Inquilab Logo

مفت کی روٹی

Updated: April 29, 2023, 1:23 PM IST | Mumbai

کسان جھاڑی کے نیچے بیٹھ کر روٹی کھاتا رہتا ہے۔ اسی وقت ایک بھیڑیا آکر پوچھتا ہے کہ کیا کھا رہے ہو؟ کسان اسے روٹی کھانے دیتا ہے جو اسے مزے کی لگتی ہے۔ وہ کسان سے پوچھتا ہے کہ روٹی کیسے ملتی ہے؟ جس کا جواب سن کر اسے محسوس ہوتا ہے کہ روٹی حاصل کرنے کیلئے کافی مشقت کرنا پڑتی ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ایک کسان اپنے بیلوں کے لئے گھاس چھیل رہا تھا۔ جب دوپہر ہوئی تو وہ ایک جھاڑی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اور روٹی نکال کر کھانے لگا۔ ابھی اس نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ایک بھیڑیا آگیا اور بڑی عاجزی کے ساتھ کسان سے بولا، ’’بھیّا کسان! کیا کھا رہے ہو؟‘‘
 ’’روٹی!‘‘ کسان نے جواب دیا۔
 ’’کیسی ہوتی ہے روٹی؟‘‘ بھیڑیے نے پوچھا۔ ’’بڑے مزے کی۔‘‘ کسان نے روٹی کا مزہ لیتے ہوئے جواب دیا۔ ’’تب تو مجھے بھی چکھاؤ۔‘‘ بھیڑیے نے زبان نکالتے ہوئے کہا۔
 ’’ضرور چکھو۔‘‘ کسان نے یہ کہہ کر ایک روٹی بھیڑیے کو دے دی۔
 روٹی کھا کر بھیڑیے کو بڑا مزہ آیا۔ ہونٹ چاٹتے ہوئے بولا، ’’سچ مچ بڑے مزے کی ہے روٹی! ذرا مجھے بھی بتاؤ، یہ کیسے مل سکتی ہے؟‘‘
 کسان نے کہا، ’’اچھی بات ہے۔ مَیں بتاتا ہوں کہ روٹی کیسے ملتی ہے۔ بھیّا پہلے تمہیں زمین جوتنی پڑے گی۔‘‘
 ’’پھر مل جائے گی مجھے روٹی؟‘‘ بھیڑیے نے سچ میں ٹوکتے ہوئے کہا۔
 کسان نے کہا، ’’صبر کرو بھائی، صبر کرو۔ ابھی روٹی کہاں! جب زمین کو اچھی طرح جوت لو گے تو زمین پر پٹیلا پھیرنا پڑے گا تاکہ مٹی کے ڈھیلے ٹوٹ جائیں۔‘‘
 ’’اچھا تو پٹیلا پھیرنے کے بعد روٹی مل جائے گی؟‘‘ بھیڑیے نے خوشی سے دُم ہلاتے ہوئے کہا۔
 کسان اُس کے پھر ٹوکنے پر چڑ گیا اور بولا، ’’پہلے پوری بات تو کہہ لینے دو۔ خواہ مخواہ بیچ میں ٹوکتے ہو۔ ابھی تو تم کو گیہوں بونا پڑے گا....‘‘
 ’’تب تو روٹی مل جائے گی؟‘‘ بھیڑیے نے ہونٹ چاٹتے ہوئے پوچھا۔
 ’’ابھی کہاں! ابھی تو فصل کا انتظار کرنا پڑے گا۔ سردیوں کے بعد ہولی تک کہیں فصل پک کر تیار ہوگی۔‘‘ ’’افوہ!‘‘ بھیڑیے نے ٹھنڈی سانس بھری، ’’بڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن اِس کے بعد تو خوب روٹی ملے گی۔‘‘
 ’’ابھی کہاں....‘‘ کسان نے بھیڑیے کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا، ’’پہلے فصل کاٹنی ہوگی۔ اس کے بعد گٹھے بنانے ہوں گے۔ پھر گٹھوں کا ڈھیر بنانا ہوگا۔ دھوپ اُس کو سکھائے گی۔ ہوا بھوسا اڑائے گی۔ اِس کے بعد اُسے پھٹکنا پڑے گا۔‘‘
 ’’تب تو روٹی مل جائے گی؟‘‘ بھیڑیے نے پریشان ہو کر کہا۔
 کسان نے کہا، ’’بڑے بے صبر ہو۔ اتنی دیر سے یہی رٹ لگا رکھی ہے۔ ارے بھائی ابھی تو اناج کو بوروں میں بھرنا پڑے گا۔ پھر بوروں کو چکی پر لے جانا پڑے گا۔ چکی میں اناج پسے گا تب کہیں آٹا بنے گا۔‘‘
 بھیڑیے نے کہا، ’’بس اب تو روٹی مل جائے گی؟ بڑا انتظار کرنا پڑتا ہے روٹی کے لئے۔‘‘
 ’’امَاں! ابھی سے روٹی ملے گی؟ ابھی تو آٹا گوندھنا پڑے گا۔ پھر گرم چولہے پر روٹی پکانی پڑے گی۔‘‘ کسان نے کہا۔
 ’’بس پھر تیار ہو جائیگی روٹی؟‘‘ بھیڑیا بولا۔
 ’’ہاں اب جا کر روٹی تیار ہوئی۔ اب تم اطمینان سے روٹی کھا سکو گے۔‘‘ کسان نے اپنی بات ختم کی۔
 بھیڑیا سوچ میں پڑ گیا۔ اور پنجے سے سر کھجاتے ہوئے بولا، ’’بھئی یہ تو بڑا مشکل کام ہے ایک روٹی کے لئے اتنی محنت! مجھے تو کوئی آسان سی ترکیب بتاؤ۔‘‘
 کسان نے کہا، ’’بھئی اگر تم محنت کرنا نہیں چاہتے اور مفت کی روٹی کھانا چاہتے ہو تو اس کا بھی طریقہ بتائے دیتا ہوں۔‘‘
 ’’ہاں ہاں، کوئی آسان طریقہ بتاؤ۔‘‘ وہاں ایک گھوڑا گھاس چر رہا ہے اُس کو....‘‘
 ابھی کسان نے اپنی بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ بھیڑیا بھاگتا ہوا گھوڑے کے پاس پہنچا اور بولا، ’’گھوڑے گھوڑے! مَیں تجھے کھانا چاہتا ہوں۔‘‘ گھوڑا یہ سن کر مسکرایا اور بولا، ’’بھئی مجھے اعتراض نہیں، ضرور کھا لو لیکن میرے سموں سے نعل نکال دو، یہ لوہے کے ہیں۔ تمہارے منہ میں گڑ جائیں گے۔‘‘
 ’’اچھی بات ہے۔‘‘ بھیریے نے کہا۔
 گھوڑے نے اپنے سُم بھیڑیے کی طرف کر دیئے۔ بھیڑیا نعل نکالنے کے لئے جیسے ہی آگے بڑھا گھوڑے نے ایسی دولتی جھاڑی کہ بھیڑیا دور جا گرا اور چلّاتا ہوا بھاگا۔
 اب بھیڑیا دریا کے کنارے پہنچا جہاں مرغابیاں تھیں۔ بھیڑیے نے سوچا کیوں نہ اِن مرغابیوں ہی کو کھا لوں۔ مرغابیوں کے پاس جا کر اُس نے کہا، ’’مَیں تمہیں کھانا چاہتا ہوں۔‘‘
 مرغابیوں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’بڑی خوشی سے کھاؤ۔ مگر شرط یہ ہے کہ پہلے ہمارا ایک کام کر دو۔‘‘ ’’وہ کیا؟‘‘ بھیڑیے نے پوچھا۔
 ’’ہمیں ایک گانا سنا دو۔‘‘
 ’’اچھی بات ہے۔‘‘ یہ کہہ کر بھیڑیا ایک ٹیلے پر جا بیٹھا اور سر اوپر اٹھا کر گانے لگا۔ اُدھر مرغابیاں موقع پاتے ہی اڑ گئیں۔
 بھیڑیا اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور سوچنے لگا کہ مَیں بھی کیسا بیوقوف ہوں۔ مرغابیوں کو گانا سنانے لگا۔ اب کسی سے ملوں گا تو ایسی بیوقوفی نہیں کروں گا۔
 ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے ایک بوڑھا آدمی نظر آیا، اُس نے دوڑ کر اُس سے کہا، ’’بڑے میاں! مَیں تمہیں کھانا چاہتا ہوں۔‘‘
 ’’مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔‘‘ بڑے میاں نے کہا، ’’لیکن بھائی تم یہ پاؤڈر لگا لو، اس کے بعد تمہیں میرا گوشت کھانے میں زیادہ مزہ آئیگا۔‘‘
 بھیڑیا راضی ہوگیا۔ بڑے میاں نے اپنی جیب سے ڈبیا نکالی اور بھیڑیے کو دے دی۔
 لالچی بھیڑیے نے جلدی سے پاؤڈر اپنے بدن پر لگا لیا اور اُسے کھجلی ہونے لگی۔ کھجاتے کھجاتے اس کا برا حال ہوگیا۔ جب کھجلی رکی تو اس نے دیکھا کہ وہاں بوڑھے کا نام و نشان بھی نہ تھا۔
 اب تو بھیڑیے کو بہت افسوس ہوا، لیکن کرتا تو کیا کرتا۔ اپنی بیوقوفی پر خود ہی شرمندہ ہوا اور آگے بڑھا۔ چلتے چلتے جب دور نکل گیا تو اُسے بھیڑوں کا ایک ریوڑ نظر آیا۔ چرواہا سو رہا تھا۔ بھیڑیے نے سب سے موٹی بھیڑ کو پکڑ لیا اور بولا، ’’بھیڑ بھیڑ! مَیں تمہیں کھانا چاہتا ہوں۔‘‘
 ’’اچھا!‘‘ بھیڑ نے کہا، ’’میری قسمت میں یہی لکھا ہے، لیکن بھیڑیے مَیں چاہتی ہوں کہ جلدی مر جاؤں اور میری ہڈیوں سے تمہارے دانت نہ ٹوٹیں۔ ایسا کرو، تم یہاں منہ کھول کر کھڑے ہو جاؤ میں اوپر سے تمہارے منہ میں کود پڑتی ہوں۔‘‘
 بھیڑیا منہ پھاڑ کر کھڑا ہوگیا۔ بھیڑ پہاڑی چڑھ گئی۔ وہ دوڑتی ہوئی آئی اور اس نے اِس زور سے بھیڑیے کے سر پر ٹکر ماری کہ بھیڑیا بے ہوش ہو کر گِر پڑا۔
 جب بھیڑیے کو ہوش آیا تو وہ خود میں لت پت تھا، گھبرا کر بولا، ’’عجیب بات ہے، بھیڑ بھی ہاتھ سے گئی، اب کیا کروں۔‘‘
 اتنے میں وہ کسان بھی آگیا جس نے بھیڑیے کو روٹی کے بارے میں بتایا تھا۔ بھیڑیے کی حالت دیکھ کر اُس نے کہا
 ’’کوئی بات نہیں، تمہیں یہ تو معلوم ہوگیا کہ مفت کی روٹی کیسی ہوتی ہے۔‘
اُردو کی نئی کتاب سے ماخوذ

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK