• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

انوکھی سزا

Updated: June 29, 2024, 2:21 PM IST | Javed Arefi | Mumbai

 ایک دن کی بات ہے بادشاہ! اپنے چند وزیروں اور سپاہیوں کے ساتھ ایک دوسرے شہر جارہا تھا کہ ایک بڑا سا پتھر بادشاہ کے سر میں آلگا۔ بادشاہ درد کی شدت سے بے چین ہوگیا۔ اپنے کوچوان کو گھوڑا گاری روکنے کا حکم دیا اور مڑ کر دیکھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

برسوں پہلے کی بات ہے، ایک بادشاہ تھا۔ وہ بڑا انصاف پسند، رحم دل اور نیک دل تھا۔
 ایک دن کی بات ہے بادشاہ! اپنے چند وزیروں اور سپاہیوں کے ساتھ ایک دوسرے شہر جارہا تھا کہ ایک بڑا سا پتھر بادشاہ کے سر میں آلگا۔ بادشاہ درد کی شدت سے بے چین ہوگیا۔ اپنے کوچوان کو گھوڑا گاری روکنے کا حکم دیا اور مڑ کر دیکھا۔
 قریب ہی ایک آم کے درخت کے نیچے ایک بوڑھی، کمزور عورت کھڑی تھی۔ وہ عورت بار بار زمین پر جھکتی اور پتھر اُٹھا کر درخت پر مارتی نتیجے میں ایک دو پکے ہوئے آم درخت سے نیچے آگرے۔
 بادشاہ ابھی یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ چند سپاہی گھوڑا دوڑاتے ہوئے عورت کے پاس پہنچے اور اسے پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لے آئے۔
 عورت کا چہرہ خوف سے پیلا پڑ گیا۔ وہ تھرتھر کانپ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر بادشاہ نے اپنے وزیروں سے پوچھا کہ، ’’اس عورت کو کیا سزا دی جائے؟‘‘
 ایک وزیر نے فوراً کہا، ’’اس گستاخ عورت کا سر قلم کر دیا جائے۔‘‘ دوسرے نے کہا، ’’چونکہ قصور عورت کے ہاتھ کا ہے، اس لئے اس کا ہاتھ توڑ دیا جائے۔‘‘
 تیسرے نے عورت کیلئے قید کی سزا کی سفارش کی۔ یہ سن کر بادشاہ مسکرایا اور بولا، ’’کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ہم اسے انعام میں کچھ دے دیں؟‘‘
 یہ سن کر سب ہی وزیروں نے کہا، ’’عالم پناہ! یہ آپ کیا فرما رہے ہیں! اس نے جرم کیا ہے۔ اسے تو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے نہ کہ انعام۔‘‘
 بادشاہ نے کہا، ’’جب ایک معمولی سا آم کا درخت پتھر لگنے پر آم جیسا میٹھا پھل دیتا ہے تو مَیں انسان ہوں میں بھی کیوں نہ اسے کچھ انعام دوں۔‘‘
 اتنا کہہ کر بادشاہ نے وزیر خزانہ سے کہا، ’’اس بوڑھی عورت کے دامن کو اشرفیوں سے بھر دو۔‘‘
 دوسرے ہی لمحہ اس عورت کے دامن کو اشرفیوں سے بھر دیا گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK