گلہری کا برا رویہ اسے تنہا کر دیتا ہے مگر....
EPAPER
Updated: December 07, 2024, 12:15 PM IST | Arifa Khalid Sheikh | Mumbai
گلہری کا برا رویہ اسے تنہا کر دیتا ہے مگر....
بہت پہلے کی بات ہے۔ کسی جنگل میں گلہریوں کا ایک جھنڈ رہتا تھا۔ اُن میں ایک ’چینی‘ نامی گلہری بھی تھی۔ وہ بڑی شوخ، چنچل اور چلبلی تھی۔ جب وہ چھوٹی سی تھی تب ایک طوفانی بارش نے اُس سے اُس کے ماں باپ چھین لئے۔ چینی اُس وقت اپنی نانی کے گھر تھی اِسلئے بچ گئی۔ اُس کی نانی اُسے بڑے لاڈ اور جتن سے پال رہی تھیں کہ ایک دن وہ بھی چینی کو تنہا چھوڑ گئیں مگر اس نے مصیبتوں اور پریشانیوں سے گھبرانے کے بجائے ڈٹ کر اُن کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا۔ البتہ سر پر مشفق سایہ نہ ہونے کے سبب وہ دھیرے دھیرے خود سر ہوتی چلی گئی۔
چند بزرگ گلہریوں نے اُس کی رہنمائی کرنی چاہی مگر وہ کہاں سننے والی تھی۔ اُس کے برتاؤ کو دیکھ کر اُنہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ چینی کو اُس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ وقت اور حالات اُسے ایک دن صحیح راہ پر لے آئیں گے۔ سبھی اُس سے دور رہنے لگے۔ لیکن بھلا چینی کو اِن سب باتوں کی کب پروا تھی۔ وہ ہمیشہ اپنی ذات میں ہی مگن رہتی۔ دن بھر یہاں سے وہاں گھومتی پھرتی۔ اُسے کوئی پل چین نہیں آتا تھا۔ دن بھر مارے مارے پھرنے کے بعد شام ڈھلے وہ گھر آتی اور تھک ہار کر سو جاتی۔ اگلے دن پھر سے اُس کی اسی طرح کی مٹر گشتی شروع ہو جاتی۔ ہر وقت کی تنہائی اور اکیلے پن نے اُسے چڑ چڑا بھی بنا دیا تھا۔ وہ کبھی کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کر تی تھی۔
یہ بھی پڑھئے:لوک کہانی: سورج مکھی
ایک شام وہ صبح سے اُچھل کود مچائے ہوئے تھی۔ خزاں کا موسم تھا جنگل میں پتوں اور ڈنٹھلوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ زمین پر بکھرے پھلوں اور میوؤں کی تلاش میں وہ بولائی بولا ئی پھر رہی تھی۔ دیگر گلہریاں بھی رزق کی تلاش میں نکلی ہوئی تھیں۔ ساتھی گلہریوں کو دیکھ کر چینی کی شرارت تیز ہوگئی اور بد نیتی عود کر آئی۔ وہ چپکے چپکے ہر گلہری کی نظروں کا تعاقب کرنے لگی اگر کسی کو کوئی پھل یا میوہ نظر آ جاتا تو وہ اُن کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی دوڑ کر اُس جگہ پہنچ جاتی اور وہ شے جھپٹ کر حاصل کر لیتی، بیچاری گلہریاں اپنا سا منہ لے کر رہ جاتیں۔ چونکہ وہ سبھی اُس کی لڑاکو فطرت سے واقف تھیں اِسلئے چاہ کر بھی خاموش تھیں۔ کافی دیر تک چینی کی بد معاشی اور دھما چوکڑی اسی طرح مچی رہی۔ ساتھی گلہریاں بڑی مشکل میں پھنسی ہوئی تھیں۔ اُنہیں نہ تو کھانے کیلئے مل رہا تھا اور نہ ہی سکون ہی ميسر تھا۔ اُن کی ساری محنت اکارت جا رہی تھی۔
آخر خدا کی بے آواز لا ٹھی چلی۔ پتوں کے بیچ چُھپا ایک موٹا کانٹا چینی کو چبھ گیا۔ وہ درد سے کراہ اُٹھی۔ دیگر گلہریوں نے جو دیکھا تو اُس کی مدد کو دوڑیں۔ کانٹا سیدھا دُم میں جا کر اٹک گیا تھا۔ باری باری سبھی گلہریوں نے اُس کانٹے کو نکال کر چینی کی تکلیف کم کرنی چاہی مگر نا کام رہیں۔ بڑا سا کانٹا دُم میں آڑا پھنس کر درمیان سے ٹوٹ گیا تھا۔ چینی کے آنسو رواں تھے۔ وہ درد سے تلملا رہی تھی۔ سبھی نے مل کر اُسے نائی کے پاس لے جانے کا ارادہ کیا۔ جیسے تیسے اُسے ایک قریبی نائی کی دکان میں لے جایا گیا۔ نائی دادا چھوٹی سی دُکان میں اپنے گاہکوں میں مصروف تھے کہ ایک گلہری نے منت سماجت کرکے اُنہیں چینی کے دُم کا کانٹا نکالنے کی گزارش کی۔ نائی دادا بھلے اِنسان تھے۔ چینی کی تکلیف کا احساس ہوتے ہی اُنہوں نے اپنا اُسترا سنبھالا اور آگے بڑھے۔
کانٹا مضبوط اور نوکیلا تھا۔ ساتھ ہی دُم میں اِس بری طرح پیوست تھا کہ اگر احتیاط نہ برتی گئی تو دُم کے کٹنے کا اِمکان غالب تھا۔ نائی دادا نے بہت ترکیبیں کیں، لاکھ جتن کئے مگر آخر کار وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ گلہری کی آدھی دُم درمیان سے کٹ گئی۔ ساتھی گلہریاں یہ دیکھ بھاگ کھڑی ہوئیں... وہ چینی کے عتاب کا شکار نہیں بننا چاہتی تھیں۔
چینی غصّے میں آپے سے باہر ہو گئی۔ نائی دادا کا احسان بھول کر اُن کا گریباں پکڑ لیا اور زور سے چیخی، ’’یہ تم نے کیا کیا ؟ میری اتنی اچھی سنہری دُم کاٹ دی.... اب دُم دو، نہیں تو اُسترا دو.... دُم دو ، نہیں تو اُسترا دو....‘‘ وہ ایک ہی بات کی رٹ لگانے لگی۔ نائی دادا کو اپنی عافیت اِسی میں نظر آئی کہ اُسترا دے کر اپنی جان چھڑا لی جائے۔ اُنہوں نے اپنا نیا اُسترا اُسے دیدیا۔ آج اُن کا بہت نقصان ہوگیا تھا۔ اُسترا پا کر چینی بڑی خوش تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اُسترے سے وہ کیا کیا کام لے گی؟ کس کس طرح اُس کا استعمال کرے گی ؟ ابھی وہ چند قدم ہی چلی تھی کہ اُس نے ایک غریب گلہری کو دیکھا۔ آج سے پہلے اُس نےاُسے یہاں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ بانس کی لکڑیوں کو چھیل کر اُن سے ٹوکریاں بنا رہی تھیں۔ گول گول خوبصورت ٹوکریاں چینی کے من کو بھا گئیں اور وہ اُنہیں حاصل کرنے کے متعلق سوچنے لگی۔ پھر اُسے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ آگے بڑھی۔ اُس نے دیکھا، غریب بنا کسی اوزار کے ہاتھوں اور دانتوں کی مدد سے بانس کو چھیل رہی تھیں جس سے اُس کے ہاتھ لہو لہان ہوئے جا رہے تھے اور پھانس کی وجہ سے منہ بھی زخمی ہوا جا رہا تھا۔ اُس نے معمر گلہری سے کہا، ’’آپ یہ بانس ہاتھوں سے کیوں چھیل رہی ہیں ؟ دیکھو! میرے پاس کیا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اُسترا دکھایا، ’’آپ میرا یہ اُسترا لے لیں۔ اِس سے آپ کا کام آسان ہو جائیگا اور آپ کو تکلیف بھی نہیں ہوگی.... جب آپ کا کام ہو جائے تو مجھے یہ لوٹا دینا۔‘‘ گلہری چینی کے رویے سے نا واقف تھی وہ اُس کی ہمدردی سے بہت متاثر ہوئی اور خوشی خوشی اُسترا لے لیا۔ واقعی اب اُس کا کام آسان ہو گیا تھا۔ اب پہلے سے جلدی اور زیادہ ٹوکریاں بن رہی تھیں۔ ابھی درجن بھر ہی ٹوکریاں بن پائی تھیں کہ اچانک اُسترا ٹوٹ گیا.... چینی نے جو یہ دیکھا تو رونے بیٹھ گئی.... وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ معمر گلہری بہت گھبرائی۔ اُس نے چینی کو منانے کی بہت کوششیں کیں لیکن بے بس رہیں۔ چینی ضد لے کر بیٹھ گئی تھی، ’’ٹوکری دو ، نہیں تو اُسترا دو.... ٹوكری دو ، نہیں تو اُسترا دو۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:مجھے روشنی مل گئی
وہ بیچار ی اُسترا کہاں سے دیتی اُس نے دِل مار کر ایک بڑی سی ٹوکری چینی کو دے دی۔ آج اس کا بھی بڑا نقصان ہوگیا تھا۔ ٹوکری پا کر چینی خوشی سے سرشار ہو کر گھر پہنچی۔ کھوہ میں جاتے ہوئے اُس نے دیکھا کہ اطراف میں خوب ہنگامہ مچا ہے۔ وہاں قریب میں کسی کی شادی تھی۔ روٹیاں پروسنے کیلئے برتن کی تلاش جاری تھی۔ ایسے میں چینی بڑی بی بن کر آگے آئی اور اپنی ٹوکری دیتے ہوئے اُن سے کہا، ’’آپ لوگ پریشان کیوں ہو رہے ہو یہ لو میری ٹوکری اِس سے آپ کے کام میں آسانی ہو جائیگی۔‘‘
وہ لوگ چینی سے واقف تھے۔ گلہری دولہے کے والد نے چینی سے عاجزی سے کہا، ’’ہم اِسے رکھ لیتے لیکن اگر یہ ٹوٹ گئی تو ہم تمہیں تمہاری ٹوکری واپس نہیں کر سکیں گے۔‘‘ اِس پر چینی نے کہا، ’’کوئی بات نہیں! ٹوکری کا کیا ہے ؟ بانس ہی کی تو ہے! ٹوٹی تو ٹوٹی... آپ کی میری بلا ٹلی۔‘‘ چینی کے جواب نے سبھی کو مطمئن کر دیا۔ مہمانوں کی خوب خاطر داری ہونے لگی۔ ڈھول خوب بج رہے تھے۔ لوگ ناچ رہے تھے، گا رہے تھے۔ چینی بھی خُوب لطف اُٹھا رہی تھی۔ اُس نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔
آخر کئی گھنٹوں کی ہڑ بونگ کے بعد شادی کی تقریب ختم ہوئی تو چینی کو اپنی ٹوکری کا خیال آیا۔ ٹوکری تیل سے خراب ہو کر ایک کونے میں ٹوٹی پڑی تھی۔ اپنی ٹوکری کی یہ دُرگت دیکھ کر وہ بپھر گئی۔ پھر غصّے میں پیر پٹختے ہوئے دولہے کے والد کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور چیخ کر بولی، ’’ٹوکری دو، نہیں تو ڈھول دو.... ٹوکری دو، نہیں تو ڈھول دو۔‘‘ اُنہوں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ ٹوکری کا انتظام نہیں کرسکیں گے۔ لیکن چینی کہاں ماننے والی تھی۔ اپنی عزت کی خاطر اُنہیں اُسے ڈھول دینا ہی پڑا۔ شادی کے خرچ تلے دبے دولہے کے والد کا آج بڑا نقصان ہوگیا تھا وہ بہت دُکھی ہوئے۔
ڈھول گلے میں ڈال کر چینی ایک چھوٹے سے ٹیلے پر چڑھ گئی اور جھوم جھوم کر گانے لگی: دُم کے بدلے اُسترا ملا.... ڈھم ڈھم! اُسترے کے بدلے ٹوکری ملی... ڈھم ڈھم! اور ٹوکری کے بدلے ڈھول ملا۔ ڈھم ڈھم ڈھم! واہ واہ کیا بات ہے!
ڈھول بجاتے اور ناچتے گاتے اُس نے نیچے دیکھا۔ نیچے بہت ساری گلہریاں ایک ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔ اُن کی خوش گپیاں اور ہنسی مذاق دیکھ کر چینی کے دِل میں ایک ٹیس اُٹھی۔ ’’یہ سب مل کر کتنا اچھا کھیل لیتی ہیں اور ایک میں ہوں، نہ کوئی دوست ہے اور نہ ہی کوئی ساتھی!‘‘ اُس نے حسرت سے سوچا۔ پھر اُسے اپنی پچھلی پوری غلطیاں اور کوتاہیاں یاد آئیں۔ وہ اپنے کئے پر نادم ہوئی۔ اُس نے مایوسی سے اوپر دیکھا۔ کھلی فضا میں پرندے غول کی شکل میں پرواز کر رہے تھے۔ شام ڈھل رہی تھی آسمان پر پھیلے شفق رنگوں کی بہار نے خوشگوار احساس پیدا کر رکھا تھا۔ یکایک اُس کے افسردہ چہرے پر دھنک رنگ پھیل گئے اور آنکھیں روشنی سے جگمگا اُٹھیں۔ وہ ٹیلے سے نیچے اُتر آئی.... اور مضبوط قوت ارادی سے آگے بڑھی۔ اُس کی پہلی منزل شادی والا گھر تھا۔ وہاں پہنچ کر اُس نے دولہے کے والد صاحب سے معافی مانگی اور نہایت عاجزی سے اُن کا ڈھول اُنہیں واپس لوٹا دیا۔ اُنہوں نے اُسے دعائیں دیں اور ڈھول والوں کو اُن کا ڈھول دے کر رخصت کیا۔
وہاں سے وہ سیدھا معمر گلہری کے گھر گئی اور اُنہیں ڈھیر سارے پھل اور گریاں دے کر اپنے کئے کی معافی مانگی۔ گلہری نے اُسترا اپنے شوہر کی مدد سے بنوا لیا تھا اُس نے چینی کو وہ اُسترا دے دیا۔ اُسترا لے کر وہ سیدھے نائی دادا کے پاس گئی اور اُن کا اُسترا لوٹا دیا۔ نائی نے اُسے پیار کیا اور دعائیں دیں۔ اب چینی خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔ لیکن رہ رہ کر اُسے دوستوں کی کمی بھی کھل رہی تھی۔ وہ اپنی کھوہ میں اکیلے اُداس بیٹھی تھی کہ اچانک پیدا ہونے والی آواز پر وہ چونکی، اُس نے باہر جھانکا۔ باہر گلہریوں کا ہجوم تھا۔ چینی کی اچھائی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ سبھی اُس کی خوش اخلاقی کی تعریف کر رہے تھے۔ اُن میں نائی گلہری، ٹوکر یاں بنانے والی بوڑھی گلہری اور دولہے گلہری کے ضعیف والد شامل تھے۔ جنہوں نے چینی کی بدلی کیفیت اور نیک نیتی کی پزیرائی کی اور سب کو چینی سے دوستی کرنے پر آمادہ کیا۔ ساتھ ہی صدر گلہری سے سفارش بھی کی کہ وہ چینی کو اپنی برادری میں شامل کر لے۔ جسے صدر گلہری نے فوراً قبول کر لیا۔ بھلا اچھوں کو کوئی اپنے سے دور رکھتا ہے! چینی بہت خوش ہوئی۔ اُسے کل اور آج کا فرق سمجھ میں آگیا تھا۔ سب کا پیار اور ساتھ پا کر کچھ ہی دِنوں میں چینی سچ مچ کی چینی بن گئی۔ بالکل شکر جیسی میٹھی!