• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: خزاں سے بَہار تک

Updated: July 26, 2024, 5:38 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف فرانسیسی ادیب گی دی موپاساں کی شہرہ آفاق کہانی ’’اُو شَو ‘‘ Aux Champsکااُردو ترجمہ۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

دونوں جھوپڑیاں ایک چھوٹے سے ساحل کے قریب ایک پہاڑی کے دامن میں ایک دوسرے سے بالکل لگ کر کھڑی تھیں۔ دونوں کسان اپنے بچوں کی پرورش کیلئے ناہموار اور بنجر زمین پر سخت محنت کررہے تھے۔ ہر کسان کے چار بچے تھے۔ ملحقہ دروازوں کے سامنے گندے کپڑوں میں ملبوس بچوں کا ایک پورا دستہ صبح سے رات تک کھیلتا اور زمین پر گرتا رہتا تھا۔ دونوں خاندان کے چھوٹے بچوں کی عمر تقریباً پندرہ ماہ تھی۔ کسانوں کی شادیاں، اور پھر بچوں کی پیدائشیں، دونوں خاندانوں میں تقریباً ایک ساتھ ہوئی تھیں۔ سبھی ایک دوسرے سے اتنا گھل مل گئے تھے کہ دونوں مائیں بمشکل اولاد میں فرق کرپاتی تھیں۔ یہی حال بچوں کے باپوں کا بھی تھا۔ ہر خاندان چھ نفوس پر مشتمل تھا۔ اس طرح پہاڑی کے دامن میں ہر وقت وہی بارہ نام گونجتے رہتے تھے۔ یہی بارہ نام اُن بارہ افراد کے ذہنوں میں اس قدر رچ بس گئے تھے کہ وہ اکثر کسی بچے کو دوسرے کے نام سے پکار لیتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کسان صحیح نام پکارنے سے قبل تین مرتبہ غلط نام لیتے تھے۔
 پہلی جھوپڑی ’’توواچ‘‘ خاندان کی ملکیت تھی۔ اس خاندان میں کسان اور اس کی بیوی کے علاوہ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ بغل والے گھر میں ’’والینز‘‘ خاندان آباد تھا۔ اس خاندان میں کسان اور بیوی کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے تھے۔ یہ دونوں خاندان سوپ، آلوؤں اور تازہ ہوا پر اکتفا کرتے تھے۔ صبح سات بجے، پھر دوپہر، پھر شام چھ بجے، گھریلو خواتین اپنے بچوں کو کھانا دینے کیلئے اکٹھا کرتی تھیں۔ شام میں اکثر ایسا ہوتا کہ کھلی ہوا میں دونوں خاندان لکڑی کی ایک بڑی میز پر بیٹھ جاتے جہاں پچاس سال کی عمر والوں سے لیکر پندرہ ماہ تک کے بچے ساتھ ہوتے۔ بچوں کے منہ بمشکل میز کی سطح تک پہنچ پاتے تھے۔ سب خوشی خوشی ابلے ہوئے آلو، گوبھی، چند روٹیاں اور پیاز کھا کر گزارا کرتے تھے۔ بچوں کو ان کی مائیں کھانا کھلاتی تھیں۔

یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: وقت اور جگہ

اتوار کو ایک چھوٹے سے برتن میں مرغ کا پکوان تیار کیا جاتا جو سبھی کیلئے کسی بڑی نعمت سے کم نہیں تھا۔ اتوار سبھی کیلئے دعوت کا دن تھا۔ اس دن خاندان کے مرد میز پر بیٹھے یہی دہراتے رہتے کہ ’’کاش! ہم روزانہ اتنا لذیذ پکوان کھاسکتے!‘‘
 اگست کی ایک دوپہر، ان جھوپڑیوں کے سامنے ایک انتہائی شاندار اور خوبصورت بگھی آرُکی۔ اندر بیٹھی ایک حسین جوان خاتون نے بغل میں بیٹھے مرد سے کہا، ’’اوہ، ان تمام بچوں کو دیکھو، ہنری! مٹی میں اَٹے ہوئے کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں۔‘‘ مرد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اپنی بیوی کے منہ سے بچوں کی اس قسم کی تعریفوں کا عادی تھا۔ یہ تعریفیں اسے خوشی نہیں، تکلیف دیتی تھیں۔ خاتون نے اپنی بات جاری رکھی، ’’مجھے انہیں گلے لگانا چاہئے! اوہ، میں ان میں سے کسی ایک کو یقیناً حاصل کرنا چاہوں گی، یقیناً وہ چھوٹا والا۔‘‘
 بگھی سے اتر کر وہ بچوں کی طرف بھاگی، اور دو چھوٹے بچوں میں سے ایک کو اٹھالیا۔ یہ توواچ خاندان کا بچہ تھا۔ خاتون نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھاتے ہوئے اس کے مٹی سے اَٹے گالوں پر بوسہ دیا۔ اس کے بے ترتیب بالوں کو سنوارا اور ننھے منے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر چوم لئے۔
 پھر وہ اپنے گھر لوٹ گئی مگر اگلے ہفتے وہ واپس آئی، لیکن ڈھیر سارے سامان کے ساتھ۔ اس نے زمین پر بیٹھ کر بچوں کے ساتھ کھیلا۔ توواچ خاندان کے بچے ہی کو اپنی گود میں بٹھا کر کھلایا۔ اسے کیک دیا اور باقی بچوں کو مٹھائیاں دیں۔ اس دوران اس کا شوہر صبر کے ساتھ بگھی میں بیٹھا رہا۔پھر وہ لوٹ گئی۔ اس دوران وہ بچوں کے ماں باپ سے بھی ملی۔ اب وہ روزانہ آنے لگی تھی۔ وہ ان کیلئے کھانے پینے کی ڈھیر ساری اشیاء لے کر آتی تھی۔ اس خاتون کا نام میڈم ہنری ڈی ہیوبیرس تھا۔
 ایک صبح بگھی سے شوہر بھی نکل آیا اور دونوں توواچ خاندان کی جھوپڑی کے دروازے پر پہنچ گئے۔ کسان آگ جلانے کیلئے لکڑیاں کاٹنے میں مصروف تھا۔ میاں بیوی حیران تھے کہ یہ دونوں آج جھوپڑی تک کیسے آگئے کیونکہ وہ ہمیشہ باہر ہی سے لوٹ جاتے تھے۔ میاں بیوی نے ان دونوں کیلئے لکڑیوں کی ٹوٹی پھوٹی کرسیوں کا انتظام کیا۔ بیٹھ جانے کے بعد میڈم ہنری ٹوٹی اور کانپتی ہوئی آواز میں کہنے لگی،’’میرے دوستو! مَیں آپ سے کچھ مانگنا چاہتی ہوں۔ کیا آپ مجھے اپنے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لے جانے کی اجازت دیں گے؟‘‘ 
 اچانک سناٹا چھا گیا۔ میڈم نے گہری سانس لی اور اپنی بات جاری رکھی، ’’ہم اکیلے ہیں، مَیں اور میرے شوہر انتہائی شاندار مکان میں تنہا رہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے چھوٹے بیٹے کو پالیں۔ کیا آپ اس کی اجازت دیں گے؟‘‘
 کسان کی بیوی نے پوچھا، ’’کیا آپ شارلیٹ کو ہم سے لینا چاہتے ہیں؟ اوہ، نہیں، بالکل نہیں!‘‘
 مسٹر ہنری نے مداخلت کی، ’’میری بیوی اپنا مفہوم واضح نہیں کرسکی ہے۔ ہم اسے گود لینا چاہتے ہیں لیکن وہ آپ سے ملنے آتا رہے گا۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو وہ ہمارا وارث بنے گا۔ اگر مستقبل میں ہمارے بچے ہوتے ہیں تو وہ ہماری جائیداد میں برابر کا حصہ دار ہوگا۔ اگر وہ ہماری جائیداد میں حصہ دار نہیں بننا چاہتا تو بالغ ہوجانے کے بعد اس کے نام پر ۲۰؍ ہزار فرینک بینک میں جمع کئے جائیں گے، پھر وہ اس رقم سے جو چاہے کرسکتا ہے۔ ہم نے آپ کے بارے میں بھی سوچا ہے۔ ہم آپ کے انتقال تک آپ کو ۱۰۰؍ فرینک ماہانہ ادا کریں گے۔‘‘
 کسان کی بیوی انتہائی غصے سے اٹھی اور کہنے لگی، ’’آپ چاہتے ہیں کہ میں شارلیٹ کو بیچ دوں؟ اوہ، نہیں! ایک ماں ایسا کبھی نہیں کرسکتی۔‘‘
 کسان نے کچھ نہیں کہا لیکن اپنا سر اثبات میں ہلا کر گویا بیوی کی حمایت کی۔ میڈم ہنری مایوسی سے رونے لگی۔ اپنے شوہر کی طرف متوجہ ہو کر آنسوؤں سے بھری آواز کے ساتھ ہکلا کر کہنے لگی، ’’ہنری! وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ ہنری! وہ ایسا نہیں کریں گے۔‘‘
 پھر اس نے آخری کوشش کی، ’’مگر میرے دوستو! بچے کے مستقبل اور اس کی خوشی کے بارے میں سوچو۔‘‘
 کسان کی بیوی نے غصے سے کہا، ’’مجھے سب سمجھ میں آتا ہے۔ یہاں سے چلے جاؤ اور ہم سے کبھی ملنے کی کوشش نہ کرنا۔ تم ہم سے ہمارا بچہ چھیننا چاہتے ہو۔‘‘ 
 میڈم ہنری کو خیال آیا کہ یہاں دو چھوٹے بچے ہیں۔ اس نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ پوچھا، ’’لیکن تمہارے پاس دو چھوٹے بچے ہیں۔‘‘
 کسان یہ کہتے ہوئے اپنے جھوپڑی میں گھس گیا کہ، ’’دوسرا ہمارا نہیں، پڑوسی کا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو ان کے پاس جا سکتے ہیں۔‘‘ اس کی بیوی بھی غصے سے بڑبڑاتے ہوئے جھوپڑی میں چلی گئی۔

یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: آسمانی تحفہ

والینز خاندان اپنی میز پر بیٹھا روٹی کے ٹکڑے چبا رہا تھا۔ ان کی میز پر برائے نام کھانا تھا۔ میڈم ہنری نے اس خاندان کے سامنے اپنی بات رکھی لیکن اس وقت وہ محتاط تھی اور سنبھل سنبھل کر بات کررہی تھی۔ پہلے تو میاں بیوی نے انکار کردیا لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ انہیں ماہانہ ۱۰۰؍ فرینک ملیں گے تو انہوں نے ان کی بات پر غور کرنا شروع کردیا۔ اشاروں سے ایکدوسرے سے مشورہ کیا مگر پھر بھی خاموش رہے۔ غالباً کوئی چیز انہیں پریشان کررہی تھی۔ وہ دیر تک خاموش رہے۔
 آخر کار کسان کی بیوی نے پوچھا، ’’تم کیا کہتے ہو؟‘‘ کسان نے وزنی لہجے میں کہا، ’’میں کہتا ہوں کہ یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ ‘‘ میڈم ہنری نے بچے کے مستقبل، اس کی خوشی، اور اس رقم کے بارے میں دوبارہ بتایا جو اسے بعد میں ملنے والی تھی۔
 کسان نے پوچھا، ’’کیا ۱۰۰؍ فرینک کی پنشن کا معاملہ قانونی ہوگا؟‘‘ مسٹر ہنری نے جواب دیا، ’’یقیناً، اگر بچہ ہمیں آج مل جائے تو معاہدہ کل ہی سے شروع ہو جائیگا۔‘‘ کسان کی بیوی کافی دیر سے کچھ سوچ رہی تھی۔ وہ آگے بڑھی اور کہنے لگی، ’’ماہانہ ۱۰۰؍ فرینک ہمیں بچے سے محروم کرنے کیلئے کافی نہیں ہے۔ ہمیں ۱۲۰؍ فرینک ملنے چاہئیں۔‘‘ بے صبری سے اپنے پاؤں کو تھپتھپاتے ہوئے میڈم ہنری نے اس کی بات مان لی، اور بچے کو فوری طور پر ساتھ لے جانے کیلئے اس نے خاندان کو اضافی ۱۰۰؍ فرینک تحفتاً دیئے جبکہ اس کے شوہر نے ایک معاہدہ تیار کیا ہوا کاغذ اِن کے حوالے کردیا۔
 پھر میڈم ہنری اس چیختے چلاتے اور روتے ہوئے بچے کو اپنے ساتھ لے گئی۔ اس کا نام ’جان‘ تھا۔ توواچ خاندان اپنی دہلیز پر کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ وہ خاموش اور سنجیدہ تھا۔ شاید انہیں اپنے انکار پر پچھتاوا ہورہا تھا۔
 اس کے بعد چھوٹے جان کے متعلق مزید کچھ نہیں سنا گیا۔ اس کے والدین ہر ماہ اپنے ۱۲۰؍ فرینک لینے وکیل کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ ان کا توواچ خاندان سے جھگڑا ہوگیا تھا۔ توواچ کسان کی بیوی نے ان کی بے حد توہین کی تھی کہ انہوں نے چند سکوں کی خاطر اپنا بچہ بیچ دیا تھا۔ یہ ایک خوفناک عمل تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنے شارلیٹ کو بانہوں میں سمیٹ کر کہتی، ’’مَیں نے تمہیں نہیں بیچا، مَیں نے تمہیں نہیں بیچا! مَیں امیر نہیں ہوں، لیکن میں اپنے بچوں کو نہیں بیچتی!‘‘
 تاہم، ماہانہ پنشن کی بدولت والینز کی گزر بسر آسان ہوگئی تھی۔ توواچ اب بھی غریب تھے۔ ان کا بڑا بیٹا اب فوج میں تھا۔ شارلیٹ اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ مزدوری کرنے لگا تھا تاکہ ماں اور دو چھوٹی بہنوں کی کفالت کرسکے۔ وہ اب ۲۱؍ سال کا ہو گیا تھا۔
ایک صبح ایک شاندار گاڑی دونوں جھوپڑیوں کے سامنے آ کر رُکی جس میں سے ایک شریف نوجوان جس کی کلائی پر سونے کی زنجیر والی گھڑی تھی، باہر نکلا اور ایک بوڑھی، سفید بالوں والی خاتون کو گاڑی سے نکلنے میں مدد کی۔ بوڑھی عورت نے اس سے کہا، ’’میرے بچے! یہی وہ جگہ ہے۔ وہ رہا دوسرا گھر۔‘‘

یہ بھی پڑھئے:ایک طبع زاد اور غیر مطبوعہ کہانی: شاہی قید خانہ

پھر دونوں والینز کے گھر میں داخل ہوگئے۔
 بوڑھی ماں کپڑے دھو رہی تھی۔ کمزور باپ چمنی کے کونے پر لیٹا ہوا تھا۔ دونوں نے سر اٹھایا تو نوجوان نے کہا، ’’گڈ مارننگ، پاپا! گڈ مارننگ، ماما!‘‘
 دونوں ڈرتے ڈرتے کھڑے ہوگئے! کسان کی بیوی کے ہاتھ سے صابن چھوٹ کر پانی کی بالٹی میں جا گرا۔ وہ کہنے لگی، ’’کیا یہ تم ہو، میرے بچے؟ کیا تم جان ہو؟‘‘ پھر اس نے آگے بڑھ کر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اسے گلے سے لگالیا۔ اس کی بوڑھی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔
 بوڑھا کسان بھی اپنی جگہ سے اٹھا۔ جذبات کی شدت سے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ پھر اس نے بیٹے کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا، ’’آج تم سے مل لینے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ تم ہم سے کبھی جدا ہی نہیں ہوئے تھے۔‘‘ جب وہ ایک دوسرے سے مل چکے تو والدین کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو محلے کے دیگر خاندان سے ملوائیں۔ اور پھر وہ اسے علاقے کے میئر، ڈاکٹر اور اسکول ٹیچر سبھی کے پاس لے گئے۔
 شارلیٹ اپنی دہلیز پر کھڑا جان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ رات کے کھانے پر اس نے اپنے بوڑھے والدین سے کہا، ’’یقیناً آپ لوگوں نے حماقت کی، والینز کے بیٹے کو جانے دینے کی حماقت۔‘‘
 ماں نے سختی سے جواب دیا، ’’مَیں اپنا بچہ کبھی نہیں بیچوں گی۔‘‘ باپ خاموش رہا۔ بیٹے نے بات جاری رکھی، ’’اس طرح سے زندگی کا ختم ہوجانا ہی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔‘‘ کسان نے غصے سے کہا، ’’کیا تم ہمیں اس بات پر ملامت کررہے ہو کہ ہم نے تمہیں فروخت نہیں کیا اور اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا؟‘‘
 پھر نوجوان شارلیٹ نے بڑی سنگدلی سے کہا، ’’ہاں۔ آپ دونوں نے بے وقوفی کی ہے۔ آپ جیسے والدین اپنے بچوں سے محبت کا رونا روتے ہیں مگر ان کی قسمت سنوارنے کیلئے کچھ نہیں کرتے۔‘‘
 یہ سن کر بوڑھی خاتون پلیٹ پر سر رکھ کر رو پڑی۔ کمرے میں خاموشی تھی۔ اس نے اپنا چمچہ سوپ سے بھرا اور اسے منہ تک لے گئی مگر کانپتے ہاتھوں نے ساتھ نہ دیا اور آدھا سوپ منہ میں جانے سے پہلے ہی گرگیا۔ اس نے کمزور آواز میں کہا، ’’بچوں کی پرورش کیلئے والدین اپنی جان تک دے سکتے ہیں۔‘‘
 نوجوان نے بے رحمی سے کہا، ’’فی الحال مَیں جن حالات میں ہوں، ان کے پیش نظر مجھے اس دنیا میں آنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ جب مَیں نے والینز کے بیٹے کو دیکھا تو میرا دل چند لمحوں کیلئے ساکت رہ گیا۔ مَیں نے اپنے آپ سے کہا، یہ میری قسمت تھی لیکن میرے والدین کی بے وقوفی سے مجھے نہیں ملی۔ مَیں ویسا بن سکتا تھا مگر نہیں بن سکا۔‘‘
 وہ غصے سے کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا، ’’اب مَیں اس گھر میں ایک پل بھی نہیں گزارنا چاہتا۔ اگر مَیں یہاں رہا تو ساری زندگی آپ دونوں کے فیصلے پر افسوس کرتا رہوں گا۔ مجھے ایسی زندگی دینے کیلئے مَیں آپ دونوں کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔‘‘
 دونوں بوڑھے خاموشی سے آنسو بہاتے رہے۔ دونوں ہی اداس تھے۔ شارلیٹ نے اپنی جھوپڑی کا دروازہ کھولا تو دوسرے دروازے سے اسے والینز خاندان کے قہقہے سنائی دیئے۔ وہ اپنے بیٹے کی واپسی کا جشن منارہے تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK