• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ماں کی ممتا

Updated: June 29, 2024, 2:17 PM IST | Ismail Sulaiman | Mumbai

شاہد اپنی امی اور دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتا تھا۔ پڑھائی کے شوق اور بلا ناغہ اسکول جانے سے وہ اساتذہ کا نور نظر بن گيا تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

شاہد اپنی امی اور دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتا تھا۔ پڑھائی کے شوق اور بلا ناغہ اسکول جانے سے وہ اساتذہ کا نور نظر بن گيا تھا۔ گھر میں بسی غربت ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی۔ والد کی مستقل آمدنی نہ ہونے سے چھوٹی چھوٹی ضروریات کی تکمیل کے لئے بھی وہ ہمیشہ ترستا ہی رہتا۔ اپنے دوستوں کی خوشحالی دیکھ کر ان کی قسمت پر وہ رشک کرتا۔ اس کے والد موسم کے لحاظ سے چھوٹی موٹی ضروریات زندگی کی اشیاء فروخت کرکے اور کچھ کھیتی باڑی میں محنت مزدوری کرکے اپنے گھر کا خرچ چلاتے تھے۔ آمدنی کم ہونے سے زندگی غربت میں ہی گزر رہی تھی۔ اس کی والدہ بھی کچھ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھی مگر سلیقہ مندی، حوصلہ اور ہمت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت کے لئے ایک بہت اچھا اور انوکھا راستہ نکالا تھا۔ جو بچہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرتا اس کو ہی صبح کی چائے دی جاتی، صبح مسجد کے مکتب میں حاضری پر ہی ناشتہ ملتا۔ صبح کی اسکول اور ظہر کی نماز ادا کرنے پر ہی ظہرانہ دیا جاتا۔ دوپہر کی اسکول اور عصر کی نماز ادا کرنے والے کو ہی شام کی چائے ملتی۔ نماز مغرب ادا کرنے پر ہی عشائیہ دیا جاتا۔ عشاء کی نماز جو بچہ باجماعت ادا کرتا اسی کو گھر میں سونے کی اجازت ملتی۔ یہ شرائط تو بچوں کی تربیت کی خاطر رکھی گئی تھیں مگر کبھی کبھار کسی سے غلطی ہوجائے تو اسے معاف بھی کر دیا جاتا اور آئندہ غلطی نہ دہرانے کا وعدہ لے کر اُسے چائے، ناشتہ اور کھانا بڑی پیار بھری ممتا و شفقت سے پیش کر دیتی۔ والدہ کی اس حکمت اور تنبیہ کا یہ نتیجہ نکلا کہ تینوں بھائی پنج وقت کے پکے نمازی بن گئے۔ اسکول اور مدرسے میں بلا ناغہ حاضر رہنے سے ان کی تعلیمی کارکردگی بھی بہت بہتر ہوتی چلی گئی۔ اس طرح وہ تینوں بھائی اپنی اپنی کلاس میں اساتذہ کے نور نظر تو بن ہی گئے ساتھ ہی عمدہ نمبرات سے کامیاب بھی ہونے لگے۔
 ایک دن اس کے والد ہفتہ واری بازار میں معمول سے زیادہ پیاز فروخت کرکے آئے اور بہت ساری نقد رقم امی کے حوالے کی۔ امی نے یہ رقم پرانے صندوق میں ایک ڈبے میں رکھ دی، جو اُن کی بچت بینک بھی تھی۔ اُسے تالا لگا دیا۔ شاہد یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ یہ رقم دیکھتے ہی اسے اپنی نئی پین، نئی چپل، کمپاس باکس اور دیگر تعلیمی اشیاء ملتی ہوئی نظر آئی۔ جب گھر کے سبھی لوگ سو گئے تب اس نے ایک نوکدار کیل کی مدد سے تالا کھولنے کی کوشش کی۔ یہ کیا! تھوڑی سی جدوجہد کے بعد تالا کھل گیا۔ شاہد کے تصورات میں اُسے وہ تمام چیزیں دکھائی دینے لگيں جن کی اُسے ضرورت تھی۔ اس نے فوراً ڈبے سے ۵۰۰؍ روپے نکال لئے۔ صندوق بند کرکے اس پر تالا لگا دیا۔ صبح اٹھ کر وہ سیدھا بازار گیا۔ اپنے لئے نئی چپل، نئی بیاض، کہانیوں کی کتابیں، نیا قلم، کمپاس باکس خرید لیا اور کچھ رقم سے مٹھائی کی دکان سے کچھ چیزیں کھائی۔ پھر وہ خوشی خوشی گھر لوٹ آیا۔ آج اسکول میں اس کا دن بہت اچھا گزرا تھا کیونکہ وہ دن بھر اپنے ہم جماعت ساتھیوں پر اپنی نئی چپل، نئی قلم، نئی بیاض و کہانی کی کتابوں کی دھاک جماتا رہا تھا اور ان کی قیمتیں بتا بتا کر اپنے دوستوں پر سبقت حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ ادھر شاہد کی والدہ کا بہت برا حال تھا۔ انہوں نے گن کر پوری رقم رکھی تھی لیکن صبح ۵۰۰؍ روپے کم ہو جانے سے انہیں شدید حیرت اور رنج ہوا۔ پریشانی کے عالم میں اپنے روز مرہ کے کام جلدی ختم کرنے میں مشغول ہوگئی۔ معمول سے ہٹ کر آج ہفتہ واری بازار کا دوسرا دن ہونے کے باوجود گھر میں سادہ کھانا پکا دیکھ کر شاہد کو حیرت ہوئی جبکہ بازار کے دوسرے دن گھر میں اچھی آمدنی ہونے سی لذیذ کھانا پکانے کا معمول تھا۔ امی کی بدلی ہوئی حالت دیکھ کر شاہد بے چین ہوگیا۔ اُس کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا۔ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر والدہ کو حقیقت بتانے سے اُسے ڈر لگ رہا تھا۔ سبھی کاموں سے فارغ ہو کر امی جائے نماز بچھا کر عبادت میں مشغول ہوگئی۔ جب امی دعا کر رہی تھی تو اُن کی دعا کے الفاظ شاہد کی سماعت سے ٹکرائے، ’’یا خدا! مَیں نے یہ رقم بچوں کے یونیفارم، کتابوں، بیاضوں اور جوتوں کیلئے رکھی تھی مگر اب یہ رقم کم رہ گئی ہے۔ میں اپنے معصوم بچوں پر اسکول، مکتب اور نماز باجماعت ادا کرنے پر طرح طرح کی سختی و تنبیہ کرتی ہوں۔ ان کے دوست احباب جب نئی چیزوں کے ساتھ اسکول آئیں گے تو میرے بچوں کو محرومی کا احساس ہوگا۔ ياخدا! میری غربت کا بھرم رکھ۔ جس نے بھی میری رقم لی ہے اسے نیک توفیق عطا فرما۔‘‘ ماں کے یہ الفاظ سن کر شاہد بہت جذباتی ہوگیا اور دوڑ کر امی سے لپٹ گیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ رو رو کر اُس نے چوری کی وجہ اور چوری کا طریقہ امی کو بتا دیا اور بار بار امی سے معافی مانگنے لگا۔
 امی نے اُسے اپنے آنچل میں چھپا کر ممتا بھری شفقت سے اس کا چہرہ چوم لیا۔ اور زیر لب کہنے لگی، ’’میرا شاہد! صبح کا بھلا، گھر لوٹ آیا، اللہ تیرا شکر ہے!‘‘
(مصنف ضلع پریشد اُردو اسکول، کرہاڈ خورد تحصیل پاچورہ ضلع جلگاؤں کے معاون معلم ہیں۔)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK