آج ننھی کنول کو زکام ہوگیا تھا۔ بات یہ ہوئی کہ سردی بہت تھی اور کنول کو پانی میں کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔
EPAPER
Updated: August 03, 2024, 1:12 PM IST | Sayedah Farhat | Mumbai
آج ننھی کنول کو زکام ہوگیا تھا۔ بات یہ ہوئی کہ سردی بہت تھی اور کنول کو پانی میں کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔
آج ننھی کنول کو زکام ہوگیا تھا۔ بات یہ ہوئی کہ سردی بہت تھی اور کنول کو پانی میں کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ امی اور آنٹی کے منع کرنے کے باوجود وہ گھنٹوں پانی میں کھیلتی رہتی تھی۔ اسے اسکول سے چھٹی کرنی پڑی۔ گھر پر اکیلے اس کا جی بہت گھبرا رہا تھا۔ امی گھر کے کام میں لگ گئی تھیں، بھائی بہن سب اپنے اپنے اسکول چلے گئے تھے اور ابا اپنے دفتر۔
جب لیٹے لیٹے اس کا جی گھبرایا تو وہ چپکے سے اٹھی اور گھر کے سامنے چھوٹے سے باغیچے میں چلی گئی اور اپنی گیند سے کھیلنے لگی۔ مگر اکیلے کب تک کھیلتی۔ اس کا دھیان پھولوں پر ادھر سے ادھر اڑتی تتلیوں کی طرف چلا گیا۔ رنگ برنگی تتلیاں پھولوں پر ناچتی پھر رہی تھیں۔ وہ ایک تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی کہ اس کی نظر ایک بھنورے پر پڑگئی۔ بھن بھن کرتا کالا کلوٹا بھنورا ایک پھول سے دوسرے پھول پر اور دوسرے سے تیسرے پر اڑتا پھر رہا تھا۔ جب وہ کسی پھول پر بیٹھتا تو پھول کی پتلی سی ڈنڈی جھولنے لگتی۔
ننھی کنول تھوڑی دیر اسے غور سے گھورتی رہی اور پھر اپنے آپ سے بولنے لگی، ’’میاں! تم اتنے پریشان کیوں ہو؟ اور تم اتنے کالے کلوٹے کیوں ہو؟ یہ تتلیاں تو کتنی رنگ برنگی ہیں؟‘‘
ننھی کنول ایک آواز سن کر ایک دم چونک پڑی۔ ’’کیا تم میری کہانی سنو گی؟‘‘ اس نے پھر وہی آواز سنی اور پھر اسے یقین ہوگیا کہ یہ بھنورے کی ہی آواز ہے۔ وہ بھن بھن کررہا تھا اوراسی میں سے آواز آرہی تھی۔
’’کیوں! کیا تمہاری کوئی کہانی ہے؟‘‘ کنول نے حیرت سے پوچھا۔ ’’ہاں سنو!‘‘ بھنورے نے جواب دیا۔ ’’میں ایک دیس کا راجہ تھا۔ مجھے سونے چاندی ہیرے موتی سے بڑا پیار تھا۔ میرا محل سونے کا تھا۔ اس میں چاندی کے دروازے تھے۔ میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچا: یہ پھول، پتے اور گھاس سب سوکھ کرکوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اور ہاں مجھے چڑیوں کی چوں چوں، کبوتروں کی غٹرغوں کا شور بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ بس میں نے ایک دم حکم دیا۔ یہ سارے باغ اجاڑ دیئے جائیں۔ چڑیوں کو مار دیا جائے۔ باغ میں سونے چاندی کے پھولوں کے پودے لگائے جائیں، ان میں سونے چاندی کی گھنٹیا باندھی جائیں۔ بس میرےحکم کی دیر تھی۔ تمام باغ اجڑ گئے۔ چڑیاں مرگئیں۔ تتلیاں بھاگ گئیں اور جگہ جگہ سونے چاندی کی گھنٹیاں لگا دی گئیں۔ مگر اس کے بعد کیاہوا۔ یہ مت پوچھو!‘‘
’’کیا ہوا‘‘؟ کنول نے پوچھا۔
’’میرے دیس کے بچے جو باغوں میں کھیلتے پھرتے تھے، تتلیوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے تھے، چڑیوں کے میٹھے گیت سنتے تھے سب اداس ہوگئے۔ اور پھر بیمار ہوگئے۔ اب پڑھنے لکھنے میں ان کا دل نہ لگتا تھا۔ اس لئے بچوں کے ماں باپ پریشان ہوگئے۔ وہ مجھ سے ناراض ہوگئے۔ انہیں بہت غصہ آیا اور ایک دن سارے بچوں نے اور ان کے ماں باپ نے میرے محل کو گھیر لیا۔ مجھے محل سے نکال دیا۔ میرے سارے بدن پر کالک مل دی۔ انہوں نے کہا: تم نے ہمارے دیس کو اجاڑ دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو دکھی کر دیا ہے۔ انہیں بیمار کر دیا ہے۔ تمہارا سارا سونا چاندی ہمارے کس کام کا ہے... جاؤ! یہاں سے چلے جاؤ... باغ کی روٹھی ہوئی بہاروں، پھولوں، کلیوں، ہری ہری گھاس اور جھومتے پودوں کو لے آؤ.... ان سب ناچتی گاتی چڑیوں اور رنگ رنگیلی تھرکتی تتلیوں کو لاؤ جنہیں تم نے دیس سے بھگادیا ہے۔ ان سب کو منا لاؤ تو اس دیس میں آنا۔ بس اسی دن سے میں روٹھے پھولوں، کلیوں اور تتلیوں کو مناتا پھر رہا ہوں۔ میں تمہارے اس ہرے بھرے دیس میں پھولوں، پتوں اور ہری ہری گھاس کی خوشامد کرتا پھر رہا ہوں۔ ننھی کنول! کیا تم ان سے میرے دیس چلنے کیلئے کہہ دوگی؟ میں انہیں بہت یاد کررہا ہوں!‘‘
ننھی کنول کی امی کو جب اپنے کام سے ذرا چھٹی ہوئی تو وہ اسے دیکھنے اس کے بستر کے پاس آئیں اور جب وہ وہاں نہ ملی تو وہ سیدھی باغ میں پہنچیں۔ انہوں نے دیکھا کہ کنول پھولوں کی ایک کیاری کے پاس دھوپ میں لیٹی سورہی ہے اور ایک بھنورا اس کے پھول جسے لال لال کان کے پاس بھن بھن کرتا ہوا اڑ رہا ہے۔