انور کی سچی باتیں چور کا ارادہ بدل دیتی ہیں۔
EPAPER
Updated: December 21, 2024, 12:49 PM IST | Najmi Naseer Abadi | Mumbai
انور کی سچی باتیں چور کا ارادہ بدل دیتی ہیں۔
’’اے.... اے.... شش.... شش!‘‘ انور نے دروازے ہی سے ناہید کو آواز دی۔ ناہید اس وقت پائیں باغ کے فوارے کی روش پر بیٹھی ہوئی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ انور کی آواز سن کر چونکی۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو انور پھاٹک کے باہر کھڑا ہوا اشارے سے اسے اپنے پاس بلا رہا تھا۔
’’یہ دور سے کیا شش شش لگا رکھی ہے۔‘‘ ناہید نے کہا، ’’اندر آجاؤ، پھاٹک پر تالا نہیں ہے۔‘‘
’’مَیں ذرا جلدی میں ہوں۔‘‘ انور نے دبی زبان سے کہا اور گھبراہٹ کے عالم میں پیچھے مڑ کر اپنے مکان کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’افوہ! سارا مزہ کرکرا کر دیا۔‘‘ ناہید نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب کو زور سے روش پر پٹکا اور اٹھ کر انور کے قریب آگئی، ’’کیا ہے؟‘‘ ’’۲۰؍ روپے دو!‘‘ ’’اب سمجھی کہ تم دروازے پر کھڑے ہو کر کیوں صدا لگا رہے تھے۔‘‘ ناہید نے شوخی سے مسکرا کر کہا، ’’یہ بھیک مانگنا کب سے شروع کر دی؟‘‘ ’’مذاق نہیں ناہید، اس وقت مَیں بڑی مصیبت میں ہوں!‘‘ ’’کیوں، کیا ہوا؟‘‘ ناہید سنجیدہ ہوگئی۔
’’چچی جان نے بازار سے دھاگا لانے کیلئے ۲۰؍ روپے کا سکہ دیا تھا۔ بے خیالی میں، مَیں نے پھٹی ہوئی جیب میں ڈال لیا۔ دکان پر جاکر اپنی بھول کا پتہ لگا۔ ۲۰؍ روپے کا سکہ گم ہوچکا تھا۔ بہت ڈھونڈا نہیں ملا۔ تم تو جانتی ہو چچی جان کتنی جلاد ہیں، میرا مار مار کر بھرتہ بنا دیں گی۔‘‘ انور نے بتایا۔ پھر بڑی عاجزی سے بولا، ’’تم جلدی سے اپنے پاس سے مجھے ۲۰؍ روپے دیدو، گھر سے آئے ہوئے بہت دیر ہوچکی ہے ویسے بھی دیر سے پہنچنے پر چچی جان میری خبر لے لیں گی۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:انسان مریخ اور چاند پر جا بسے....
ناہید دوڑ کر بنگلے میں گئی اور انور کو پچاس روپے لا کر دیدیئے روپے لے کر انور سیدھا بازار کی طرف لپکا۔ انور کو بری طرح بازار کی جانب بھاگتے دیکھ کر ناہید کو اس پر رحم آنے لگا اور وہ دل ہی دل میں انور کے چچا اور چچی کو بُرا بھلا کہنے لگی۔
انور ایک یتیم بچہ تھا اور اپنے چچا اور چچی کے پاس رہتا تھا۔ ماں اس کے پیدا ہونے کے کچھ ہی مہینے بعد مر گئی تھی۔ چار سال کی عمر میں باپ بھی ایک حادثے کا شکار ہوگیا۔ چچا نے رحم کھا کر انور کی سرپرستی قبول کر لی۔ ویسے بھی چچا کے کوئی لڑکا نہ تھا۔ بس ایک لڑکی تھی عذرا۔ لیکن چونکہ انور غریب والدین کی اولاد تھا اور اسکے والدین اپنی موت کے بعد اس کیلئے کوئی دھن جائیداد نہیں چھوڑ گئے تھے، اس لئے چچا کے گھر میں انور کی کوئی قدر نہیں تھی۔ انور کی چچی تو بہت ہی بے رحم اور خود غرض عورت تھی۔ وہ انور سے جانوروں کا سا سلوک کرتی تھی اور غلاموں کی سی خدمت لیتی تھی۔ انور چھوٹا تھا تو اپنی چچی کی زیادتیوں کی وجہ نہیں سمجھ پاتا تھا۔ لیکن اب وہ آٹھ برس کا ہوچکا تھا اور بخوبی سب کچھ سمجھنے لگا تھا۔ لیکن سوا صبر و شکر کے چارہ ہی کیا تھا۔ یہ کیا کم تھا کہ ان لوگوں نے اسے سہارا دے رکھا تھا۔
انور نے جیسے ہی گھر میں قدم رکھا، چچی گرج اٹھی، ’’آگئے نواب صاحب! کہاں رہے اتنی دیر؟‘‘ انور نے کوئی بہانہ بنانا چاہا، لیکن ڈر کے مارے منہ سے کوئی بات نکلی ہی نہیں۔ ’’ہاں.... ہاں.... بناؤ، کوئی بہانہ بناؤ۔‘‘ چچی نے جیسے انور کے دل کی بات جان لی، ’’میری آنکھیں پھوٹ نہیں گئیں۔ مَیں سب دیکھ رہی تھی۔ اُس ناس پیٹی ناہید کی بچی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔‘‘
اس نے انور کو بُری طرح مارنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی زبان بھی چلتی جارہی تھی، ’’نمک حرام.... کمینے.... ایک کام کو کہتی ہوں تو دس گھنٹے لگاتا ہے۔ جانتا ہے نا کہ اور کام کرنا پڑیں گے۔ مر کیوں نہیں جاتا جو پاپ ہی کٹے۔ میرے پاس نہیں ہیں مفت کے ٹکڑے کھلانے کو۔‘‘
اور جب اس کے ہاتھ تھک گئے تو اس نے پاس پڑی ہوئی لکڑی اٹھا لی اور انور کو پیٹنا شروع کر دیا۔ انور نہایت خاموشی سے پیٹتا رہا۔ اس کے منہ سے اُف تک نہ نکلی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ان باتوں کا عادی ہوچکا تھا۔ چچی ہی مار مار کے تھک گئی، لیکن انور کی آنکھوں میں ایک آنسو نہ آیا۔ چچی نے لکڑی کو ایک طرف پھینک دیا، ’’پکا کتنا ہوگیا ہے۔ آنے دے عذرا کے ابّا کو، اُن سے تیری اچھی طرح خبر نہ لوائی تو میرا نام کلثوم نہیں!‘‘
سچ مچ جب انور کے چچا رات کے ۱۰؍ بجے دکان سے لوٹے تو چچی نے اُن کے کان کچھ ایسے بھرے کہ انہوں نے سوتے ہوئے انور کو اسی وقت اٹھا کر اتنا مارا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا اس کے تمام بدن پر نیل پڑ گئے۔ چہرہ سوج گیا۔ ہڈیاں دکھنے لگیں اور منہ سے خون بہنے لگا کیونکہ ہونٹ پھٹ گئے تھے۔ چچا نے اس پر ہی بس نہیں کی۔ انور کو گھر سے نکال کر مکان کا دروازہ بند کر لیا۔ انور نے لاکھ معافی مانگی، ہاتھ جوڑے، قدموں پر گرا، لیکن چچا کو رحم نہ آیا۔ دراصل چچی کے سامنے ان کی ایک نہ چلتی تھی۔
چچی نے انور کو کھانے کو نہیں دیا تھا۔ اس پر مار نے انور کا بُرا حال کر دیا۔ رہی سہی کمی دسمبر کے کڑاکے کے جاڑے نے پوری کر دی۔ انور سے اٹھا تک نہیں گیا۔ وہ وہیں دروازہ کے قریب نیم بے ہوش پڑا رہا۔ مار سے بدن میں گرمی تھی، اس لئے تھوڑی دیر تو سردی کا احساس کم رہا لیکن پھر انور کی قلفی جم گئی۔ اور دانت بُری طرح بجنے لگے۔ اس پر بھی نہ جانے کب اسے نیند آگئی یا ممکن تھا بے ہوش ہوگیا ہو۔
اچانک ایک زور کی ٹھوکر نے انور کو جگا دیا۔ اس کے کانوں میں ایک بھاری، غصیلی آواز آئی، ’’کون ہے؟‘‘ انور نے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کی تو کانپ کر رہ گیا۔ اس کے سامنے ایک بہت ہی بھیانک شکل کا ہٹا کٹا آدمی منہ پر اپنی پگڑی کا ڈھاٹا باندھے کھڑا تھا اور اسے اپنی لال لال آنکھوں سے گھور رہا تھا۔ اس نے اپنی کمر پر ایک بڑی سی گٹھڑی لاد رکھی تھی۔ یقیناً وہ کوئی چور یا ڈاکو تھا۔ یہ خیال آتے ہی انور گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔ اور چیخنے والا ہی تھا کہ بھیانک آدمی نے اُسے ڈانٹا، ’’خاموش! کون ہو تم؟‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘ انور نے الٹا سوال کر دیا۔ دراصل وہ اس چھوٹی سی عمر میں بڑی بڑی مصیبتیں جھیل کر ایک نڈر اور بہادر لڑکا بن چکا تھا۔ وہ اس آدمی سے تھوڑی دیر کو ڈرا ضرور لیکن پھر اس کا خوف جاتا رہا۔ آدمی خود انور کی اس بے باکی اور بے خوفی پر حیران رہ گیا اور بے ساختہ اس کے منہ سے سچ نکل گیا، ’’چور۔‘‘
’’ڈرپوک، بزدل۔‘‘ انور نے نفرت سے کہا۔ ’’کیا کہا!‘‘ چور کے منہ سے مارے غصہ کے اس سے زیادہ نہ نکلا اور اُس نے اپنا خنجر نکال لیا۔
’’اور نہیں تو کیا۔‘‘ انور نے بلا جھجک کہا، ’’ناہید کہتی ہے کہ جو لوگ محنت سے ڈرتے ہیں، دُکھوں کو جھیلنے کی ہمت نہیں رکھتے، اور کما کر نہیں کھا سکتے، وہ چور بن جاتے ہیں۔ تم ہی کہو ایسے لوگوں کو کیا کہیں گے؟‘‘
چور حیران رہ گیا۔ کہنے کو تو یہ سادہ باتیں تھیں لیکن رات کے سناٹے میں ننھے انور کی زبان سے سچائی سے بھرے یہ جملے سن کر اس کا دل اثر لئے بغیر نہ رہ سکا۔ اور وہ گھبرا کر بغلیں جھانکنے لگا۔
انور نے کچھ سوچ کر کہا، ’’ایسا کرو! تم مجھے اپنے ساتھ لے چلو مَیں محنت مزدوری کرکے کماؤں گا اور تمہیں کھلاؤں گا۔ تم سے کمایا نہیں جاتا نا!‘‘
چور کو ایسا لگا جیسے انور کے الفاظ تیر بن کر اس کے دل میں اتر گئے ہوں۔ سخت سردی میں بھی اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔ کانپتے ہوئے پیروں پر وہ اپنا وزن نہ سنبھال سکا اور ٹوٹے ہوئے درخت کی مانند انور کے قریب ٹک گیا۔
’’سچ بتاؤ تم کون ہو، میرے ننھے فرشتے تم نے میری آنکھیں کھول کر میرا دل جیت لیا ہے۔‘‘ چور نے کانپتی ہوئی آواز میں انور سے پوچھا۔
پھر وہ دونوں ہل مل گئے۔ چور کو اپنے پکڑے جانے کا ڈر نہیں تھا۔ اور جب انور نے اسے اپنے بارے میں سب کچھ بتایا تو وہ غصہ میں انور کو لے کر کھڑا ہوگیا، ’’ایسے ظالم ہیں یہ لوگ جو تم جیسے ہیرے کو یوں مٹی میں رول رہے ہیں! چلو میرے ساتھ!‘‘ وہ انور کا بازو پکڑ کر اسے اس کے چچا کے مکان میں لے گیا۔ وہ بڑبڑاتا جا رہا تھا، ’’ایسے لوگوں کو لوٹ کر مَیں نے اچھا ہی کیا۔‘‘
اندر جا کر انور نے دیکھا کہ اس کے چچا، چچی سب بُری طرح بندھے ہوئے بڑے تھے اور ان کے منہ میں کپڑا ٹھنسا ہوا تھا۔ اس نے غصہ میں چور سے کہا، ’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘
’’کیا کرتا؟ کھڑکی توڑتے وقت ہی اِن کی آنکھ کھل گئی تھی۔ جب مجھے دیکھا تو انہوں نے شور مچانا چاہا۔ مَیں نے چھرا دکھا کر اِن کو قابو میں کیا۔ لیکن اب میں ان سب کو ختم کئے دیتا ہوں۔‘‘ چور نے کہا اور اپنی گٹھڑی انور کے سامنے رکھ دی، ’’یہ ان کے نقدی اور زیورات ہیں، جو تمہارے کام آئیں گے!‘‘
انور کی سمجھ میں کچھ نہ آیا لیکن جب چور خنجر لے کر اس کے چچا کی طرف بڑھا تو وہ چور کا منشاء فوراً سمجھ گیا اور چلّا پڑا، ’’نہیں، ایسا تم ہرگز نہ کرنا!‘‘
’’کیوں؟‘‘ چور ٹھٹک گیا۔
’’نہیں چاہئے مجھے ایسا دھن.... یہ تم لے جاؤ لیکن چچا جان اور چچی جان کی جان بخش دو۔ کچھ بھی ہو یہ مجھے پیارے ہیں۔‘‘
چور ایک بار پھر حیران رہ گیا۔ وہ انور کے قریب آیا اور اسے گود میں اٹھا کر چوم لیا، ’’واقعی تم بہت اچھے ہو انور خدا تمہیں لمبی عمر دے۔‘‘ پھر وہ انور کے چچا سے مخاطب ہوا، ’’دیکھ رہے ہو، آج اس کی وجہ سے تمہاری جان بچ گئی۔ اور نقدی اور زیور بھی۔ آدمی ہوگے تو اس ننھے فرشتے کا احسان زندگی بھر یاد رکھو گے!‘‘
چور خالی ہاتھ چلا گیا۔ انور نے لالٹین کی مدھم روشنی کو بتّی اونچی کرکے تیز کیا اور اپنے چچا اور چچی کی بندشیں کھول دیں منہ میں ٹھنسے ہوئے کپڑے انہوں نے خود نکال لئے۔
تھوڑی دیر بعد عجیب عالم تھا۔
انور کے چچا اور چچی زار و قطار روتے جاتے تھے۔ اور باری باری انور کو گود میں لے کر چوم رہے تھے۔ چچا چچی کو روتے دیکھ کر انور کے بھی آنسو آگئے۔ لیکن وہ دل میں خدا سے دعا کر رہا تھا:
’’یا اللہ! یہ پیار دُلار سدا بنا رہے!‘‘