• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: ایک دن کا موسم گرما

Updated: November 10, 2023, 6:08 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف امریکی ادیب رے براڈ بری کی شہرۂ آفاق کہانی ’’آل سمر اِن اے ڈے‘‘ All Summer in a Day کااُردو ترجمہ

photo;INN
تصویر :آئی این این

تمام بچے شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیوں سے لگے کھڑے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کسی خوبصورت گلدستے میں بہت سارے رنگ برنگے پھول ہوں، جو شیشے سے لگ کر کسی کا انتظار کررہے ہوں۔ 
’’سب تیار ہیں؟‘‘
’’ہاں! ہم سب تیار ہیں۔‘‘ 
’’کیا سائنسداں جانتے ہیں کہ آج ایسا ہوگا؟‘‘ 
’’معلوم نہیں۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے!‘‘ 
تمام بچے ایک دوسرے کی باتوں کا جواب دے رہے تھے، اور سبھی کو سورج کا انتظار تھا۔ باہر شدید بارش ہورہی تھی۔ در حقیقت، یہاں سات سال سے بارش ہو رہی تھی۔ ہزاروں دن گزر گئے، کئی مہینے بیت گئے، ایک سال جاتا دوسرا آتا لیکن بارش نہیں رُکی۔ اس طویل عرصے میں بارش مسلسل ہوتی رہتی۔ کبھی ہلکی ہوتی، کبھی پھوار پڑتی، اور کبھی بجلی کی چمک اور بادل کی گرج کے ساتھ ہوتی۔ شیشے کی کھڑکیوں سے جب بچے مسلسل گرتی بارش کو دیکھتے تو انہیں لگتا جیسے وہ کسی شیش محل نما جزیرے میں قید ہیں، اور باہر ہر جانب بڑی بڑی لہریں اٹھ رہی ہوں۔ ایسا لگتا کہ یہ نامعلوم جزیدہ سمندر کی لہروں سے سر نکال کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کررہا ہو۔ باہر نظر آنے والے جنگلات مسلسل بارش سے تباہ ہوجاتے مگر پھر اُگ آتے، پھر تباہ ہوجاتے اور پھر ان میں جان پڑجاتی۔ یہ عمل برسوں سے جاری تھا۔ 
نظام شمسی کے سیارہ ’’زہرہ‘‘ پر زندگی ایسی ہی تھی۔ بڑے بڑے شیشوں والی کھڑکی والا کمرہ راکٹ میں بیٹھ کر آئے زمینی بچوں کااسکول تھا۔ زمین کے چنندہ افراد اس بارانی دنیا یعنی زہرہ پر انسانی تہذیب بسانے کی غرض سے آئے تھے۔ 
’’مارگو‘‘ نامی ایک طالبہ ان تمام بچوں سے دور کھڑی تھی اور سوچ رہی تھی کہ تمام بچے کبھی یہ یاد رکھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے کہ بارش کب شروع ہوتی ہے اور کب بند ہوتی ہے۔ وہ سبھی نو سال کے تھے۔ زہرہ پر سورج ۷؍ سال بعد صرف ایک گھنٹے کیلئے نکلتا تھا۔ مارگو سمجھتی تھی کہ یہاں رہنے والے سبھی اس بات سے واقف ہیں گرمی کیا ہے۔ لیکن یہاں کے لوگ گرمی کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ زہرہ پر بارش کے علاوہ کوئی اور موسم نہ تھا۔
گزشتہ دن انہوں نے کلاس میں سورج کے بارے میں پڑھا تھا کہ یہ لیموں کی طرح نظر آتا ہے اور بہت گرم ہوتا ہے۔ انہوں نے اس پر چھوٹی چھوٹی کہانیاں، مضامین اور نظمیں لکھی تھیں:
مَیں سورج کو پھول سمجھتی ہوں
جو صرف ایک گھنٹے کیلئے کھلتا ہے
یہ مارگو کی نظم تھی جسے کلاس روم میں مارگو نے آہستگی سے پڑھا جبکہ باہر مسلسل بارش ہو رہی تھی۔
’’یہ نظم تم نے نہیں لکھی ہے!‘‘ ایک لڑکے نے زور سے کہا۔’’مَیں نے لکھی ہے۔‘‘ مارگو نے آہستگی سے کہا۔ ’’ولیم!‘‘ استاد نے آواز لگائی۔ اور پھر بات ختم ہوگئی۔
ایسا محسوس ہورہا تھا کہ بارش کی شدت کم ہوتی جارہی ہے۔ مارگو شیشے کی کھڑکی کے پاس اکیلی کھڑی تھی۔ وہ ایک کمزور لڑکی تھی۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ برسوں سے جاری اس بارش میں کہیں کھو گئی ہے اور بارش نے اس کی آنکھوں کے نیلے، چہرے کے سرخ اور بالوں کے زرد رنگ کو دھو دیا ہے۔ وہ ایک پرانی تصویر تھی جو سفید ہو گئی تھی۔ وہ بڑے شیشے کے پاس کھڑی تیزی سے گیلی ہوتی ہوئی دنیا کو گھور رہی تھی۔
’’کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ ولیم نے پوچھا۔
مارگو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 
’’جب تم سے بات کی جائے تو بولنا چاہئے۔‘‘ ولیم اسے زور سے دھکا دے کر بھا گ گیا۔ 
مارگو اِن بچوں کے ساتھ کوئی بھی کھیل نہیں کھیلتی تھی۔ وہ اس کے آس پاس کھیلتے رہتے تھے۔ مگر وہ گم صم بیٹھی رہتی اور بارش کو دیکھا کرتی۔ جب کلاس میں خوشی، زندگی اور کھیل کا ترانہ گایا جاتا تو وہ خاموش کھڑی رہتی۔ جب وہ سورج اور گرمیوں کے بارے میں گاتے، تبھی کھڑکیوں سے بارش کو دیکھتے ہوئے اس کے ہونٹ ہلتے تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ وہ صرف پانچ سال پہلے زمین سے آئی تھی۔ اسے اوہائیو (ایک مریکی ریاست) کا سورج اور آسمان یاد تھا۔ اُس وقت مارگو کی عمر چار سال تھی۔ دیگر بچے اپنی ساری زندگی زہرہ ہی پر رہے تھے۔ جب زہرہ پر آخری بار سورج نکلا تھا تو ان کی عمر ۲؍ سال تھی۔انہیں یقیناً یاد نہیں تھا کہ سورج کیا ہے اور کیسے نظر آتا ہے لیکن مارگو کو یاد تھا۔ 
’’یہ ایک سکے کی طرح ہے۔‘‘ مارگو نے ایک بار آنکھیں بند کرکے کہا تھا۔ 
’’نہیں! ایسا نہیں!‘‘ دیگر بچے بیک آواز بولے۔

یہ بھی پڑھئے: جاسوس (او ہنری)

 ’’وہ آگ کی طرح ہے۔‘‘ مارگو نے کہا، ’’چولہے کی آگ کی طرح۔‘‘ 
’’تم جھوٹ بول رہی ہو، تمہیں بالکل یاد نہیں ہے کہ سورج کیسا ہے!‘‘ بچوں نے کہا۔ 
لیکن مارگو کو یاد تھا۔ وہ خاموشی سے ان سب سے دور کھڑی کھڑکیوں سے بارش کو دیکھتی رہتی۔ 
راکٹ میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ اگلے سال مارگو کے والدین اسے زمین پر واپس لے جا رہے ہیں۔ وہ اپنی بچی کو اس طرح کی زندگی گزارتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اپنی بچی کی اچھی صحت کیلئے وہ لاکھوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنے کیلئے تیار تھے۔ مارگو کو راکٹ میں عجیب اہمیت حاصل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دیگر بچے اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ 
’’یہاں سے دور ہٹو۔‘‘ ایک لڑکے نے اسے زور دار دھکا دیا۔ ’’تم یہاں کس چیز کا انتظار کر رہی ہو؟‘‘ 
مارگو نے جب اس کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ مارگو کوکس چیز کا انتظار ہے۔ 
’’اوہ! تم اُسے کبھی نہیں دیکھ سکوگی۔‘‘
’’لیکن سائنسدانوں نے کہا تھا کہ سورج آج نکلے گا۔‘‘ مارگو نے تیزی سے کہا۔ 
’’تم مذاق کررہی ہو۔‘‘ ایک لڑکے نے اسے سختی سے پکڑ کر کہا۔ ’’ٹیچر کے آنے سے پہلے اسے الماری میں بند کردیتے ہیں۔‘‘ 
’’نہیں۔‘‘ مارگو نے گھبراتے ہوئے کہا۔ 
مگر وہ نہیں مانے۔ انہوں نے اسے زبردستی پکڑا اور کھینچتے ہوئے مختلف تاریک راہداریوں سے گزرنے لگے۔ وہ التجا کرتی رہی لیکن کوئی بھی اس کی بات نہیں سن رہا تھا۔ سب اسے ایک الماری کے پاس لے گئے اور اس میں بند کردیا۔ وہ اندر چیختی رہی لیکن وہ مسکراتے رہے اور دوبارہ کلاس میں آگئے۔ 
’’تیار ہو طلبہ؟‘‘ ٹیچر نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’جی ہاں!‘‘ سب نے کہا۔
’’کیا سبھی طلبہ یہاں ہیں؟‘‘ 
’’جی ہاں!‘‘
بارش کی شدت میں کمی آگئی تھی۔ 
وہ سبھی ایک بڑے دروازے کی طرف بڑھے۔
پھر بارش رُک گئی۔
یہ ایسی تھی جیسے کوئی طوفان آنے کے بعد، کوئی آتش فشاں پھٹنے کے بعد، برفانی تودا ٹوٹنے کے بعد، زلزلے آنے کے بعد اچانک خاموشی چھا جائے۔ بارش کا شور اچانک ختم ہو گیا۔ دنیا ساکت ہو گئی۔ خاموشی اتنی گہری اور ناقابل یقین تھی کہ سبھی کو لگا کہ وہ اپنی سماعت مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔ بچوں نے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔ وہ ایک دوسرے سے دور کھڑے تھے۔ دروازہ کھلا اور خاموش، منتظر دنیا کی مہک ان کے اندر اتر گئی۔
سورج نکل آیا۔
یہ بھڑکتے ہوئے کانسے کا رنگ اور بہت بڑا تھا۔ اس کے گرد ایک چمکدار نیلا رنگ تھا جو غالباً آسمان تھا۔ جنگل سورج کی روشنی میں جگمگا اُٹھا۔ بچے شور مچاتے ہوئے سورج کی روشنی میں کھیلنے لگے۔ 
’’زیادہ دور نہیں جانا۔‘‘ ٹیچر نے آواز لگائی۔
’’تمہارے پاس صرف ایک گھنٹہ ہے۔‘‘ 
لیکن وہ آسمان کی طرف منہ کرکے بھاگ رہے تھے۔ سورج کی گرم شعاعوں کو اپنے گالوں پر محسوس کر رہے تھے۔ وہ اپنے جیکٹ اتار رہے تھے۔ سورج کی کرنیں انہیں حرارت دی رہی تھیں۔ 
’’اوہ، یہ قدرتی روشنی کتنی اچھی ہے، ہے نا؟‘‘
’’ہاں! بہت اچھی ہے۔ سب سے بہتر۔‘‘ 
پھر بچے اس بڑے جنگل میں گھومنے لگے۔ یہاں مختلف رنگوں کے ہزاروں پھول تھے۔ یہ جنگل برسوں سے سورج کی روشنی کے بغیر تھا۔ یہاں چاند کی طرح چمکتے پتھر تھے۔ سبھی  بچے گھاس پر لیٹ گئے۔ وہ کھیل رہے تھے۔ آپس میں خوب باتیں کررہے تھے۔ وہ درختوں کے درمیان بھاگتے، پھسلتے، گرتے، ہنستے، ایکدوسرے کو دھکا دیتےلیکن وہ بار بار سورج کو دیکھتے۔ وہ سورج کی روشنی میں نظر آنے والی ہر چیز کو حیرت سے دیکھتے اور اسے چھوتے۔ اور پھر...... 
ایک بچی زور سے چیخی۔ سب رُک گئے۔
لڑکی نے اپنی دائیں ہتھیلی آگے بڑھائی۔ ہتھیلی کے درمیان میں بارش کا ایک بڑا قطرہ تھا۔ وہ اسے دیکھ کر رونے لگی۔سب نے خاموشی سے سورج کی طرف دیکھا۔چند ٹھنڈے قطرے ان کی ناک، گالوں اور منہ پر گرے۔ سورج دھند کے پیچھے غائب ہو گیا۔ بچوں کے اردگرد ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ وہ راکٹ کی طرف پلٹ گئے۔ ان کی مسکراہٹیں جاتی رہیں۔
گرج چمک نے انہیں حیران کر دیا تھا۔ بارش ٹھیک اسی طرح شروع ہوچکی تھی جیسے کبھی تھمی ہی نہ ہو۔ پتے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔ پھر بجلیاں گرنا شروع ہوگئیں۔ ایک پل میں روشن آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا۔ تمام بچے ایک منٹ تک زیر زمین دروازے کے پاس کھڑے رہے۔ پھر انہوں نے دروازہ بند کر دیا۔ ہر جگہ تیز بارش کی آوازیں دوبارہ سنائی دینے لگیں۔ پھر سے موسلادھار بارش!
’’کیا سات سال اور انتظار کرنا ہوگا؟‘‘ 
’’ہاں۔ سات سال۔‘‘ 
پھر ان میں سے ایک بچہ اچانک رونے لگا۔ سبھی اس کی طرف دیکھنے لگے۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا، ’’مارگو!‘‘ 
’’کیا؟‘‘ کچھ بچے سمجھنے اور کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں گویا ہوئے۔
وہ اب بھی الماری میں بند تھی۔
’’مارگو۔‘‘ اس نے دوبارہ کہا۔ اور پھر ایسا لگا جیسے سبھی کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ 
تمام بچے ایسے کھڑے تھے جیسے کسی نے ان کے پاؤں میں کیلیں مار دی ہوں، اور وہ اپنی جگہ پر جم گئے ہوں۔ ان کی زبانیں گنگ ہوگئی تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، پھر شیشے کے پار مسلسل گرتی بارش کو دیکھنے لگے۔ بارش میں تیزی آتی جارہی تھی۔ وہ ایک دوسرے سے آنکھیں نہ ملا سکے۔ ان کے چہروں پر سنجیدگی طاری تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان چند لمحوں میں ان کی عمریں کافی بڑھ گئی ہیں۔ ان کے چہروں کا رنگ زرد تھا اور سبھی کے سر شرمندگی سے جھکے ہوئے تھے۔ 
’’مارگو۔‘‘ ایک لڑکی نے آہستگی سے کہا۔ 
کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ 
’’چلو؟‘‘ لڑکی نے سرگوشی کی۔
اور پھر ٹھنڈی بارش کی آواز پر تمام بچے آہستہ آہستہ چلنے لگے۔ وہ ہال سے نکلے، پھر مختلف راہداریوں سے گزرنے لگے۔وہ طوفان اور گرج کی آواز میں دروازے سے اس کمرے کی طرف مڑے جس میں الماری تھی۔ ان کے چہروں پر ایک زبردست روشنی چمکی، جو باہر کڑکنے والی بجلی کی تھی۔
نیلی اور خوفناک روشنی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے الماری کے پاس آئے اور چپ چاپ کھڑے ہو گئے۔
الماری میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی، ایسا لگ رہا تھا اندر کوئی نہیں ہے۔انہوں نے آہستگی سے الماری کا دروازہ کھولا اور ایک طرف ہٹ گئے۔ مارگو کی آنکھیں رو رو کر سوج گئی تھیں۔ دروازہ کھلتے ہی وہ خاموشی سے الماری سے نکل آئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK