Inquilab Logo

مرکزی بجٹ کے موقع پر جانئے چند اہم معاشی اصطلاحات

Updated: February 04, 2022, 3:48 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

یکم فروری ۲۰۲۲ء کو وزیر مالیات نرملا سیتارمن بجٹ پیش کریں گی۔عام طور پر بجٹ کو خشک اور مشکل دستاویز سمجھا جاتا ہے اس کی ایک وجہ ’’ٹرمینولوجیز‘‘ سے عدم واقفیت ہوتی ہے۔

Representation Purpose Only- Picture INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

یکم فروری ۲۰۲۲ء کو ملک کی وزیر مالیات نرملا سیتا رمن مرکزی بجٹ پیش کریں گی۔ ملک کے مرکزی بجٹ کو آئین ہند کی دفعہ ۱۱۲؍ میں ’’اینول فنانشیل اسٹیٹ مینٹ‘‘ بھی کہا گیا ہے۔اسے ہر سال حکومت کی جانب سے یکم فروری کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ نئے مالی سال (جو یکم اپریل سے شروع اور۳۱؍ مارچ کو ختم ہوتا ہے) کے آغاز سے قبل اس کو عمل میں لایا جا سکے۔ واضح رہے کہ ۱۹۹۹ء تک بجٹ فروری کی آخری تاریخ کو شام ۵؍  بجے پیش کیا جاتا تھا۔ تاہم، ۲۰۰۱ء سے اسے فروری کی آخری تاریخ کو صبح ۱۱؍ بجے پیش کیا جانےلگا۔ فی الحال اسے یکم فروری کو پیش کیا جاتا ہے۔یکم اپریل سے نافذ ہونے سے پہلے بجٹ کا لوک سبھا میں پاس ہونا ضروری ہے۔ 
 امسال کا بجٹ ایسے وقت میں پیش کیا جائے گا جب ملک کی معیشت مختلف مسائل کا شکار ہے، مہنگائی اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہیں نیز نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی مار جھیلنے والی معیشت اب کورونا وائرس کے سبب سست روی کا شکار ہوگئی ہے۔ لہٰذا لوگوں کو توقع ہے کہ امسال بجٹ میں وزیر مالیات کی جانب سے کئی اہم اور بڑے اعلان کئے جائیں گے۔ 
 خیال رہے کہ معاشیات اور تجارت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں کئی اصطلاحات رائج ہیں جبکہ نئی نئی وضع ہوتی رہتی ہیں ۔ انہیں سمجھنا عام آدمی کیلئے مشکل ہوتا ہے اس لئے کاروبار اور معیشت پر نظر رکھنے والے چند افراد ہی بجٹ کو صحیح طریقے سے سمجھ پاتے ہیں ۔
تاہم، ایک طالب علم کے طور پر آپ کو اپنے ملک کی معیشت اور کاروباری معاملات پر نظر رکھنی چاہئے اور بجٹ کو سمجھ کر دیگر افراد کو بھی سمجھانا چاہئے۔ چونکہ بیشتر طلبہ بجٹ کی مشکل اصطلاحات سے واقف نہیں ہونگے اسلئے ان کالموں میں معاشی اصطلاحات کو آسان الفاظ میں سمجھایا گیا ہے۔ 
اینول فنانشیل اسٹیٹ مینٹ
 اس کا شارٹ فارم ’’اے ایف ایس‘‘ ہے۔ بجٹ پیش کرتے وقت وزیر مالیات کئی مرتبہ اس لفظ کا استعمال کریں گی اسلئے اسے ذہن نشین کرلیں ۔ اے ایف ایس گزشتہ اور آئندہ مالی سال کا ایک اکاؤنٹ ہوتا ہے جس میں حکومت اپنے اخراجات اور وصولیابی کے بارے میں بتاتی ہے اور آئندہ سال کا تخمینہ پیش کرتی ہے۔ آئین کی دفعہ ۱۱۲؍ کے تحت مرکزی حکومت کو پارلیمنٹ میں ہر مالی سال کے شروع ہونے سے قبل اے ایف ایس پیش کرکے پاس کروانا ہوتا ہے تاکہ آئندہ مالی سال میں سرمائے کی کمی نہ ہو۔ اگر لوک سبھا میں یہ پاس نہیں ہوگا تو حکومت، سرکاری خزانے سے رقم نہیں نکال سکے گی۔
معاشی یا اقتصادی سروے
 اقتصادی سروے وزارت خزانہ کی ایک اہم دستاویز ہے۔ یہ ہر سال مرکزی بجٹ سے پہلے پیش کی جاتی ہے۔ یہ سروے گزشتہ مالی سال کے دوران ہندوستانی معیشت کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرتا ہے۔ معیشت کی موجودہ حالت کیساتھ یہ اقتصادی نقطہ نظر بھی فراہم کرتا ہے۔ چیف اقتصادی مشیر کی قیادت میں ایک ٹیم یہ دستاویز تیار کرتی ہے۔یہ دستاویز مرکزی بجٹ پیش کرنے سے ایک دن پہلے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کی جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر، اقتصادی سروے ہندوستان میں معاشی معاملات کی حالت اور مرکزی حکومت کے فیصلوں کے اثرات کو سمجھنے کیلئےایک مفید دستاویز ہے۔
افراطِ زر یا مہنگائی 
 افراطِ زر عام طور پر فیصد میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا پیمانہ ہے جس سے معیشت میں اشیاءاور خدمات میں ایک خاص مدت کے دوران اضافہ ناپا جاتا ہے۔ جب اندرونی یا بیرونی معاشی عوامل کی وجہ سے اشیاء اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اسے مہنگائی میں اضافہ کہا جاتا ہے۔ افراط زر میں اضافہ ملک کی کرنسی کی قدر اور لوگوں کی قوت خرید میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ 
مالیاتی پالیسی 
 مالیاتی پالیسی بنیادی طور پر تخمینہ شدہ ٹیکس اور سرکاری اخراجات کا خاکہ پیش کرتی ہے اور ملک کی اقتصادی پوزیشن کی نگرانی کیلئے ایک کلیدی کردار کے طور پر کام کرتی ہے۔ مالیاتی پالیسی اخراجات کی سطح اور ٹیکس کی شرحوں میں ایڈجسٹمنٹ کی نشاندہی کرتی ہے اور معاشی حالات پر اثر انداز ہونے کیلئے سرکاری اخراجات اور ٹیکس کی پالیسیوں کے استعمال سے بھی مراد ہے، خاص طور پر سامان اور خدمات، روزگار، افراط زر، اور اقتصادی ترقی کی مجموعی مانگ کے تعلق سے۔مالیاتی پالیسی کو عام طور پر مانیٹری پالیسی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے ملک کا مرکزی بینک یعنی ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) ملک میں رقم کی فراہمی پر نظر رکھتا ہے اور کمی بیشی کی صورت میں ایڈجسٹمنٹ کرتا ہے۔ کساد بازاری یا مندی کی صورت میں حکومت مانگ میں اضافہ کرنے کیلئے اس پالیسی کو استعمال کر سکتی ہے۔
مالیاتی خسارہ 
 جب حکومت کے کل اخراجات (بیرونی قرضوں کو چھوڑ کر) کل محصول سے زیادہ ہو جاتے ہیں تو اسے مالیاتی خسارہ کہتے ہیں ۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے مالیاتی خسارے کے صحتمند تناسب کو برقرار رکھنا انتہائی اہم ہے کیونکہ کل آمدنی حکومت کیلئے اپنے تمام محصولات اور سرمائے کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں ہے۔ایک مثالی مالیاتی خسارہ مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے ۴؍ فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔
ڈیویسٹمنٹ
 یہ ایک عمل ہے جس میں موجودہ اثاثوں کی فروخت ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری کے برعکس ہے۔سرمایہ کاری کا مطلب پیسے لگانا جبکہ ڈیویسٹمنٹ کا مطلب ہے اثاثوں کو فروخت کرکے پیسے نکالنا۔ خیال رہے کہ حکومت اپنے بہت سے اثاثوں کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 
بڑے اخراجات
 اس سے مراد حکومت کی طرف سے استعمال ہونے والے فنڈز ہیں مثلاً غیر منقولہ اثاثوں کو حاصل کرنے، برقرار رکھنے یا اپ گریڈ کرنے جیسے پراپرٹی، نئے انفراسٹرکچر پروجیکٹس یا نئے آلات خریدنے کیلئے رقم خرچ کرنا۔ جب کوئی حکومت بڑے منصوبوں پر پیسہ خرچ کرتی ہے تو ہونیوالے اخراجات کو عام طور پر سرمائے کے اخراجات کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے اخراجات عام طور پر بار بار نہیں ہوتے۔
کسٹم ڈیوٹی 
 کسٹم ڈیوٹی، ٹیکس کی ایک شکل ہے جو اس وقت وصول کی جاتی ہے جب کوئی سامان ملک میں درآمد/برآمد کیا جاتا ہے۔ کسٹم ڈیوٹی کسی نہ کسی شکل میں صارف ادا کرتے ہیں ۔ یہ بجٹ کا ایک اہم جز ہے۔
ڈائریکٹ ٹیکس 
 براہ راست ٹیکسیز میں آمدنی ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس شامل ہیں جو سال بھر میں ایک مخصوص آمدنی حاصل کرنے پر لوگوں اور کارپوریٹ کمپنیوں پر عائد کئے جاتے ہیں ۔ ہر بجٹ میں انکم اور کارپوریٹ ٹیکس ادا کرنے کی حد کم کی جاتی ہے یا بڑھائی جاتی ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ
 سی اے ڈی ملک کی تجارت ناپنے کا ایک پیمانہ ہے۔ اس کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ ملک کی درآمد، برآمد سے بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے یا دونوں برابر ہیں ۔
محصولاتی خسارہ
 محصولاتی خسارہ اس وقت ہوتا ہے جب حکومت کی خالص یا محصول کی آمدنی متوقع خالص آمدنی سے کم ہو۔یہ ایسی صورت حال ہوتی ہے جہاں آمدنی یا اخراجات کی اصل رقم بجٹ کی آمدنی اور اخراجات کے مطابق نہیں ہوتی۔ یہ اس بات کا تعین کرنے کا ایک اہم اشارہ ہے کہ حکومت اپنی باقاعدہ آمدنی سے زیادہ خرچ کر رہی ہے۔
محصولاتی منافع
 یہ محصولاتی خسارے کے برعکس ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جہاں حکومت کی خالص وصول شدہ آمدنی یا محصول کی آمدنی متوقع خالص آمدنی سے زیادہ ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK