معروف امریکی ادیب او ہنری کی شہرہ آفاق کہانیA Cosmopolite In a Cafe( اے کازماپولائٹ اِن اے کیفے) کا اُردو ترجمہ۔
EPAPER
Updated: December 07, 2024, 3:17 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
معروف امریکی ادیب او ہنری کی شہرہ آفاق کہانیA Cosmopolite In a Cafe( اے کازماپولائٹ اِن اے کیفے) کا اُردو ترجمہ۔
آدھی رات کو کیفے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کسی وجہ سے وہ چھوٹی میز جس پر مَیں بیٹھا تھا، آنے والوں کی نظروں سے بچی رہ گئی تھی اور اس پر لگی دو خالی کرسیاں کیفے میں آنے والے مہمانوں کیلئے بانہیں کھولے پڑی تھیں۔ اور پھر ان میں سے ایک کرسی پر ایک ’’کازماپولائٹ‘‘ (غیر متعصب یا جہاںدیدہ شخص) آبیٹھا، اور میں حقیقتاً خوش ہوگیا کیونکہ میرا نظریہ تھا کہ آدم کے بعد کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو کسی ملک کا نہیں بلکہ ’دنیا کا شہری‘ کہلائے۔ آج کوئی دوسرے علاقے اور شہر کا شخص ہمارے لئے سیاح ہوتا ہے۔ ہم ان پر غیر ملکی یا غیرعلاقائی کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ اور وہ بھی اپنا آبائی وطن کبھی نہیں بھولتا۔
اگر مَیں غلط ہوں تو اس منظر پر غور کیجئے:
ایک انتہائی شاندار شہر میں ترتیب وار لگے پتھروں کی سڑکوں کے کنارے ایک خوبصورت ریستوراں ہے، جس کی میزیں سنگ مرمر کی ہیں۔ شاندار ملبوسات پہنے لوگ خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ یہ ریستوراں خوشحالی اور فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لائیو موسیقی چل رہی ہے۔ شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیوں سے سڑک پار کا منظر نظر آرہا ہے، اور پورا شہر محبت میں ڈوبا محسوس ہورہا ہے۔ آپ مَیں سے بیشتر کہیں گے کہ یہ پیرس ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ نے ایک شہر کو اس کی منظر کشی سے جان لیا۔ یہی ہے غیر ملکی ہونے کا احساس۔
یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: اور ہم مٹی سے بنائے گئے ہیں
میرے سامنے بیٹھے کازماپولائٹ کا نام ’’ای رشمور کوگلان‘‘ تھا، جو آئندہ گرمیوں میں کونی آئی لینڈ جانے کا منصوبہ بنارہا تھا۔ اس نے باتوں باتوں میں مجھے بہت کچھ بتا دیا۔ اس نے ایک چھوٹا گلوب اپنے ہاتھ میں لے لیا جیسے وہ کوئی پھل ہو۔ اور پھر بتانے لگا کہ وہ کن ممالک کا سفر کرچکا ہے، کون سے شہر میں اس نے کون سے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ وہ خط استوا، خط سرطان اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم کے متعلق اپنی دلچسپ کہانیاں سناتا رہا۔ اس نے سمندروں پر انگلیاں رکھ کر واضح کیا کہ وہ ان کا بیشتر حصہ سر کرچکا ہے۔ اور پھر نہ جانے وہ کون کون سی باتیں کرتا رہا۔ لیکن مجھے خوشی تھی کہ آدم کے بعد مجھے واقعی کوئی ایسا شخص ملا ہے جس کیلئے سرحدیں معنی نہیں رکھتیں۔ اکثر لوگوں سے سنا ہے کہ انہیں اپنا آبائی وطن یاد آتا ہے، وہ ماں کے ہاتھوں سے پکا ہوا کھانا یاد کرتے رہتے ہیں لیکن میرے سامنے بیٹھا کازما پولائٹ ان باتوں سے پرے تھا۔ وہ جہاں جاتا، اس جگہ کو اپنا گھر بنالیتا۔ اس میں مجھے کافی دلچسپی محسوس ہوئی۔ اسے اپنے آبائی وطن کی پروا نہیں تھی۔
اسی دوران کیفے کے اسٹیج پر جاری ڈرامے کا اختتام ہوا اور لوگ تالیاں بجانے لگے مگر مجھے کازماپولائٹ کی باتیں سننے میں دلچسپی تھی، اور اسے مجھے اپنی کہانیاں سنانے میں لطف آرہا تھا۔ اسی دوران ڈراما میں گوریلا کا کردار ادا کرنے والا شخص ہماری میز پر آکر بیٹھ گیا۔ مَیں نے اس سے سوال پوچھ لیا کہ ’’کیا کسی شخص کا آبائی وطن جاننے کے بعد اس کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کیسا ہے؟‘‘
’’معاف کیجئے گا،‘‘ اس نے کہا، ’’لیکن یہ ایسا سوال ہے جو میں نے کبھی نہیں سنا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آدمی کہاں کا ہے؟ کیا کسی آدمی کے متعلق اس کے پوسٹ آفس ایڈریس سے اندازہ لگانا مناسب ہے؟ کینٹکی کے باشندے بعض مشروب سے نفرت کرتے ہیں، ورجینیائی باشندوں کی سوچ سطحی ہے، ہندوستانی ناول نہیں لکھتے، میکسیکو کے لوگ مخمل کی پتلون نہیں پہنتے، سیوان کے لوگ چاندی کے ڈالر لے کر گھومتے ہیں، انگریز مضحکہ خیز ہوتے ہیں، فضول خرچی والے یانکیز، سرد خون والے جنوبی باشندے، تنگ نظر مغربی باشندے، اور نیو یارک کے لوگ جو سڑک پر ایک گھنٹہ یونہی وقت ضائع کرسکتے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں لوگوں کے متعلق اندازہ نہیں لگانا چاہئے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: پنجرہ
مَیں کوگلان کی طرف متوجہ ہوگیا۔ اس نے کہا ’’میں بارہ بار دنیا کا چکر لگا چکا ہوں۔ مَیں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو اپنا ٹائی دنیا کے دوسرے حصے سے منگواتا ہے، میں نے یوروگوئے میں ایک بکری چرانے والے کو دیکھا ہے جس نے ایک چھوٹے سے کیفے میں بڑا انعام جیتا تھا، میں قاہرہ میں ایک کمرے کا کرایہ ادا کرتا ہوں۔ یوکوہاما میں سارا سال میرے پاس شنگھائی کے ایک ٹی ہاؤس میں چپلیں ہیں اور میں انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ریو ڈی جنیرو یا سیئٹل میں میرے لئے کون سے پکوان پکائے جائیں، یہ ایک بہت بڑی پرانی دنیا ہے جسے ہم نے سمتوں میں بانٹ دیا ہے۔ بس ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کہاں پیدا ہوئے ہیں اور اس دنیا کو اپنا ملک اور شہر ماننا چاہئے۔‘‘
’’تم ایک زبردست شخص ہو‘‘ مَیں نے تعریفی انداز میں کہا۔ ’’لیکن یہ بھی لگتا ہے کہ آپ حب الوطنی کو مسترد کردیں گے۔‘‘ کوگلان نے گرمجوشی سے اعلان کیا، ’’ہم سب بھائی ہیں۔ چائنامین، انگریز، زولوس، پیٹاگونین اور دریائے کاؤ کے موڑ کے لوگ۔ کسی دن کسی کے شہر یا ریاست یا طبقہ یا ملک کا یہ تمام چھوٹا سا غرور مٹ جائے گا، اور ہم سب ایک ہو جائیں گے۔ دنیا کے شہری، جیسا کہ ہمیں ہونا چاہئے۔‘‘
’’لیکن جب آپ پردیس میں گھوم رہے ہیں،‘‘ میں نے اصرار کیا، ’’کیا آپ کو کسی عزیز وغیرہ کی یاد نہیں آئے گی؟‘‘ کوگلان نے کہا، ’’مَیں اگر یہاں ہوں تو مَیں نے بیرون ملک مقیم شہریوں سے ملاقات کی ہے۔ میں نے شکاگو کے مردوں کو دیکھا ہے۔ چاندنی رات میں وینس کے ایک گونڈولا میں بیٹھ کر ان کی نکاسی کی نہر کے بارے میں شیخی بگھارتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کہ ایک سدرنر کو انگلینڈ کے بادشاہ سے ملوایا جا رہا ہے۔ مَیںجہاں جاتا ہوں وہاں دوست اور عزیز بنا لیتا ہوں۔ ‘‘
میرے کازماپولائٹ نے الوداع کہا اور میز چھوڑ دی، اور دوسری جانب بڑھ گیا تھا۔ میں بیٹھا کوگلان کی باتوں پر غور کررہا تھا۔ کچھ دیر بعد کیفے کے ایک حصے میں زبردست شور اور تصادم کی وجہ سے میرے مراقبہ میں خلل پڑ گیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک سنہرے بالوں والا شخص اور کوگلان ایک دوسرے کا گریبان پکڑے ہوئے ہیں۔ کچھ دیر بعد کئی گلاس اور بوتلیں ٹوٹیں۔ویٹروں نے دونوں لڑنے والوں کو کھینچ کر باہر نکالا۔ مَیں نے پاس سے گزرنے والے ایک ویٹر سے جھگڑے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا ’’ سنہرے بال والے شخص نے دوسرے شخص (کوگلان) کے آبائی وطن کے متعلق چند ناگوار باتیں کہہ دی تھیں جس کے سبب وہ برہم ہوگیا اور سنہرے بالوں والے سے جھگڑا کرنے لگا۔‘‘