نیکی کا بدلہ صرف نیکی ہے، یہ کہانی یہی پیغام دیتی ہے۔
EPAPER
Updated: March 08, 2025, 12:28 PM IST | Tasneem Muzammil Sheikh | Aurangabad
نیکی کا بدلہ صرف نیکی ہے، یہ کہانی یہی پیغام دیتی ہے۔
مشتاق بڑی مسکراہٹ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھ کے تیز تیز قدموں سے روشن گیٹ سے نظام الدین روڈ کی طرف چل پڑا۔ کبھی اپنے پینٹ کی جیب کو ہاتھ لگا کر دیکھتا اور کبھی جیب میں ہاتھ ڈال کے پیسے صحیح سے رکھے یا نہیں محسوس کرتا۔ آج کھجور اور افطاری لینے کے لئے مشتاق کے باس نے اُسے تین ہزار روپے دیئے تھے۔ وہ راستے سے چلتے چلتے سوچ رہا تھا کہ اُسے کیا کیا لینا ہے کل کے افطار کے لئے۔ مشتاق کے گھر میں اس کی والدہ اور ایک بڑی بہن جو کہ پڑھائی کررہی تھی اور ایک جگہ اسپتال میں ریسپنسٹ کا کام بھی کرتی تھی۔ والد کے اچانک انتقال کے بعد دونوں بچوں پر گھر کی ذمہ داری آگئی اور مشتاق گریجویشن کے پہلے سال میں پڑھائی کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ چپل کی دکان میں کام بھی کرتا تھا۔ راستہ تھا کہ ختم نہیں ہو رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا روز تو جلدی کٹ جاتا آج کیا ہوا۔ اس کی آنکھ میں خوشی اور غم کے ستارے چمکنے لگے اور وہ سوچنے لگا پچھلے سال ابا تھے تو یہ سب نہیں معلوم تھا۔ وہ ہر وہ چیز لے آتے اور کبھی گھر کی کوئی چیز کے لئے لانا اور پریشانی کیا ہوتی ہے کبھی انہوں نے محسوس ہی نہیں ہونے دی۔ جب درخت زمین چھوڑ دیتا ہے تو اس کے سایہ میں بیٹھنے والے محروم ہوجاتے ہیں اور زندگی کی سخت دھوپ ان کے لئے سہنا مشکل ہوجاتی ہے۔ وہ ابا کو یاد ہی کررہا تھا کہ اس کے سامنے ایک بچہ آیا۔ وہ ٹکرایا، ’’ارے سوری بیٹا سوری۔‘‘
وہ بچے نے پلٹ کر دیکھا، آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھی اور وہ مشتاق کو دیکھنے کے بعد اپنی امی کی طرف پلٹ گیا۔ اس کی امی کا برقع مسلسل کھینچ رہا تھا چھوٹی چھوٹی مٹھیوں سے۔ ’’بیٹا میں گر جاؤں گی۔‘‘
’’امی جاؤ میں بات نہیں کروں گا۔‘‘
پھر اس بچے کی ماں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ’’بیٹا پکا، دوسرا روزہ رکھ لینا، دوسرے روزے کو روزہ رکھائی کر دیں گے۔‘‘
’’نہیں امی! آپ نے بولے تھے مجھے نیا ڈریس دلاؤ گے اور پہلے روزے کے دن روز رکھائی کرو گے۔‘‘
مشتاق پیچھے سے دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔ اچانک ایک ریڈی میڈ کپڑوں کی چھوٹی سی دکان آئی۔ وہاں وہ بچہ رک گیا۔ چونکہ مشتاق کچھ دوری پر تھا وہ سب دیکھ رہا تھا، پھر اس بچے کی ماں نے اس کو سمجھانے کے لئے پوچھ لیا، ’’بھیا اس بچہ کے سائز کا کرتا، پاجامہ یا پٹھانی ڈریس ہو تو بتایئے۔‘‘
دکاندار نے ایک سفید کرتا پاجامہ بتایا، ماں نے اشارے سے پوچھا، ’’کتنے کا؟‘‘
دکاندار نے کہا، ’’پانچ سو کا۔‘‘
’’اچھا بھیا ہم کل آتے لینے۔‘‘ ماں نے بچے کو سمجھایا کہ، ’’لے لیں گے، کل پرسوں روزہ رکھ لینا بیٹا۔‘‘ مگر بچہ تھا کہ ضد پر اڑا تھا۔ ماں نے بچہ کو اپنی گود میں لے لیا اور محبت سے سمجھانے لگی، ’’اچھا بیٹا کل سارہ باجی سے پیسے لے کے لے لوں گی کام کے بعد۔‘‘ وہ سمجھانے لگی اور مشتاق پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ بچہ روئے جا رہا تھا۔ ’’اچھا جوتا بھی دلادوں گی۔‘‘ ماں نے ایک بنڈی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ پھر بنڈی کی طرف مڑی تو بچہ کچھ خاموش ہوا، ’’یہ بچے کے ناپ کا جوتا ملے گا کیا؟‘‘
’’جی! ہے نا باجی۔‘‘ پھر اس عورت نے جوتا پہنایا کالے رنگ کا۔ بچہ بہت خوش ہوگیا۔ کتنے کا ہے پوچھا تو ۲۰۰؍ روپے کہا۔ لیکن اس نے بچے کے پیر سے جوتا نکال کے واپس دے دیا۔ کہا، ’’شکریہ بھیا۔ ان شاء اللہ کل لے لیں گے۔‘‘ وہ یہ سب کرکے بچہ کو بہلا رہی تھی اور اپنے ڈوپٹے سے آنسو بھی پونچھ رہی تھی۔ بچہ خاموش ہوگیا تھا اب۔ دونوں باتیں کرنے لگے۔ ’’سارہ باجی کو بولوں گی کل بیٹا، ان کے برتن دھونا کے بعد پیسے لے کر ہم لے لیں گے۔ پرسوں رکھ لینا۔‘‘
مشتاق کو دونوں کے پیچھے چلنے میں یاد ہی نہیں رہا کہ اُسے گھر کے لئے سامان لینا ہے۔ اچانک وہ ایک گلی میں تیسرے نمبر کے گھر میں چلے گئے۔ مشتاق نے کچھ باتیں سنی تھی، کچھ فاصلے کی وجہ نہیں سن پایا تھا لیکن وہ بچہ ضد کرتا رہا اور اس کی ماں نے اُسے کچھ نہیں دلایا۔ وہ دیکھتا، ان کا تعاقب کرتا ان کے گھر تک چلا گیا تھا۔ ان کا گھر وہیں تھا چمپا چوک میں۔ وہ گلی میں مڑے اور گھر دیکھ کر لگا کہ نہایت ہی ضرورت مند ہے۔ وہ واپس پلٹا اور وہ کُرتا پاجامہ لیا اور جوتے لئے، کھجور کا ڈبہ خریدا اور کچھ افطاری کے لئے پھل سب سامان وہ بچے کے گھر کے دروازے پر رکھ دیئے اور زور سے دروازے پر دستک دے کر دور جا کھڑا ہوگیا۔ اس بچہ کی ماں نے دروازہ کھولا تو کوئی نہیں تھا۔ اچانک نظر سب چیزوں پر پڑی۔ آس پاس دیکھا تو کوئی نہیں تھا، پھر چیزیں اٹھائی اور دیکھنے لگی۔ اتنے میں وہ بچہ بھی آگیا۔ خوشی سے بولنے لگا، ’’امی میری روزہ رکھائی کل ہی ہوگی۔ امی یہ کس نے لایا؟‘‘
بچہ کی ماں نے خوشی سے آسمان کی طرف دیکھا اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگی اور گھر میں چلے گئی۔ مشتاق نے یہ سب دیکھ کر مسکرایا۔ کسی کے ساتھ اچھائی کرنے کے بعد ایک دلی سکون محسوس کیا۔ اچانک اذان ہوئی۔ وہ عشاء اور تراویح پڑھ کر گھر کی طرف روانہ ہوا۔ گھر پہنچتے ہی امی نے کہا، ’’بیٹا! بہت دیر لگا دی آج۔‘‘
’’ہاں امی! ایک نیکی کرنے میں مصروف تھا تو دیر ہوگئی۔‘‘ اتنے میں اس کی نظر ٹیبل پر پڑی، ’’امی یہ سب سامان افطاری اور کھجوریں کون لایا؟‘‘ ’’بیٹا تمہاری باجی کی میڈم نے دیئے لا کر۔‘‘ ’’اچھا امی! یہ کچھ پیسے رکھ لیجئے، ہمارے باس نے دیئے۔‘‘
مشتاق کھانا کھاتے کھاتے حضرت علیؓ کی وہ بات یاد کرنے لگا کہ اللہ کی راہ میں ایک نیکی کرو، وہ دس گنا بڑھ کر نوازتا ہے۔ الحمدللہ !اللہ نے میری رمضان کی پہلی نیکی قبول کرلی۔ وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔