Inquilab Logo

حاتم کی سخاوت

Updated: March 18, 2023, 9:49 AM IST | Mumbai

حاتم عرب کے ایک مشہور قبیلے ’’طے‘‘ کا سردار تھا۔ اسی وجہ سے اس کو حاتم طائی کہتے ہیں۔

 Hatim Tai.
حاتم طائی

حاتم عرب کے ایک مشہور قبیلے ’’طے‘‘ کا سردار تھا۔ اسی وجہ سے اس کو حاتم طائی کہتے ہیں۔ یہ اپنی نیکی، سخاوت اور خداترسی کی وجہ سے تمام دنیا میں مشہور ہے۔ تم آج کے سبق میں حاتم کی نیکی کا ایک بہت دلچسپ واقعہ پڑھو گے۔ حاتم کے وقت میں ایک بادشاہ عرب کا نوفل نام تھا۔ اس کو حاتم کے ساتھ (بہ سبب نام آوری کے) دشمنی کمال ہوئی۔ بہت سا لشکر فوج جمع کرکے لڑائی کی خاطر چڑھ آیا۔ حاتم تو خدا ترس اور نیک مرد تھا۔ یہ سمجھا کہ اگر مَیں بھی جنگ کی تیاری کروں تو خدا کے بندے مارے جائیں گے اور بڑی خوں ریزی ہوگی۔ اس کا عذاب میرے نام لکھا جائے گا۔ یہ بات سوچ کر تن ِ تنہا اپنی جان لے کر ایک پہاڑ کی کھوہ میں جا چھپا۔ جب حاتم کے غائب ہونے کی خبر نوفل کو معلوم ہوئی، سب گھر بار اور اسباب حاتم کا قرق کیا اور منادی کرا دی کہ جو کوئی حاتم کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر پکڑ لاوے پانچ سو اشرفی بادشاہ کی سرکار سے انعام پاوے۔ یہ سن کر سب کو لالچ آیا اور جستجو حاتم کی کرنے لگے۔
 ایک روز ایک بوڑھا اور اس کی بڑھیا دو تین بچے چھوٹے چھوٹے ساتھ لئے ہوئے لکڑیاں توڑنے کے واسطے اس غار کے پاس (جہاں حاتم پوشیدہ تھا) پہنچے اور لکڑیاں اس جنگل کی چننے لگے۔ بڑھیا بولی کہ، ’’ہمارے دن کچھ بھلے آتے تو حاتم کو کہیں پاتے اور اس کو پکڑ کر نوفل کے پاس لے جاتے تو وہ پانچ سو اشرفیاں دیتا اور ہم آرام سے کھاتے۔ اس دکھ دھندے سے چھوٹ جاتے۔‘‘ بوڑھے نے کہا، ’’کیا ٹرٹر کرتی ہے؟ ہمارے طالع میں یہی لکھا ہے کہ روز لکڑیاں توڑیں اور سر پر دھرے بازار میں بیچیں، تب نون روٹی میسر آوے۔ یا ایک روز جنگل سے باگھ لے جاوے۔ لے اپنا کام کر۔ ہمارے ہاتھ حاتم کاہے کو آئے گا اور بادشاہ سے اتنے روپے دلاوے گا۔‘‘ عورت نے ٹھنڈی سانس بھری اور چپکی ہو رہی۔ دونوں کی باتیں حاتم نے سنیں۔ مردمی اور مروت سے بعید جانا کہ اپنے تئیں چھپائے اور دونوں بے چاروں کو مطلب تک نہ پہنچائے۔ سچ ہے اگر آدمی میں رحم نہیں تو وہ انسان نہیں اور جس کے جی میں درد نہیں وہ قسائی ہے۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
 غرض حاتم کی جواں مردی نے نہ قبول کیا کہ اپنے کانوں سے سن کر چپکا ہو رہے۔ فوراً ہی باہر نکل آیا اور اس بوڑھے سے کہا کہ ’’اے عزیز حاتم مَیں ہی ہوں۔ میرے تئیں نوفل کے پاس لے چل۔ وہ مجھے دیکھے گا اور جو کچھ روپے دینے کا وعدہ کیا ہے تجھے دیوے گا۔‘‘
 پیر مرد نے کہا، ’’سچ ہے کہ اس صورت میں بھلائی اور بہبودی میری البتہ ہے لیکن وہ کیا جانے تجھ سے کیا سلوک کرے؟ اگر مار ڈالے تو مَیں کیا کروں؟ یہ مجھ سے ہرگز نہ ہوسکے گا۔ تجھ کو اپنی طمع کی خاطر دشمن کے حوالے کر دوں۔ وہ مال کَے دن کھاؤں گا اور کب تک جیوں گا۔ آخر مر جاؤں گا تب خدا کو کیا جواب دوں گا۔‘‘
 حاتم نے بہتیری منت کی کہ مجھے لے چل، مَیں اپنی خوشی سے کہتا ہوں اور ہمیشہ اسی آرزو میں رہتا ہوں کہ میری جان و مال کسو کے کام آوے تو بہتر ہے۔‘‘ لیکن وہ بوڑھا کسی طرح راضی نہ ہوا کہ حاتم کو لے جائے اور انعام پاوے۔ آخر لاچار ہو کر حاتم نے کہا کہ ’’اگر تو مجھے یوں نہیں لے جاتا تو مَیں آپ سے آپ بادشاہ کے پاس جا کر کہتا ہوں کہ اس بوڑھے نے مجھے جنگل میں پہاڑ کی کھوہ میں چھپا رکھا تھا۔‘‘ وہ بوڑھا ہنسا اور بولا، ’’بھلائی کے بدلے برائی ملے تو یا نصیب۔‘‘ اس رد و بدل کے سوال و جواب میں آدمی اور بھی آپہنچے۔ بھیڑ لگ گئی۔ انہوں نے معلوم کیا کہ حاتم یہی ہے۔ تُرت پکڑ لیا اور حاتم کو لے چلے۔ وہ بوڑھا بھی افسوس کرتا ہوا پیچھے پیچھے ساتھ ہو لیا۔ جب نوفل کے روبرو لے گئے تو اس نے پوچھا کہ اس کو کون پکڑ لایا؟
 ایک بد ذات سنگ دل بولا کہ، ’’ایسا کام سوائے ہمارے کون کرسکتا ہے؟ یہ فتح ہمارے نام ہے۔ ہم نے عرش پر جھنڈا گاڑا ہے۔‘‘ ایک اور لن ترانی والا ڈینگ مارنے لگا کہ ’’مَیں کئی روز سے دوڑ دھوپ کر جنگل سے پکڑ لایا ہوں میری محنت پر نظر کیجئے اور جو قرار ہے سو دیجئے۔ اس طرح اشرفیوں کے لالچ میں ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ کام مجھ سے ہوا۔ وہ بوڑھا چپکا ایک کونے میں کھڑا سب کی شیخیاں سن رہا تھا اور حاتم کی خاطر کھڑا روتا تھا۔ جب اپنی اپنی دلاوری اور مردانگی سب کہہ چکے تب حاتم نے بادشاہ سے کہا، ’’اگر سچ پوچھو تو یہ ہے کہ وہ بوڑھا جو الگ سب سے کھڑا ہے مجھ کو لایا ہے۔ اگر قیافہ پہچاننا جانتے ہو تو دریافت کرو اور پکڑنے کی خاطر جو قبول کیا ہے پورا کرو کہ سارے ڈیل میں زبان حلال ہے، مرد کو چاہئے کہ جو کہے سو کرے۔ نہیں تو جیبھ حیوان کو بھی خدا نے دی ہے پھر حیوان اور انسان میں کیا تفاوت ہے؟‘‘
 نوفل نے اس بوڑھے لکڑہارے کو پاس بلا کر پوچھا کہ، ’’سچ کہہ کہ اصل کیا ہے؟ حاتم کو کون پکڑ لایا۔‘‘ اس بے چارے نے سر سے پاؤں تک جو گزرا تھا راست کہہ سنایا اور کہا کہ، ’’حاتم میری خاطر آپ سے چلا آیا ہے۔‘‘ نوفل نے یہ ہمت حاتم کی سن کر متعجب ہوا کہ ’’بل بے تیری سخاوت!‘‘ اپنی جان کا بھی خطرہ نہ کیا۔ جتنے جھوٹے دعوے حاتم کے پکڑنے کا کرتے تھے۔ حکم کیا ان کی ٹنڈیاں کس کر پانچ سو اشرفی کے بدلے پانچ پانچ سو جوتیاں ان کے سر پر لگاؤ کہ ان کا بھیجا نکل پڑے۔ وہیں تڑ تڑ پیزاریں پڑنے لگیں کہ ایک دم میں سر ان کے گنجے ہوگئے۔ سچ ہے جھوٹ بولنا ایسا گناہ ہے کہ کوئی گناہ اس کو نہیں پہنچتا۔ خدا سب کو اس بلا سے محفوظ رکھے اور جھوٹ بولنے کا چسکا نہ دے۔ بہت آدمی جھوٹ موٹ بکے جاتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت سزا پاتے ہیں۔
 غرض ان سب کو موافق ان کے انعام دے کر نوفل نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حاتم جیسے شخص ایک عالم کو اس سے فیض پہنچتا ہے اور محتاجوں کی خاطر اپنی جان سے دریغ نہیں کرتا اور خدا کی راہ میں سر تا پا حاضر ہے۔ دشمنی رکھنی اور مدعی ہونا مردانیت اور جواں مردی سے بعید ہے۔ وہیں حاتم کا ہاتھ بڑی دوستی اور گرمجوشی سے پکڑ لیا اور کہا، ’’کیوں نہ ہو! جب ایسے ہو تب ایسے ہو۔‘‘ تواضع تعظیم کرکے پاس بٹھایا اور حاتم کا ملک و املاک اور مال و اسباب جو کچھ ضبط کیا تھا وہیں چھوڑ دیا نئے سرے سے سرداری قبیلہ طے کی اسے دی اور اس بوڑھے کو پانچ سو اشرفیاں اپنے خزانے سے دلوا دیں۔ وہ دعا دیتا چلا گیا۔n
نوٹ: حاتم کی بہادری کا یہ قصہ جس کتاب سے لیا گیا ہے اس کا نام ’’باغ و بہار‘‘ ہے۔ یہ کتاب ’’میر امن دہلوی‘‘ نے اب سے کوئی سو برس پہلے لکھی تھی۔ اس زمانے کے لوگ اپنی عبارت کو بہت خوبصورت بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے جس طرح اشعار میں قافیے کی شان پیدا ہوجائے۔

hatim tai Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK