Inquilab Logo

کدّو کا سر

Updated: September 10, 2022, 12:15 PM IST | Kavish Siddiqui | Mumbai

احمد کا حلیہ دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ کسی سے لڑائی کرکے آیا ہے۔بال بکھرے ہوئے اور ہونٹ قدرے سوجے ہوئے۔بڑے بھائی امجد سے چھوٹے بھائی کی یہ حالت دیکھی نہ گئی اور اس سے پہلے کہ وہ معاملہ کی تہ تک جاتے،انہوں نےاپنا بلہ اٹھایا اور بھائی کی حمایت میں میدان میں کود پڑے۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

بات تو چھوٹی سی تھی جسے غیر ضروری طور پر طول دےدیا گیا۔ بھلا بچوں کی لڑائی میں بڑوں کو کودنا چاہیے؟ مگربرا ہو بے تکی محبت اور غیر ضروری جلد بازی کا، پوری بات سنی ،نہ سمجھے، بس فوراً ہی نکل کھڑے ہوئے چھوٹے بھائی کی حمایت کیلئے۔
 قصہ در اصل یوں ہے کہ گلی کے لڑ کے آپس میں کھیل رہے تھے۔ کھیلتے کھیلتے لڑ پڑے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے۔ پہلے تو آپس میں تو تکار ہوتی رہی، پھر نوبت ہاتھا پائی پر اتر آئی۔ ایک نے دوسرے کو دھکا دیا، تیسرے نے چوتھے کوتھپڑ مارا، پھر بھلا باقی لڑکے کا ہے کو پیچھے ر ہتے۔ سب ایک دوسرے پہ پل پڑے۔ ذراسی دیر میں کھیل کا میدان لڑائی کا میدان بن گیا۔ کسی کی پسلیوں میں کسی کی کہنی لگی تو کسی کی ناک پر کسی کا مکا۔ کسی کی قمیص کے بٹن ٹوٹے تو کسی کا موبائل ٹوٹا۔ غرض دیکھتے ہی دیکھتے دنگل کا رنگ جم گیا۔ چھوٹا احمد روتا ہوا گھر آیا تو امجد کرکٹ میچ کیلئےگھر سے نکلنے ہی لگا تھا۔ احمد کا سوجا ہوا ہونٹ دیکھ کر رک گیا۔’’ یہ کیا ہوا؟‘‘ امجد نے بے چینی سے پوچھا۔
 ’’ مجھے سلیم نے مارا پھر اکبر نے بھی مارا!‘‘احمد منہ بسورتا ہوا بولا۔ اسی وقت برتن دھوتی ہوئیں امی جان کی نگاہ احمد کی پھٹی قمیص اور سوجے ہوئے ہونٹ پر پڑی تو چلا اٹھیں، ’’ہائے میرے بچے کی کس نے یہ حالت کر دی؟‘‘
 ’’سلیم نے مارا، پھر اکبر نے بھی مارا !‘‘احمد نے ہچکی لیتے ہوئے کہا۔
 ’’میں دیکھتا ہوں ابھی جا کر۔‘‘امجد سے بلا گھماتا ہوا تیزی سے باہر نکلا۔
 ’’یہاں آؤ میں تمہارا منہ دھلاؤں۔‘‘امی نے پیار سے احمد کو اپنے پاس بلایا۔
 آوازیں سن کر احمد کی بڑی بہن رانی اپنے کمرے سے باہر نکلی۔ اس نے بھائی کی حالت دیکھی تو پوچھا، 
 ’’ ارے کیا ہوا؟‘‘ احمد نے دوبارہ بتایا، ’’سلیم نے مارا، پھر اکبر نے بھی مار!‘‘
 ’’اچھا؟ ‘‘رانی نے غور سے بھائی کو دیکھا اور پھرپوچھا، ’’ لیکن ہوا کیا تھا؟‘‘
 ’’یہ تم کیا سوال جواب کرنے بیٹھ گئیں، بھائی کی حالت نہیں دیکھ رہی ہو؟‘‘ امی نے ناگواری سے کہا۔
 ’’ارے ہاں، یہ امجد کہاں چلا گیا؟‘‘امی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
 احمد بولا،’’ بھائی دیکھنے گئے ہیں۔‘‘
 رانی نے دوبارہ پوچھا، ’’کیا دیکھنے گئے ہیں؟‘‘
 ’’ انھیں، جنھوں نے مجھے مارا ہے اور بلا بھی لے کر گئے ہیں۔‘ ‘احمد سوجے ہوئے ہونٹ کے ساتھ مسکرایا۔
 ’’ لیکن ہوا کیا تھا؟‘‘رانی نے دو بار ہ سوال کیا۔
 ’’ اب تم نے پھر بے تکی باتیں شروع کر دیں۔ جاؤ دودھ گرم کر کے اس میں تھوڑی سی ہلدی ڈال لاؤ۔‘‘ امی نے تولیہ گیلا کر کے احمد کا منہ صاف کرتے ہوئے کہا۔
 ’’خیر دودھ تو میں لا رہی ہوں مگر اس سے تو پوچھئے کہ بات کیا ہو ئی جونو بت لڑائی مارکٹائی تک جاپہنچی۔‘‘
جب رانی باورچی خانے میں داخل ہوگئی تو امی نے آہستہ آواز میں پوچھا ، ’’ہاں تو رانی کیا پوچھ رہی تھی۔؟ ‘‘
 ’’اب مجھے کیا پتا کہ کیا پوچھ رہی تھی۔‘‘ احمد نے آہستہ سے کہا۔’’ یہ آپ اسی سے پوچھیں۔‘‘
 ’’ ارے وہ پو چھ رہی تھی کہ کیا ہوا تھا۔ یہ چوٹ کیسے لگی؟‘‘ امی نے اس مرتبہ سختی سے پوچھا۔
 احمد نے حیرت سے امی کی طرف دیکھا:’’سلیم نے مارا ،پھر اکبر نے بھی مارا!‘‘
 ’’مگر آخر مارا کیوں؟‘‘امی نے زچ ہو کر پو چھا۔
 ’’یہ تو سلیم اور اکبر سے پوچھیں۔‘‘ احمد نے جواب
 د یا تو امی نے سر پکڑ لیا۔ اُسی وقت رانی ایک کپ میں گرم دودھ لے آئی اور کپ احمد کو پکڑاتے ہوئے بولی، ’’اب بتاؤ، کیا ہواتھا؟‘‘ 
 ’’ کتنی بار بتاؤں کہ سلیم نے مارا پھر اکبر نے مارا۔‘‘ اس مرتبہ احمد نے غصے سے کہا۔
 ’ ’اچھا تمھیں سلیم اور اکبر نے مارا ؟‘‘رانی آہستہ سے بولی۔
‘‘ہاںیہ ہی تو کہہ رہا ہوں۔‘‘ احمد نے سر ہلایا۔
 ’’ مگر تم نے کیا کیا تھا؟‘‘ رانی نے پوچھا۔
 ’’وہی جو سب کرر ہے تھے۔‘‘احمد نے معصومیت سے جواب دیا۔ ’’اچھا‘‘ ٹھنڈے مزاج کی رانی نے سر ہلایا۔ ’’توسب کیا کر ر ہے تھے؟‘‘
 ’’سب ایک دوسرے کو مارر ہے تھے ناں!‘‘ احمد نے یوں سر پکڑ ا جیسے کوڑھ مغز بہن کو سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا ہو۔ ’’سب ایک دوسرے کو کیوں مارر ہے تھے؟‘‘ ’’کیوں کہ سب لڑ رہے تھے۔‘‘احمد نے معصومیت سے جواب دیا اور بولا،’’ اب یہ دودھ تو پی لوں۔‘‘
’’ ہاں ہاں۔‘‘ رانی نے جلدی سے سر ہلایا۔ احمد جلدی جلدی دودھ پینے لگا۔
امی نے کہا ، ’’یہ ا مجد ابھی تک کیوں نہیں آیا ؟‘‘ ذرا دیر بعد دروازے پر کھنکھناہٹ ہوئی اور پھر محلے کے ایک بچے نے دروازے میں سر ڈال کرکہا’’خالہ! امجد بھائی کو پولیس نے پکڑ لیا ہے اور اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن لے گئی ہے ۔‘‘وہ ہانپتے ہوئے ایک سانس میں کہہ دیا۔
 ’’کک۔ کیا۔کیوں ؟‘‘ امی کے تو یہ بات سنتے ہی ہاتھ پیر پھول گئے۔گھبراہٹ کے مارے انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
 ’’ وہ لڑ رہے تھے۔ کسی نے فون کر دیا۔ پولیس آئی امجد بھائی اور اکبر کے بڑے بھائی خاور کو پکڑ کر لے گئی۔!‘‘ لڑکے نے بتایا اور فوراًہی دوڑ گیا۔
 ’’یا اللہ! یہ کیا ہو گیا؟ رانی تم اپنے ابو کو فون کرو فوراً۔ امی نے پر یشانی سے کہا۔
 سہ پہرکے تین بج رہے تھے۔ رانی نے جلدی سے ابوکوفون کیا اور پولیس والی بات بتائی۔
 ’’ کیا ؟‘‘ابو ایک دم پریشان ہو گئے۔’’کیا کیا اس نے؟‘‘ ’’ ابو! باہر بچوں کی لڑائی ہوئی۔ احمد روتا ہوا گھر آیا اور بھائی غصے میں اپنا بلا لے کر چلے گئے جس پر شایدجھگڑا بڑھ گیا اور ان سمیت دوسرے لڑکوں کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔‘‘ رانی نے صورتحال بتائی۔ ابو نے کہا کہ پریشان نہ ہوں، وہ آفس سے چھٹی لے کر فوراً تھانے جارہے ہیں۔
 ’’ میں بھی جاتی ہوں تھانے ہائے میرا بچہ!‘‘امی نے روتے ہوئے کہا۔
 ’’امی! آپ کو جانے کی ضرورت نہیں، ابو خود دیکھ لیں گے۔ ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ رانی نے امی کوتسلی دی پھر وہ دو بار ہ احمد کی طرف متوجہ ہوئی، ’’ہاں تو آگے بتاؤ، لڑائی کس بات پر شروع ہوئی تھی؟‘‘
’’لڑائی۔‘‘ احمد نے کہا پھر سوچا اور بولا۔ ’’پتہ نہیں بس سب نے ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیا۔ سلیم نے مجید کومکا مارا۔ وہ میرا دوست ہے، میں نے علیم کے پیٹ میں ٹکر ماری۔ اکبر سلیم کا دوست ہے، اس نے مجھے ٹکر مارتے ہوئے دیکھ لیا تو اس نے مجھے گھونسا مارا جو میرے منہ پر لگا۔ دیکھیں میرے ہونٹ کتنے پھول گئے۔ بڑے بڑے ہو گئے۔‘‘ احمد نے بڑا سامنہ کھول کر دکھایا۔
 ’’ کھیل کھیل میں بچوں کی لڑائی ہوئی اور بھیا بجائے پہلے بات کو سمجھتے، بلا لے کر نکل گئے اور مارکٹائی میں دھر لئے گئے۔‘‘ رانی نے کہا۔ 
 ’’ارے تم یہاں بیٹھے بیٹھے کیا سب فرض کئے جا رہی ہو۔ بہن ہو کہ دشمن تھانے دارنی بنی ہوئی ہو ؟‘‘امی نے غصے سے کہا۔
 ’’امی! تھانے دار کے تو وہ ہاتھ اب چڑھے ہیں، دیکھیے کیا ہوتا ہے۔‘‘ رانی نے جواب دیا۔
 ’’ سوچے سمجھے بنا قدم اٹھاؤ تو نتیجہ بھگتنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ دونوں ماں بیٹی بے چینی سے انتظار کرنے لگیں۔
 ’’احمد تو دودھ پی کر آرام سے سو گیا تھا ۔
 تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ابو کی موٹر سائیکل کی آواز آئی تو رانی اورامی بھاگ کر دروازے پر پہنچیں۔ ابو گھر میں داخل ہوئے تو ان کے پیچھے پیچھے سر جھکائے ہوئے امجد بھی تھا۔ابو کے چہرے سے ناراضگی کے اثرات واضح طور پر دیکھے جاسکتے تھے۔
 ’’ کیا ہوا؟ میرے بچے کو مارا پیٹا تو نہیں۔؟‘‘ امی نے تیزی سے آگے بڑھ کر امجد کوٹٹولا۔ ابو بولے۔’’ شکر کیجیے کہ تھانے میں ابھی پرچہ درج نہیں ہوا تھا ،ور نہ صاحبز ادے بھگتتے جیل اور کچہری۔ وہ تو تھانیدار بھی بال بچوں والا تھا تو اسے میری پریشانی کا احساس ہوگیا اور سمجھا بجھا کر روانہ کردیا،پھر خاور کے والد بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ بھی اسی کی طرح بدھو ہے جو بچے کی بات پرلڑ نے آ گیا تھا، خیر تھانے میں ہی معافی تلافی ہوگئی۔‘‘ ابوقدر ے غصے میں تھے۔
 ’’ تم تو بڑے ہو، جانے بوجھے بنا بچوں کی لڑائی میں سر پھٹول کرنے پہنچ گئے، پہلے اپنے بھائی سے پو چھا ہوتا کہ ہوا کیا ہے، ہوسکتا ہےکہ بات کچھ نہ رہی ہو، پتہ نہیں تمہیں کب عقل آئے گی؟‘‘ابو نے غصے میں کہا۔
 ’’ ہائے میرے بچے کا اتنا بڑا سر ہے اور عقل ذرا بھی نہیں۔‘‘ امی نے پیار کیا۔
 امی کے انداز پر ابو بے ساختہ ہنس دئے پھر بولے، ’’تمہاری امی کی بات سے شیخ سعدی رحمہ اللہ کی ایک بات یاد آ گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ سر بڑا ہونے سے کچھ نہیں ہوتا، سر سے بڑا تو کدو ہوتا ہے مگر!‘‘ابو امجد کی طرف دیکھ کر چپ ہو گئے۔
’’مگر کیا؟‘‘ بے ساختہ امجد کے منہ سے نکلا۔
 ’’مگر اس میں بھیجا نہیں ہوتا، بس کدو کا سرہی سرہوتا ہے۔‘‘ ابومسکراتے ہوئے بولے۔
 ’’جب ہی وہ بے چار ہ کٹ کٹا کے ہنڈیا میں جاتاہے۔‘‘ رانی ہنسنے لگی۔
’’ بس بس ! اب آپ لوگ میرے بچے کو زیادہ شرمندہ نہ کریں۔‘‘ امی نے پیار سے کہا اور امجد کے سر پر انگلی مار کے بولیں :’’اب اسے سرہی بنانا، کدو نہ بنانا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK