• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: جاسوس

Updated: October 28, 2023, 12:27 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف امریکی ادیب او ہنری کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی سلو‘تھ‘‘ The Sleuth کا اُردو ترجمہ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

کسی انسان کا اچانک غائب ہوجانا معمولی نہیں ہوتا۔ شہر کی تمام تفتیشی ایجنسیوں اور جاسوسوں کو اس کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مَیری سنائیڈر کا معاملہ کافی دلچسپ اور منفرد ہے۔ 
میکس نام کا ایک ادھیڑ عمر شخص اپنی بہن میری سنائیڈر( گنجان آبادی والے ایک علاقے میں رہنے والی ایک ۵۲؍ سالہ بیوہ) کو تلاش کرنے کیلئے نیویارک آیا۔ میری کے پتے پر پہنچنے کے بعد اسے بتایا گیا کہ وہ ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ قبل وہاں سے جاچکی ہے۔ کسی کو بھی اس کا نیا پتہ نہیں معلوم۔ 
گلی سے باہر آنے کے بعد مسٹر میکس نے ایک پولیس اہلکار کو اس بارے میں بتایا۔ 
میکس نے کہا، ’’میری بہن بہت غریب ہے اور مَیں اس سے ملنے کیلئے بہت بے چین ہوں ۔ حال ہی میں سیسے کی ایک کان میں مَیں نے کافی پیسہ کمایا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس رقم میں مَیں اپنی بہن کو بھی حصہ دار بناؤں ۔ ہم کسی اشتہار کے ذریعے اسے تلاش نہیں کر سکتے کیونکہ وہ پڑھی لکھی نہیں ہے۔‘‘ 
پولیس اہلکار نے اپنی مونچھوں کو کچھ اس طرح تاؤ دیا کہ میکس کی آنکھوں میں امید کے دیے روشن ہوگئے۔ پھر اس نے کہا، ’’آپ کینال اسٹریٹ جائیں ، وہاں پولیس ہیڈکوارٹرس ہے۔ وہاں ضرور مدد ملے گی۔‘‘ 
پولیس ہیڈ کوارٹرس میں میکس کی مدد کی گئی۔ بھائی کی طرف سے فراہم کی گئی میری کی تصویریں چھاپی گئیں اور شہر کے مختلف مقامات پر انہیں چسپاں کردیا گیا۔ بہن کی تلاش کیلئے پولیس چیف نے جاسوس مولنز کو کیس کی ذمہ داری سونپی۔ جاسوس نے میکس سے کہا، ’’یہ معاملہ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ آج سہ پہر تین بجے والڈورف کے کیفے میں مجھ سے ملو۔‘‘ میکس مقررہ وقت پر وہاں پہنچا تو مولنز اسی کا انتظار کررہا تھا۔ جاسوس نے لاپتہ خاتون سے متعلق اس سے سوالات پوچھے۔ پھر کہنے لگا، ’’نیو یارک ایک بڑا شہر ہے لیکن ہم نے جاسوسی کے کاروبار کو خاصا منظم کر دیا ہے۔ تمہاری بہن کو تلاش کرنے کیلئے ہم دو طریقے اختیار کر سکتے ہیں ۔ اولین طریقہ آزمانے سے پہلے یہ بتاؤ کہ تمہاری بہن کی عمر ۵۲؍ سال ہے، ہے نا؟ ‘‘
’’جی ہاں !‘‘ میکس نے کہا۔
جاسوس اسے شہر کے ایک بڑے اخبار کے دفتر میں لے گیا جہاں اس نے ایک ’’اشتہار‘‘ لکھ کر میکس کو دکھایا۔ اشتہار میں درج تھا: ’’ہمیں ایک میوزیکل کامیڈی شو کیلئے لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ خواہشمند خواتین براڈوے سے رابطہ کریں ۔‘‘ 
میکس اشتہار پڑھنے کے بعد مشتعل ہوگیا۔ ’’میری بہن ایک غریب، محنتی، بوڑھی عورت ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس قسم کے اشتہار سے کیا مدد ملے گی۔‘‘
جاسوس نے کہا، ’’میرا خیال ہے کہ تم نیویارک سے واقف نہیں ہو لیکن اگر تمہیں اس اشتہار سے کوئی شکایت ہے تو ہم دوسری ترکیب آزمائیں گے مگر خرچ زیادہ ہوگا۔‘‘ 
’’خرچ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ میکس نے کہا۔ جاسوس نے والڈورف کے ایک شاندار ہوٹل میں ایک بڑا کمرہ کرائے پر لیا۔ چوتھی منزل پر واقع اس کمرے میں آنے کے بعد جاسوس ایک مخملی کرسی میں دھنس گیا جبکہ میکس پریشان نظر آ رہا تھا۔ جاسوس کہنے لگا، ’’تمہیں یہ کمرہ چند مہینوں تک کرائے پر لینا ہوگا۔‘‘ ’’چند مہینوں کیلئے؟ کیا مطلب ہے؟‘‘ میکس نے سوال کیا۔ 
’’اوہ! مَیں نے کہا تو تھا اس طریقے میں زیادہ وقت لگے گا اور پیسے بھی خرچ ہوں گے۔ ہمیں موسم بہار تک انتظار کرنا پڑے گا۔ پھر شہر کی نئی ڈائریکٹری شائع ہوگی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس میں تمہاری بہن کا موجودہ نام اور پتہ درج ہو۔‘‘
یہ سنتے ہی میکس نے اس جاسوس سے پیچھا چھڑالیا۔ 
اگلے دن کسی نے اسے نیویارک کے مشہور پرائیویٹ جاسوس شمروک جولنز سے ملنے کا مشورہ دیا جس کی فیس بہت زیادہ تھی لیکن وہ انتہائی پیچیدہ کیس بھی سلجھانے میں ماہر تھا۔ اس عظیم جاسوس کے اپارٹمنٹ کے ویٹنگ روم میں دو گھنٹے انتظار کرنے کے بعد میکس نے اسے دیکھا۔ جولنز ہاتھی دانت کی شطرنج کی میز پر جامنی رنگ کے ڈریسنگ گاؤن میں بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے ایک رسالہ تھا۔ چہرے پر فکرمندی کے آثار تھے۔ شمروک نے میکس کو دیکھتے ہوئے کہا کہ کام ہوجانے کے بعد میر ی فیس ۵۰۰؍ ڈالر ہوگی۔ میکس قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہوگیا۔ 
میکس کی روداد سننے کے بعد جاسوس نے کہا،’’ مسٹر میکس! میں اس معاملے کی تفتیش کروں گا۔ اس شہر میں لوگوں کا لاپتہ ہونا میرے لئے ہمیشہ سے ایک دلچسپ معمہ رہا ہے۔ ‘‘ شمروک اور میکس وہاں گئے جہاں میری سنائیڈر رہتی تھی۔ جاسوس نے اس کمرے کو دیکھنے کی فرمائش کی جہاں میری رہتی تھی۔ اس کے لاپتہ ہونے کے بعد سے کسی نے یہ کمرہ کرائے پر نہیں لیا تھا۔ کمرہ چھوٹا تھا جس میں خستہ حال اور ناقص فرنیچر تھا۔ میکس مایوسی کے عالم میں ایک ٹوٹی کرسی پر بیٹھ گیا جبکہ عظیم جاسوس نے دیواروں ، فرش اور پرانے فرنیچر کی تلاشی لی۔
آدھے گھنٹے بعد جولنز نے چند چیزیں اکٹھا کیں ۔ ایک سیاہ ہیٹ پن، تھیٹر کے پروگرام کا ایک پھٹا ہوا ٹکٹ، اور ایک چھوٹے سے پھٹے ہوئے کارڈ کا حصہ جس پر لفظ ’’بائیں ‘‘ اور ’سی ۱۲‘‘ لکھا ہوا تھا۔ 
شمروک جولنز دس منٹ تک ان چیزوں کو دیکھتا رہا پھر کہنے لگا، ’’آؤ مسٹر میکس! مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ مَیں آپ کو براہ راست اس گھر میں لے جا سکتا ہوں جہاں آپ کی بہن فی الحال رہ رہی ہے۔‘‘ 
میکس خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگیا۔ 
’’تم نے اتنی جلدی سراغ کیسے پالیا؟‘‘ اس نے توصیفی لہجے میں دریافت کیا۔ 
جولنز اس سوال کیلئے تیار تھا۔ اس نے ایک چھوٹی سی میز پر تمام اشیاء پھیلا دیں اور کہنے لگا، ’’ ان اشاروں سے مَیں نے یہ جان لیا ہے کہ مسز سنائیڈر شہر کے کن حصوں میں نہیں ہوں گی۔ یہ ہیٹ پن ہے؟ کوئی بھی خاتون بروکلین کی طرف ہیٹ پن کے بغیر نہیں جاتی کیونکہ وہاں جانے والی بسوں میں اسے سیٹ پانے کیلئے ہیٹ پن کو بطور ہتھیار استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح وہ ہارلیم بھی نہیں جا سکتی۔ اس دروازے کے پیچھے دو ہُک ہیں جن میں سے ایک پر مسز سنائیڈر نے اپنی شال لٹکائی ہے۔ شال کے نچلے حصے نے پلاستر والی دیوار پر ایک لکیر بنادی ہے۔ شال پر کوئی جھالر نہیں ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ کوئی ادھیڑ عمر والی خاتون بغیر جھالر والی شال کے ساتھ ہارلیم کیلئے ٹرین میں سوار ہوئی ہو۔ اس لئے مَیں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ مسز سنائیڈر زیادہ دور نہیں گئی ہیں ۔ کارڈ کے اس پھٹے ہوئے ٹکڑے پر آپ لفظ ’’بائیں ‘‘ اور ’’سی ۱۲‘‘ دیکھ سکتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے ’’۱۲؍ایونیو سی۔‘‘ یہ ایک فرسٹ کلاس بورڈنگ ہاؤس ہے۔ مگر آپ نے بتایا کہ آپ کی بہن غریب ہے جبکہ ۱۲؍ ایونیو سی امیروں کا علاقہ ہے۔ آپ تھیٹر کا یہ پھٹا ہوا ٹکٹ دیکھ رہے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی بہن تھیٹر میں ملازمت کرتی ہو۔ مسٹر میکس! قیمتی زیورات اکثر کہاں کھو جاتے ہیں ؟ یقیناً تھیٹرز میں ۔ ٹکٹ کے اس ٹکڑے کو دیکھیں ، مسٹر میکس! اس میں گول نشان کا مشاہدہ کریں ۔ اسے کسی انگوٹھی کے گرد لپیٹا گیا ہے، شاید بہت قیمتی انگوٹھی۔ میریکو وہ انگوٹھی اس وقت ملی جب وہ کام کر رہی تھی۔ اس نے عجلت میں ٹکٹ کا ایک ٹکڑا پھاڑ دیا اور انگوٹھی کو احتیاط سے اس میں لپیٹ کر چھپالیا۔ پھر اس نے انگوٹھی بیچ دی اور اب ۱۲؍ ایونیو سی میں رہائش پذیر ہے۔ اب ہم اسی علاقے میں جارہے ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا ترجمہ: نوجوان بادشاہ (پہلی قسط)

 شمروک جولنز نے فاتح مسکراہٹ کے ساتھ اپنی قائل کرنے والی تقریر کا اختتام کیا۔ پھر دونوں ۱۲؍ایونیو سی گئے۔ یہ ایک خوشحال اور معزز محلے میں پرانے زمانے کا بھورے پتھروں کا ایک مکان تھا۔ انہوں نے گھنٹی بجائی۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ وہاں کوئی مسز سنائیڈر کو نہیں جانتا۔ جب وہ فٹپاتھ پر پہنچے تو میکس نے ان سراغوں کا دوبارہ جائزہ لیا جو وہ اپنی بہن کے پرانے کمرے سے لایا تھا۔
’’میں کوئی جاسوس نہیں ہوں ،‘‘ اس نے تھیٹر کے ٹکٹ کا ٹکڑا اپنی ناک تک اٹھاتے ہوئے کہا، ’’لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کاغذ میں انگوٹھی نہیں لپیٹی گئی تھی۔ جسے ہم نے پتہ سمجھا ہوسکتا ہے وہ کسی تھیٹر کا سیٹ نمبر ہو، جیسے نمبر ۱۲، قطار سی، بائیں گلیارے میں ۔‘‘ 
شمروک جولنز کچھ سوچنے لگا۔ 
’’مجھے لگتا ہے کہ یہ معاملہ حل کرنے میں جوگنس ہماری مدد کرسکتا ہے۔‘‘ 
’’جوگنس کون ہے؟‘‘ میکس نے پوچھا۔
’’وہ جاسوسی کے جدید اسکول کا لیڈر ہے۔ ان کے طریقے ہم سے مختلف ہیں مگر جوگنس نے کچھ انتہائی پیچیدہ معاملات حل کئے ہیں۔ چلو، اس کے پاس چلتے ہیں ۔‘‘ 
وہ جوگنس کے دفتر پہنچے۔ وہ کم بالوں والا چھوٹے قد کا شخص تھا۔ شمروک اور جوگنس نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ میکس اور شمروک نے اسے تمام تفصیلات سے آگاہ کیا۔ 
’’کیا تمہاری بہن کی عمر ۵۲؍ سال ہے، اس کی ناک کے کنارے پر ایک بڑا سا تل ہے، اور وہ ایک انتہائی غریب بیوہ ہے، کافی مشکل سے اپنی زندگی گزارتی ہے، اور بہت ہی عام چہرے کی مالک ہے؟‘‘ جوگنس نے ایک مرتبہ پھر تصدیق چاہی۔ 
’’بالکل!‘‘ میکس نے اعتراف کیا۔ جوگنس نے اپنی ٹوپی پہن لی۔
’’مَیں ٹھیک پندرہ منٹ بعد تمہاری بہن کا درست پتہ لے کر آؤں گا۔‘‘ 
شمروک جولنز حیرت زدہ رہ گیا۔ 
مقررہ وقت پر جوگنس واپس آگیا۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ کی ایک چھوٹی پرچی تھی۔
’’تمہاری بہن، میری سنائیڈر،‘‘ اس نے اطمینان سے اعلان کیا، ’’۱۶۲؍ نمبر چلٹن اسٹریٹ میں مل جائے گی۔ وہ پچھلے ہال کے کمرے میں رہ رہی ہے۔ اس کا گھر یہاں سے صرف چار بلاکس کی دوری پر ہے۔‘‘ جوگنس نےکہا۔ ’’تم اپنی بہن سے مل آؤ۔ مسٹر جولنز یہاں آپ کا انتظار کریں گے۔‘‘ 
میکس نے فوراً باہر دوڑ لگا دی۔ تقریباً بیس منٹ بعد وہ چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ واپس آیا۔ 
’’میری بہن اسی پتے پر ہے اور بالکل ٹھیک ہے! آپ کی فیس کتنی ہے؟‘‘ 
’’دو ڈالر!‘‘ جوگنس نے کہا۔
جب میکس فیس ادا کرکے روانہ ہوا تو، شمروک جولنز ہاتھ میں ٹوپی لئے جوگنس کے سامنے کھڑا تھا۔ شمروک کہنے لگا، ’’اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو کیا بتا سکتے ہو......‘‘
’’اوہ، ضرور!‘‘ جوگنس نے خوشگوار انداز میں کہا۔ ’’تمہیں مسز سنائیڈر کی تفصیل یاد ہے؟ آج کے دور میں کیا آپ نے کبھی کسی ایسی خاتون کے بارے میں سنا ہے جو اپنے ایک بڑے ’کر یئیون پورٹریٹ‘ (Crayon Portrait)پر ہفتہ وار قسطیں ادا نہ کرتی ہو؟ ایسے پورٹریٹ بنانے والی اس قسم کی سب سے بڑی فیکٹری نکڑ پر ہے۔ مَیں وہاں گیا اور وہاں سے اس کا پتہ نکال لیا۔ بس اتنا ہی۔‘‘

نوٹ: طلبہ توجہ دیں کہ جس طرح آج کے دَور میں سیلفی اور اپنی تصویروں پر مختلف قسم کے فلٹر لگانے کا رجحان ہے، ٹھیک اسی طرح ۱۸۰۰ء کے اواخر میں کیمرے سے تصویریں نکال کر ان کا بڑا کریئیون پورٹریٹ بنوایا جاتا تھا۔ اس دور میں خواتین میں رجحان تھا کہ وہ یہ مہنگے پورٹریٹ بنواتی تھیں اور قسطوں میں اس کی قیمت ادا کرتی تھیں ۔ پورٹریٹ بنانے والی فیکٹری اپنے ہر گاہک کی تفصیل اپنے پاس محفوظ رکھتی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK