Inquilab Logo

مدیحہ کا وعدہ

Updated: January 14, 2023, 12:05 PM IST | Mr. Chaudhary | Mumbai

سدرہ کو پودوں سے بہت محبت تھی البتہ اس کی سہیلی مدیحہ کے لئے یہ کام اپنا قیمتی وقت ضائع کرنا تھا۔ ایک دن مدیحہ سدرہ کے گھر میں داخل ہوتی ہے تو اسے

photo;INN
تصویر :آئی این این

شجرکاری کے موسم کی آمد آمد تھی۔ تمام لوگوں کی خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ پودے لگائے جائیں۔ ایک دن سدرہ کے ابو واپس آئے تو سدرہ نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں دو تین ننھے منے پودے بھی تھے۔ سدرہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی کیونکہ سدرہ کو پودے لگانے کا بہت شوق تھا۔ جب بھی پودے لگانے کا موسم آتا تو سدرہ ضرور کوئی نہ کوئی پودا لگاتی، یہی وجہ تھی کہ ان کے گھر کا صحن رنگ برنگے اور خوبصورت پودوں اور پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔ سدرہ کو نئے نئے پودے لگانے کا ہی شوق نہیں تھا بلکہ پودے لگانے کے بعد وہ ان کی حفاظت بھی کرتی تھی۔ انہیں وقت پر پانی دیتی، ان کی صفائی وغیرہ کا ہر وقت خیال رکھتی۔ اسے پتہ تھا کہ جس طرح انسانی جسم کے لئے ہوا، پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح پودوں کے لئے بھی یہ سب چیزیں انتہائی ضروری ہیں۔ سدرہ کے ابو بھی اس کی اس سلسلہ میں مدد کرتے تھے۔ چنانچہ سدرہ کے پاس فالتو وقت گزارنے کے لئے یہ بہترین مشغلہ بھی تھا۔ جب کبھی ان کے گھر مہمان آتے تو سدرہ بڑی خوشی سے ان کو اپنا سجا سجایا باغیچہ دکھاتی۔ سب لوگ اتنے خوبصورت باغیچہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور سدرہ کی تعریف کرتے۔ اس طرح سدرہ کو اپنی محنت کا صلہ بھی مل جاتا۔ سدرہ کی ایک سہیلی بھی تھی جو اس کے ساتھ ہی اسکول میں پڑھتی تھی اور ان کا گھر بھی سدرہ کے گھر کے قریب ہی تھا۔ صبح دونوں ایک ساتھ ہی اسکول میں پڑھتی تھی اور ان کا گھر بھی سدرہ کے گھر کے قریب ہی تھا۔ صبح دونوں ایک ساتھ اسکول جاتی تھیں، اس کا نام مدیحہ تھا۔ مدیحہ بھی سدرہ کی طرح بہت اچھی اور ہونہار لڑکی تھی مگر اسے سدرہ کی طرح درختوں اور پودوں کا کوئی شوق نہیں تھا ویسے تو ان کے گھر میں بھی کیاریاں موجود تھیں مگر ان میں کوئی پودا یا پھولوں کے پودے نہ تھے۔ ان کیاریوں میں سارا سال ویرانی چھائی رہتی تھی۔
 سدرہ، مدیحہ کو سمجھاتی کہ دیکھو درخت لگانے کے کئی فائدے ہیں مگر مدیحہ جواب دیتی کہ فائدوں کے علاوہ ان کے نقصانات بھی تو ہیں۔ سارا سارا دن جھاڑو پکڑے رکھو مگر پھر بھی صفائی نہ ہو، سارا سارا دن پتے گرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ صبح شام انہیں پانی دینا، ان کی دیکھ بھال کرنا میرے بس کا روگ نہیں۔ مَیں تو اپنا قیمتی وقت ان پر ضائع نہیں کرسکتی۔ سدرہ نے جب مدیحہ کا رویہ دیکھا تو اس نے بھی چپ سادھ لی۔
 اس طرح شجرکاری کا موسم گزر گیا۔ سدرہ کے پچھلے سال کے لگائے ہوئے پودے تو مضبوط تناور ہو چکے تھے۔ اب گرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ ابھی گرمیوں کی چھٹیاں بھی نہیں ہوئی تھیں کہ لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی۔ دن میں کئی کئی مرتبہ بجلی بند ہوتی اس طرح طالب علموں کے لئے بہت بڑا مسئلہ بن گیا ان کی پڑھائی کا حرج ہوتا تھا۔
 آج جب ریاضی کی مس نے تمام لڑکیوں سے گھر کا کام چیک کروانے کے لئے کہا تو مدیحہ نے گھر کا کام نہیں کیا ہوا تھا۔
 مس نے کہا ’’مدیحہ کیا بات ہے آج لگاتار تیسرا دن ہے تم گھر کا کام نہیں کرکے آ رہی۔ کیا تمہارا پڑھنے کو دل نہیں کرتا۔ اگر کل کام نہ کرکے آئیں تو مجھے مجبوراً تمہارے گھر والوں کو بلانا پڑے گا۔‘‘
 مدیحہ بولی، ’’مس اصل میں بات یہ ہے کہ ہمارے محلّہ میں کئی کئی دفعہ بجلی بند ہوتی ہے اور اتنی گرمی میں تو پسینہ میں شرابور ہو جاتی ہوں اس وجہ سے مَیں گھر کا کام نہ کرسکی۔‘‘
 مس نے غصہ میں جواب دیا کہ ’’نواب صاحب کی بیٹی دوسری لڑکیاں بھی تمہاری طرح ہی ہیں، انہیں گرمی نہیں لگتی۔‘‘ جب مس نے ’’نواب صاحب‘‘ کی بیٹی کہہ کر پکارا تو سب لڑکیاں ہنسنے لگیں۔ مدیحہ کو بہت غصہ آیا اس نے غصیلی نگاہ تمام لڑکیوں پر ڈالی اور اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔ گھر آکر سارا دن اس کا موڈ آف رہا۔ وہ اسکول والے واقعہ کی وجہ سے بڑی پریشان تھی۔ گھر آکر اس نے اپنی امی کو ساری بات بتائی۔ اس کی امی نے اسے سمجھایا کہ اس میں تمہارا ہی قصور ہے۔ مس کو تو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کس جگہ پر بجلی بند ہوتی ہے۔ انہیں تو گھر کے لئے دیا ہوا کام چیک کرنا ہے۔ اس کی امی نے کہا ’’ہاں! وہ تمہاری سہیلی سدرہ بھی تو ہے وہ اپنا کام مکمل کرکے جاتی ہے یا نہیں؟‘‘
 مدیحہ نے کہا، ’’امی جان! وہ تو ہر روز اپنا کام مکمل کرکے لے جاتی ہے اور اس کے علاوہ اس کو سبق بھی بہت اچھی طرح یاد ہو جاتا ہے۔‘‘ اس کی امّی نے کہا کہ ’’تم اس کے پاس چلی جایا کرو، اس سے پوچھو کہ وہ کس وقت اسکول کا کام کرتی ہے۔‘‘
 مدیحہ اسی وقت اپنی امّی جان سے اجازت لے کر سدرہ کے گھر چلی گئی۔ مدیحہ جونہی ان کے گھر میں داخل ہوئی تو اسے لطیف ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ا س کے چہرے سے ٹکرایا تو اسے بہت سکون ملا۔ اس قیامت کی گرمی میں تو اتنی ٹھنڈی ہوا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ جنّت میں آگئی ہو۔
 اس نے دیکھا کہ سدرہ اپنے پھولوں سے بھرے سایہ دار باغیچہ میں اپنے ہاتھوں کے لگائے ہوئے درختوں کی گھنی چھاؤں میں بیٹھی اسکول کا کام کر رہی تھی۔ اس نے مدیحہ کو بتایا کہ ’’مَیں تو روزانہ اسی جگہ بیٹھ کر اپنا سارا کام کر لیتی ہوں۔ اب تمہیں درختوں کے فائدوں کا پتہ چلا ہے۔‘‘
 مدیحہ واقعی دل ہی دل میں بہت شرمندہ تھی۔ اب اسے درختوں کی اہمیت کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ دل میں سوچ رہی تھی کہ کاش اس نے سدرہ کی بات مان لی ہوتی تو اس وقت ان کے گھر میں بھی سایہ ہوتا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں ہوتی اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو ہوتی۔ مدیحہ نے سدرہ سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ آنے والی شجرکاری میں ضرور حصہ لے گی اور اپنے گھر میں درخت اور پودے لگائے گی۔ سدرہ نے بھی اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس سلسلہ میں ہر ممکن مدد کرے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK