Inquilab Logo

جِمّی اور شِمّی کا ٹکراؤ

Updated: July 23, 2022, 12:11 PM IST | Shakeel Anwar Siddiqui | Mumbai

نئے گھر کی ہر چیز نئی تھی۔ اس نئے گھر میں ایک خوبصورت لان بھی تھا۔ ایک روز نئے گھر کا یہ خوبصورت لان ہی جھگڑے کی جڑ بن گیا۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

نئے گھر کی ہر چیز نئی تھی۔ اس نئے گھر میں ایک خوبصورت لان بھی تھا۔ ایک روز نئے گھر کا یہ خوبصورت لان ہی جھگڑے کی جڑ بن گیا۔ ہوا یہ کہ پاپا نے لان کی دو کیاریوں میں غازی پوری گلاب کے پودے لگائے تھے۔ دونوں کیاریاں برابر برابر تھیں.... دونوں کیاریوں کو تقسیم کرتی ہوئی بس ایک منڈیر سی تھی جس پر گھاس اُگی ہوئی تھی... دائیں طرف کی کیاری کو پاپا جمی کی کیاری کہا کرتے تھے اور بائیں طرف کی کیاری کو شمی کی۔ صبح اٹھ کر جب جمی لان میں چہل قدمی کے لئے آتا تو اپنی کیاری کی دیکھ بھال بھی کرتا۔ وہ پودوں کو پانی دیتا اور کیاری کی صفائی کرتا۔ شمی بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح خوب دل لگا کر اپنی کیاری کی دیکھ بھال کرتا۔
 شام کو بھی دونوں اپنی اپنی کیاری کی دیکھ بھال کرنا نہیں بھولتے تھے۔ دونوں کیاریوں کے پودے خوب ہرے بھرے اور بڑے بڑے ہوگئے۔ پھر کلیاں نظر آنے لگیں۔ اور پھر ایک روز دونوں کیاریوں کے پودوں پر بہار آگئی۔ خوب ڈھیر سارے پھول کھل گئے، گلاب کے کٹورے جیسے پھول۔ سارا لان گلاب کی خوشبو سے مہک گیا۔ پاپا اور ممی نے دونوں کو خوب شاباشی دی۔ جمی اور شمی پھولے نہ سمائے۔
 مگر یہ کیا؟ ایک دن جمی جب اپنی کیاری کی صفائی کر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ گلاب کے گلابی پھولوں کے جھرمٹ میں ایک اودے رنگ کا بہت ہی خوبصورت پھول جھانک رہا تھا۔
 ’’بھئی واہ! اودے رنگ کا گلاب بھی ہوتا ہے!‘‘ جمی نے دل میں سوچا اور وہ اس پھول کی طرف بڑھا۔ اس نے قریب سے دیکھا۔ یہ گلاب کا پھول نہیں تھا۔ کسی اور ہی نسل کا پھول تھا۔
 ’’چل کر پاپا سے معلوم کیا جائے کہ یہ کس نسل کا پھول ہے؟‘‘ اس نے سوچا اور کیاری سے نکل کر اندر گھر میں چلا گیا۔
 اس وقت شمی لان میں آگیا۔ اس کی کیاری صاف تھی اور اس کو آج جاگنے میں کچھ دیر بھی ہوگئی تھی۔ اس لئے اس نے سوچا جلدی سے پودوں میں پانی ڈال دوں تاکہ وقت پر اسکول بھی جایا جاسکے۔ اس نے پانی ڈالنے کا فوارہ اٹھایا۔ پانی ڈالتے ڈالتے اس کی نظر بھی اودے رنگ کے اس پھول پر پڑی۔
 ’’ارے!‘‘ وہ پانی ڈالنا روک کر اس پھول کو دیکھنے لگا، ’’یہ پھول کہاں سے آگیا؟‘‘
 اس نے جھک کر دیکھا تو دونوں کیاریوں کو تقسیم کرنے والی منڈیر پر ایک پودا کھڑا تھا۔
 ’’کل صبح کو اس پودے کو یہاں سے نکال کر اپنی کیاری کے بیچ میں لگاؤں گا۔‘‘ شمی نے دل میں سوچا، ’’گلابی پھولوں کے درمیان یہ اودے رنگ کا پھول بڑا خوبصورت لگے گا۔‘‘
 شمی کیاری میں پانی ڈال کر کچھ دیر کے بعد اسکول چلا گیا۔ سات بجے اسکول پہنچنا تھا۔ جمی کا اسکول دس بجے سے شروع ہوتا تھا۔ ابھی اس کے جانے میں کافی دیر تھی۔ جب وہ پاپا کو اس پھول کے بارے میں بتانے گیا تو پاپا نہانے کیلئے غسل خانے میں جا چکے تھے۔ وہ لوٹ کر پھر لان میں آگیا۔
 ’’یہ پھول تو گلاب کے پھولوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔‘‘ جمی اودے رنگ کے اس پھول کو تکتا رہا۔ کیوں نہ اسے اٹھا کر اپنی کیاری میں لگا دوں۔‘‘ اس خیال کے آتے ہی جمی نے کھرپی سے پودے کی جڑ کی آس پاس کی مٹی کھودی تاکہ جڑ کٹ نہ جائے اور دوبارہ لگانے پر وہ پھول مرجھا نہ جائے۔ پھر اس نے اپنی کیاری میں ایک مناسب جگہ پر گڑھا کھود کر پودا لگا دیا ’’یہ پھول تو سچ مچ میری کیاری کی رونق بن گیا۔‘‘ جمی پودا دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ پھر وہ اندر آگیا، اس نے غسل کیا پھر ناشتہ کیا اور اسکول چلا گیا۔
 شام کو ہاکی کا میچ تھا اور جمی کو وہ میچ دیکھنے جانا تھا۔ شمی کو ہاکی کے کھیل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس لئے وہ سیدھا لان پر آگیا۔
 یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ وہ اودے رنگ کا پھول جمی بھیا کا کیاری میں نظر آرہا تھا۔
 ’’یہ بھی خوب رہی!‘‘ شمی بھنا گیا، ’’دیکھا مَیں نے اور لے اڑے بھیّا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ شمی نے کھرپی سنبھالی اور پھر تھوڑی ہی دیر میں وہ پودا اس کی کیاری میں لگ گیا۔
 صبح کو جمی جب لان پر آیا تو اسے اپنی کیاری میں اودے رنگ کا پھول نظر نہیں آیا۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا تو وہ شمی کی کیاری میں نظر آرہا تھا۔
 ’’اچھا تو یہ ان کی حرکت ہے۔‘‘ جمی نے کھرپی اٹھائی۔ اودے پھول والا پودا دوبارہ اس کی کیاری میں نظر آنے لگا۔
 اتنے میں شمی بھی آگیا۔ اس نے سوچا، وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔
 لیکن کھرپی تو اس کے پاس بھی تھی۔ وہ اس پودے کی طرف بڑھا۔
 ’’یہ کیا بدتمیزی ہے۔‘‘ جمی بولا۔
 ’’کیسی بدتمیزی؟‘‘ شمی نے جواب دیا۔
 ’’یہی کہ تم نے یہ پودا اپنی کیاری میں کیوں لگایا تھا؟‘‘ ’’اس لئے کہ یہ پہلے مَیں نے دیکھا تھا اور اس پر پہلے میرا حق تھا۔‘‘
 ’’تم بکتے ہو..... تم تو اس وقت پڑے خراٹے لے رہے تھے، جب مَیں نے سب سے پہلے اسے دیکھا تھا۔‘‘
 ’’آپ جھوٹے ہیں۔‘‘
 ’’تم خود جھوٹے ہو۔‘‘
 ’’تم جھوٹے ہو۔‘‘
 ’’پھر تو کہنا۔‘‘
 ’’کیا کر لو گے؟‘‘ شمی سینہ تان کر کھڑا ہوگیا۔
 ’’بتاؤں....؟‘‘ جمی نے اسے دھکا دیا۔ شمی گر گیا، مگر وہ اٹھا اور اس نے اُٹھتے ہی ایک گھونسہ جمی کے جڑ دیا۔ جمی نے بھی گھونسہ مارا۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔
 انہیں یہ بھی خیال نہیں رہا تھا کہ دونوں کی خوبصورت کیاریاں ان کی اس لڑائی سے برباد ہوگئی ہیں۔ پھر امی اور پاپا آگئے اور ایک ایک چپت لگا کر دونوں کو الگ کیا گیا۔
 ’’کیوں لڑے تھے تم دونوں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ دونوں خاموش رہے۔
 ’’بتاؤ؟‘‘ پاپا نے پھر سوال کیا۔
 مگر وہ بتاتے کیا؟
 کیسے بتاتے کہ اس اودے پھول کی خاطر وہ لڑے تھے جو ان کے پیروں کے نیچے آکر خاک میں مل چکا تھا۔
 دونوں خاموش کھڑے روتے رہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK