• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عبداللہ کا بکرا

Updated: June 22, 2024, 2:53 PM IST | Syed Asad Tabish | Akola

بقرعید قریب آرہی تھی۔ مرزا کی دلیل تھی کہ ہم مقروض ہیں قربانی ہم پر واجب نہیں مگر ان کی بیگم بڑی خاموشی سے قربانی کے لئے بکرا خریدنے کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

بقرعید قریب آرہی تھی۔ مرزا کی دلیل تھی کہ ہم مقروض ہیں قربانی ہم پر واجب نہیں مگر ان کی بیگم بڑی خاموشی سے قربانی کے لئے بکرا خریدنے کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔ بیگم صاحبہ جانتی تھیں کہ مرزا کو دلیلوں سے چپ نہیں کیا جاسکتا۔ غصے میں وہ جلال اکبری کی مجسم تصویر بن جاتے ہیں جن کے قہر و غضب کے آگے سب زیر ہوجاتے ہیں۔ اس لئے بیگم صاحبہ نے عبداللہ، بشریٰ اور مدیحہ کے جمع کئے ہوئے روپے نکالے، حساب لگایا تو ڈھائی ہزار کی رقم اکٹھی ہوگئی۔ کچھ روپے ان کے پاس بھی تھے، جس سے اُمید کی کرن نظر آئی۔ مرزا نے جب گھر میں خاموشی دیکھی تو سمجھ گئے کچھ تو کھچڑی پک رہی ہے۔ بیگم صاحبہ نے ہفتے کے دن بڑی ہی خاموشی سے جمع شدہ رقم ان کے سپرد کر دی اور عبداللہ کو آگے کر کہا، ’’سنئے جی! بچوں کی شدید خواہش ہے کہ ہمارے ہاں بھی قربانی کی جائے۔ آپ عبداللہ کو بازار لے جائیں اور چھوٹا موٹا بکرا خرید لائیے۔‘‘ مرزا، ہفتے واری بازار میں عبداللہ کو لے گئے بکرا خریدنے۔
 بکرا منڈی میں کافی چہل پہل، چیخ پکار اور گہما گہمی تھی۔ مرزا ٹھہرے نازک مزاج، پانی کی بوتل بار بار نکالتے اور دو دو گھونٹ پانی پیتے جاتے۔ عبداللہ انہیں جس بکرے کے پاس لے جاتے دام معلوم ہوتے ہی ان کے اوسان خطا ہونے لگتے۔ بکروں کی قیمتیں ہی ایسی تھیں۔ کوئی پچیس ہزار کہتا تو کوئی تیس۔ مرزا نے پندرہ ہزار کے بجٹ میں بکرا خریدنے کا سوچا تھا۔ جب اتنی رقم میں کوئی ڈھنگ کا بکرا نہ مل سکا تو بڑبڑاتے ہوئے گھر لوٹ آئے۔ محلے میں دیکھا تو کئی خوبرو، فربہ اور اونچے اونچے بکرے گھروں کے سامنے بندھے تھے۔ عبداللہ بول پڑا، ’’ابا جان! دیکھئے نا ستار سیٹھ نے کتنا مہنگا بکرا خریدا ہے۔ جبار پہلوان نے تو تین تین بکرے لائے ہیں اور وہ اپنے پڑوس کے مجیب سر انہوں نے بھی مہنگا بکرا خریدا۔‘‘ ’’ہاں ہاں معلوم ہے۔ پلاٹ کا سائیڈ بزنس اچھا کرتے ہیں تمہارے وہ مجیب سر....‘‘ اسی غصے میں گھر پہنچے تو بیوی نے روح افزا شربت کا گلاس سامنے رکھتے ہوئے کہا، ’’اجی سنئے! آپ پریشان نہ ہوں، عبداللہ کا بکرا تھوڑی ہی دیر میں آجائے گا۔ میں نے بھائی جان سے کہا ہے وہ گئے ہیں منڈی....‘‘ کوئی بری خبر تو تھی نہیں کہ مرزا کے پاؤں تلے کی زمین کھسک جاتی مگر گھر میں ہوئی اس نیک سازش نے ساتوں طبق روشن کردیئے۔ غصہ بھی عود آتا مگر سنت ِ ابراہیمی کی ادائیگی کی فرحت دماغ کو شانت کر دیتی۔ پھر بھی مرزا نے بکرے کے آنے تک خود کو سنبھالے رکھا کہ پتہ تو چلے کیسا بکرا آنے والا ہے۔ خیر ظہر بعد جب برادر نسبتی جنید، بکرا لے آئے تو بشریٰ اور مدیحہ نے ’’عبداللہ کا بکرا، عبداللہ کا بکرا‘‘ کہہ کر شور برپا کردیا۔
 بیگم صاحبہ دالوں کی بھسی لے آئیں، تو چھوٹے عبداللہ نے گرم گرم چپاتی بکرے کے منہ میں ٹھونس دی۔ مرزا یہ کارستانیاں دیکھ رہے تھے اور خوش بھی ہورہے تھے مگر بناؤٹی غصہ دکھاتے ہوئے کہا، ’’کوئی بکرا ہے مریل، کیا لے آیا ہے آپ کا بھائی!‘‘ ’’آپ دیکھیں ہم اسے پندرہ دن میں کیسا ہٹا کٹا، موٹا تازہ کر دیتے ہیں....‘‘ مرزا اپنی معاشی حالت سے مشابہ بکرا دیکھ کر کچھ نروس بھی ہوئے، بعد میں دل ہی دل میں اللہ کا شکر بھی کیا اور کہا، ’’ان شاء اللہ جلد ہی عبداللہ کا بکرا فربہ ہوجائے گا۔‘‘ بچے مرزا کو مطمئن دیکھ کر شادماں ہو اٹھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK