• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مرکزی بجٹ؛ بحیثیت طالب علم جانئے ۵؍اہم سوالوں کے جواب

Updated: July 26, 2024, 5:59 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai

۲۳؍ جولائی کو پیش کئے جانے والے بجٹ کے متعلق بعض سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات طلبہ کو ضرور معلوم ہونے چاہئیں کیونکہ بجٹ ہی آئندہ سال کیلئے ملک کی ترقی کی راہ کا تعین کرتا ہے۔

People watch Union Budget presented by Nirmala Sitharaman on TV in a noisy room in Lucknow. Photo: PTI
لکھنؤ کے ایک شور روم میں لوگ نرملا سیتا رمن کی جانب سے پیش کیا جانے والا مرکزی بجٹ ٹی وی پر دیکھتے ہوئے۔ تصویر: پی ٹی آئی

۲۳؍ جولائی کو مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے پارلیمنٹ میں اپنا ساتواں عام بجٹ پیش کیا۔ بجٹ ایک پیچیدہ دستاویز سمجھی جاتی ہے جسے سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم، ذیل میں بجٹ کے متعلق چند سوالوں کے جوابات آسان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
مرکزی بجٹ کیا ہے؟
 جس طرح گھروں میں ماہانہ خرچ کیلئے بجٹ بنایا جاتا ہے کہ اِن ۳۰؍ یا ۳۱؍ دنوں میں مختلف کاموں کیلئے اتنی رقم خرچ کی جائیگی، ٹھیک اسی طرح حکومت سال بھر یعنی ۳۶۵؍ دن کا بجٹ بناتی ہے کہ آئندہ ایک سال تک مختلف مدوں میں کتنی رقم خرچ کی جائے گی۔ اسے مرکزی بجٹ اسلئے کہتے ہیں کہ یہ مرکزی حکومت کی جانب سے پورے ملک کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔ ریاستی حکومتیں بھی اپنی اپنی ریاستوں کیلئے بجٹ بناتی ہیں، جیسے مہاراشٹر کی حکومت ریاست کی فلاح و بہبود کیلئے مختلف شعبوں کیلئے رقومات مختص کرے گی، اسے ریاستی بجٹ کہا جاتا ہے۔ بجٹ کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ملک کو مختلف محاذوں پر مضبوط کرنے کیلئے رقومات مختص کی جائیں اور آئندہ ایک سال تک اسے مستحکم کیا جائے۔ 
 خیال رہے کہ ۲۰۱۷ء سے مرکزی بجٹ یکم فروری کو پیش کیا جارہا ہے۔ اس سے قبل بجٹ یکم مارچ کو پیش کیا جاتا تھا۔ چونکہ امسال لوک سبھا انتخابات ہونے والے تھے اس لئے امسال یکم فروری کو عبوری بجٹ پیش کیا گیا تھا جبکہ مکمل بجٹ ۲۳؍ جولائی کو پیش کیا گیا۔ 
بجٹ میں طلبہ کیلئے کیا ہے؟
 بجٹ میں خاص طلبہ کیلئے کوئی اہم اعلان نہیں کیا گیا ہے البتہ حکومت نے تعلیم کے شعبے کیلئے ایک لاکھ ۲۵؍ ہزار ۶۳۸؍ کروڑ روپے مختص کئے ہیں جس کے تحت ملک کے تعلیمی اداروں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے طلبہ حکومت سے ۱۰؍ لاکھ روپے کا آسان قرض بھی لے سکتے ہیں۔ تاہم، یہ قرض ملکی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے ہی لیا جاسکتا ہے۔
 حکومت نے نوجوانوں کو باصلاحیت اور ہنر مند کیلئے مختلف اسکیمیں بھی شروع کی ہیں جن کے تحت حکومت کی طرف سے روزگار بھی فراہم کئے جائیں گے۔ بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کیلئے حکومت نے کمپنیوں کو بھی سہولیات مہیا کی ہیں، مثلاً پہلی مرتبہ افرادی قوت کا حصہ بننے والے افراد کو حکومت کی جانب سے بھی پہلی مرتبہ ۱۵؍ ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ اسی طرح جو کمپنیاں روزگار پیدا کریں گی، ان میں حکومت ای پی ایف او میں ۲؍ سال تک ہر ماہ ۳؍ ہزار روپے کی شراکت کرے گی۔
حکومت کے پاس پیسہ کہاں سے
 آتا ہے اور کہاں خرچ ہوتا ہے؟
 حکومت کے خزانے میں ۸؍ طریقوں سے رقم جمع ہوتی ہے: قرض اور واجبات (۲۷؍ فیصد)، کارپوریٹ ٹیکس (۱۷؍ فیصد)، انکم ٹیکس (۱۹؍ فیصد)، کسٹم (۴؍ فیصد)، ایکسائز ڈیوٹی (۵؍ فیصد)، جی ایس ٹی (۱۸؍ فیصد)، دیگر ٹیکس آمدنی (۹؍ فیصد)، اور سرکاری املاک کی فروخت (ایک فیصد)۔ حکومت رواں مالی سال میں کل ۴۸ء۲۱؍ لاکھ کروڑ روپے جمع کرے گی۔ 
 ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی میں جو ریاستوں کا حصہ ہے اس کے تحت حکومت کو ریاستوں کو ۱۲ء۴۷؍ لاکھ کروڑ (۲۱؍ فیصد) دینے ہوں گے۔ اس کےعلاوہ حکومت نے جو قرض لیا ہےاس پرسود کی ادائیگی میں۱۱ء۶۳؍ لاکھ کروڑ (۱۹؍ فیصد) خرچ ہوں گے۔ مرکزی اسکیموں پر ۱۰ء۸۸؍لاکھ کروڑ روپے (۱۸؍ فیصد) خرچ ہوںگے۔ حکومت مرکز اورریاستوں کے درمیان رقوم تقسیم کرنے والے مالیاتی کمیشن اور دیگر منتقلی کی مد میں ۵ء۲۴؍لاکھ کروڑ روپے (۹؍فیصد)دیگی۔ ریاستی اسکیموںکے نفاذ میںحکو مت ۵ء۰۶؍ لاکھ کروڑ  (۸؍فیصد)کی رقم دے گی۔ دیگر مدوں میں سبسڈی کے طورپرحکومت کے ۴ء۲۸؍ لاکھ روپے (۶؍ فیصد) خرچ ہوں گے۔مرکزی املاک کی دیکھ بھال میںہونے والا خرچ ۳ء۷۹؍ لاکھ کروڑ روپے (۶؍ فیصد)تک ہوگا۔ پنشن کیلئے حکومت ۲ء۴۳؍ لاکھ کروڑ (۴؍ فیصد ) فراہم کرے گی ۔مرکزی ملازمین کی تنخواہ کیلئے ۱ء۶۲؍ لاکھ کروڑ روپے(۳؍ فیصد) خرچ ہوں گے ۔ اس کے علاوہ دیگر اخراجات ۳ء۲۸؍لاکھ کروڑ روپے تک ہے۔
حکومتیں قرض کیوں لیتی ہیں؟
 عام طور پر حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے قرض لیتی ہے۔ اس طرح وہ عوامی خدمات اور منصوبوں پر اضافی رقم خرچ کرسکتی ہے۔ حکومتیں اپنی آمدنی اور خرچ کے درمیان فرق کو ختم کرنے کیلئے بھی قرض لیتی ہیں کیونکہ ٹیکس میں اضافہ کے ذریعے رقم اکٹھا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح شہریوں پر مہنگائی کا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور معاشی ترقی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
 کوئی بھی حکومت، عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے علاوہ مختلف ممالک سے بھی قرض لے سکتی ہے۔ تاہم، اسے قرض ادا بھی کرنا ہوتا ہے لیکن عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے اعدادوشمار کہتے ہیں کہ ان سے قرض لینے والا نصف سے زائد ممالک قرض ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
عام آدمی کی زندگی پر بجٹ کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟
 جب بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو کئی اشیاء سستی اورکئی مہنگی ہوجاتی ہیں۔ شہریوں کو انکم ٹیکس کے علاوہ کئی اشیاء پر کسٹم ادا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں جی ایس ٹی اور ایکسائز ڈیوٹی بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔ مختلف اشیاء پر ٹیکس بڑھ یا گھٹ جانے کے سبب اشیاء مہنگی یا سستی ہوجاتی ہیں۔ امسال کے بجٹ کا عوامی زندگی پر مثبت اثر نظر نہیں آئے گا البتہ مہنگائی بڑھنے کے خدشات زیادہ ہیں۔
سستی ہونے والی اشیاءیا خدمات
 کینسر سے جڑی تین ادویات پر کسٹم ڈیوٹی اور ایکس رے ٹیوب اور فلیٹ پینل ڈٹیکٹر پر درآمد ٹیکس ختم کیا گیا ہے۔ موبائل فون، پرزوں اور چارجر پر کسٹم ۱۵؍ فیصد کم کردیا گیا ہے۔ ملک کیلئے ضروری ۲۵؍ معدنیات پرکسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔ سولرسیل اور شمسی توانائی کے پینل کی مینوفیکچرنگ کے سامان پر ٹیکس میں رعایت دی گئی ہے۔ حکومت نے سونا اور چاندی پر کسٹ ڈیوٹی کم کرکے ۶؍فیصد کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ پلاٹینم پر بھی کسٹم ڈیوٹی گھٹا کر ۴ء۶؍ فیصد کردی گئی ہے۔
مہنگی ہونے والی اشیاءیا خدمات
پی وی سی فلیکس بینرس، بعض ٹیلی مواصلات اشیاء کی درآمد اب مہنگی ہوگی۔ امونیم نائٹریٹ پر درآمد ٹیکس ۱۰؍ فیصد کردیا گیا ہے۔ از خود تلف نہ ہونے والا پلاسٹک مہنگا ہوگا جس پر درآمد ٹیکس ۲۵؍ فیصدکردیا گیا ہے۔
 طلبہ بجٹ کے متعلق مزید سوالات کے جوابات بھی تلاش کرکے انہیں اپنی بیاض میں نوٹ کرلیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK