابا تھے اور نہ ہی کوئی جھوپڑی..... اس نے خود کو ایک گلشن میں کھڑا پایا۔ حد نظر پھول ہی پھول کھلے تھے۔ وہ بڑا حیران ہوا۔
 ’’معا....‘‘ اُسے بابا کی آواز سنائی دی، یہ تمہاری نیک نیتی کا انعام ہے۔‘‘
 اُس نے دیکھا ایک سنہری رنگ کی نگینوں سے جڑی ڈبیا میں کالے رنگ کا گلاب کھلکھلا رہا ہے۔ وہ بہت خوش ہوا۔ جس چیز کی تلاش میں وہ محلوں کا سکھ چین چھوڑ کر جنگلوں کی خاک چھاننے پر مجبور ہوا تھا وہ شئے اس کے سامنے تھی۔ اُس نے جھٹ ڈیبا اُٹھا لی۔ اب وہ جلد سے جلد اپنے والد کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔ گھوڑے کو ہوا کے دوش پر اڑاتا پہلے وہ اپنے سسرال پہنچا پھر بغیر وقت گنوائے شہزادی افشاں کو ساتھ لے کر اپنے محل کی طرف روانہ ہوا۔ قاصدوں کے پیغام پر بادشاہ سلامت نے اپنے نور نظر کا شایانِ شان استقبال کیا۔ اُن کے حکم پر پوری ریاست کو دلہن کی طرح سجایا گیا.... ہر طرف خوشی کے شادیانے بجائے جانے لگے۔ شہزادے کے قافلے پر پھولوں اور موتیوں کی بارش کر دی گئی۔ شہزادہ عثمان اپنی کامیابی پر سرشار اپنے والد سے بغل گیر ہوا۔ بادشاہ سلامت کی خوشی بھی دیدنی تھی۔ محل سے اٹھنے والی معطر ہواؤں نے ہر سو افشاں بکھیر رکھی تھی جس سے سارا عالم فیضیاب ہوا جا رہا تھا۔ بہادر شہزادہ کی اچھائی اور فرض شناسی مشک کی خوشبو کی طرح نیک نامی کی صورت دور دور تک پھیل رہی تھی۔ ایسی نرینہ اولاد پا کر بادشاہ سلامت بھی اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK