ارم اور ارسلان بالترتیب تیسری اور پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔ ابھی وہ اپنے نانا کے گاؤں سے چھٹیاں منا کر واپس ہی لوٹے تھے کہ ان کی امی کو ایک فوری کام کے سبب واپس گاؤں جانا پڑ رہا تھا۔
EPAPER
Updated: July 27, 2024, 2:33 PM IST | Dr. Rohina Kausar Syed | Nagpur
ارم اور ارسلان بالترتیب تیسری اور پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔ ابھی وہ اپنے نانا کے گاؤں سے چھٹیاں منا کر واپس ہی لوٹے تھے کہ ان کی امی کو ایک فوری کام کے سبب واپس گاؤں جانا پڑ رہا تھا۔
ارم اور ارسلان بالترتیب تیسری اور پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔ ابھی وہ اپنے نانا کے گاؤں سے چھٹیاں منا کر واپس ہی لوٹے تھے کہ ان کی امی کو ایک فوری کام کے سبب واپس گاؤں جانا پڑ رہا تھا۔ دونوں بہن بھائی بھی بہت خوش تھے کہ مختصر وقفہ کے بعد وہ دوبارہ نانا کے گاؤں اور کھیت کی سیر کریں گے۔
ابھی نانا کے یہاں آئے ہوئے انہیں دو ہی روز ہوئے تھے کہ بچے کھیت میں جانے کے لئے ضد کرنے لگے۔
’’بارش لگاتار برس رہی ہے آپ کے پاؤں مٹی میں دھنس جائیں گے۔‘‘ نانا جان نے انکار کرتے ہوئے سمجھایا۔ مگر دونوں شرارتی بچے بات ماننے والے کہاں تھے، اگلے ہی دن نانا جان کے ہمراہ کھیت پہنچ گئے۔ کھیت پہنچ کر دونوں ادھر ادھر گھومنے لگے تبھی ارم نے چیختے ہوئے کہا، ’’بھائی! وہ دیکھو کیا ہے؟‘‘
ارسلان نے ارم کا اشارہ کرتے ہوئے ہاتھ کا تعاقب کیا تو دیکھا کہ کھیت کی مٹی پر سرخ رنگ کی چادر بچھی ہے۔ جیسے ہی دونوں اس سرخ چادر کے قریب پہنچے تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی ہی رہ گئیں۔ انہیں مٹی پر سرخ رنگ والی جیتی جاگتی مخلوق نظر آئیں۔
’’بھائی یہ کیا ہے؟ یہ تو مکڑی کی طرح نظر آرہے ہیں، کیا یہ مکڑی ہے؟ مگر ان کی پیٹھ پر یہ سرخ مخمل کیسا؟‘‘ ارم نے پر تجسس اس کے ذہن میں آنے والے سارے سوالات ایک سانس میں پوچھ ڈالے۔
’’ارے ارم! رکو تو ذرا، میں بھی یہ پہلی بار دیکھ رہا ہوں، ہم نانا جان سے پوچھتے ہیں۔‘‘
دونوں ایک ساتھ اپنے نانا جان کو آواز دینے لگے، ’’نانا جان! نانا جان! نانا جان!‘‘
’’ارے بھئی! آرہا ہوں، کیا شور مچا رکھا ہے۔‘‘ بچوں کو مسلسل آواز لگاتے دیکھ وہ فوراً ان کے پاس پہنچ گئے۔
’’نانا جان یہ دیکھئے.... یہ کون سا کیڑا ہے یہ سب اتنے سارے ایک جگہ کیسے؟‘‘ ارسلان نے دریافت کیا۔
’’واہ! تو آپ لوگوں کو یہ نظر آہی گئے۔ یہ بیر بہوٹی ہے۔‘‘ نانا نے کہا۔
’’بیر بہوٹی....‘‘ دونوں بچوں نے ایک ساتھ نانا جان کے الفاظ حیرت سے دہرائے۔
’’ہاں بیٹا! یہ بیر بہوٹی ہے، انگریزی میں اسے ریڈ ویلویٹ مائٹس کہتے ہیں اور ’’ٹرومبیڈیڈی‘‘ (Trombidiidae) اس کیڑے کا سائنسی نام ہے۔ کچھ لوگ انہیں مکڑی سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں لیکن مکڑی کی ذات سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بیر بہوٹی نام بہت عام ہے حالانکہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں یہ مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ کوئی انہیں ملکہ کیڑا تو کوئی انہیں اللہ کی بوڑھی مائی کہتا ہے، ہر پردیش میں ان کا نام بھی الگ ہے۔ انہیں بارش کا کیڑا بھی کہا جاتا ہے۔‘‘ ’’نانا جان! ہم تو کتنی دفعہ کھیت آئے ہیں مگر یہ ہمیں پہلے کبھی نظر نہیں آئے۔‘‘ ارسلان نے پوچھا۔
’’کیونکہ بیٹا! یہ کیڑے بارش میں ہی مٹی سے باہر آتے ہیں۔ آپ ہمیشہ گرمی کی چھٹیوں میں گاؤں آتے ہو اور بارش شروع ہونے سے پہلے واپس چلے جاتے ہو، اس لئے یہ آج سے پہلے کبھی آپ کو نظر نہیں آئے۔‘‘
ارسلان نے پوچھا، ’’نانا جان! کیا اسے ہاتھ لگا سکتے ہیں؟‘‘
’’ہاں ہاں بالکل....‘‘ کہتے ہوئے نانا جان نے ایک ساتھ چند بیر بہوٹی اس کی ہتھیلی پر رکھ دیئے۔ جیسے ہی بیربہوٹی ارسلان کی ہتھیلی پر پہنچی تو ساروں نے اپنے پیر اندر کر لئے۔
’’ارے نانا جان! اس نے تو اپنے پیر اندر کر لئے۔‘‘ ارسلان نے حیرت سے کہا۔
’’ہاں بیٹا! جب ہم انہیں چھوتے ہیں تو خود کے دفاع میں یہ اپنی ٹانگوں کو سکڑ لیتے ہیں اور جیسے ہی انہیں زمین پر رکھتے ہیں تو فوراً پیر باہر نکال کر بھاگنے لگتے ہیں۔‘‘ نانا جان بچوں کی معلومات میں اضافہ کرنے لگے، ’’گاؤں کے بچے انہیں جمع کرکے بوتل میں رکھتے ہیں اور ان سے کھیلتے ہیں۔ وہ انہیں ایک دائرے میں رکھتے ہیں، پہلے جو بیربہوٹی پیر باہر نکال کر بھاگتی ہے اور دائرے سے باہر ہو جاتی ہے اس کے مالک کو فاتح قرار دیا جاتا ہے۔‘‘
ارم بھی بیر بہوٹیوں کو دیکھ کر بہت خوش ہو رہی تھی، اس نے بھی بیربہوٹی کی پیٹھ کو چھوا تو اسے بے حد نرم اور گداز لگی۔ ’’نانا جان! یہ تو بالکل مخمل کی طرح نرم و ملائم ہے۔‘‘ ارم کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’ہاں بیٹا! اس لئے تو اسے ریڈ ویلویٹ کہتے ہیں۔‘‘
’’لیکن میں تو اسے مخملی مکڑی ہی کہوں گی۔‘‘ ارم نے شرارت سے کہا۔
ارسلان اپنی ہتھیلیوں میں ڈھیر ساری بیر بہوٹی دیکھ کر کہنے لگا، ’’نانا جان! یہ ہمیں نقصان تو نہیں پہنچاتے نا؟‘‘
’’بالکل نہیں بیٹا! بلکہ یہ ہمارے لئے بہت مفید ہیں۔‘‘ ’’وہ کیسے؟‘‘ ارسلان نے پوچھا۔
’’بیربہوٹی مٹی اور ماحولیاتی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ چونکہ یہ مٹی میں موجود پیڑ پودوں کا کچرا اور دوسرے چھوٹے چھوٹے کیڑوں کو کھاتے ہیں جو فنگس اور بیکٹیریا کو کھا کر نشونما پاتے ہیں، اس لئے یہ مٹی کو زرخیز بنا کر کسان کی مدد کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح جس طرح کیچوے کرتے ہیں۔ یہی نہیں یونانی دواؤں میں ان کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے۔ ذیابیطس اور فالج کے لئے بہت مؤثر ہے۔ اکثر گاؤں کے لوگ انہیں پان میں رکھ کر کھاتے ہیں اور مختلف بیماریوں سے اپنی حفاظت کرتے ہیں۔ اس کیڑے کی فطرت گرم ہوتی ہے اس لئے فالج کے مریضوں کی اس کے تیل سے مالش کی جاتی ہے۔‘‘
’’نانا جان! آپ تو اس کیڑے کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔‘‘ ارم نانا جان سے لپٹ کر کہنے لگی۔
’’کیونکہ بیٹا! ہم یہیں گاؤں میں رہتے ہیں اپنے بچپن سے اسے دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’نانا جان کیا میں انہیں اپنے ساتھ گھر لے جا سکتا ہوں؟ میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ ان سے کھیلوں گا۔‘‘
’’بالکل لے جا سکتے ہو۔‘‘ نانا جان نے ہامی بھری پھر دونوں بچے نانا جان کے ساتھ بیربہوٹیوں کو بوتل میں جمع کرنے لگے۔