پرانے زمانے میں یونان کے لوگ جب کسی چیز کی اصلیت کو پہچاننے سے قاصر رہتے تھے تو اُسے اپنا دیوتا مان لیتے تھے۔
EPAPER
Updated: December 04, 2024, 4:52 PM IST | Muhammad Qasim Siddiqui | Mumbai
پرانے زمانے میں یونان کے لوگ جب کسی چیز کی اصلیت کو پہچاننے سے قاصر رہتے تھے تو اُسے اپنا دیوتا مان لیتے تھے۔
پرانے زمانے میں یونان کے لوگ جب کسی چیز کی اصلیت کو پہچاننے سے قاصر رہتے تھے تو اُسے اپنا دیوتا مان لیتے تھے۔ وہ ہر چیز کو دیوتاؤں کی بنائی ہوئی چیز سمجھ لیتے تھے، مگر پھولوں کے متعلق ان کا خیال تھا کہ یہ پریوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں سورج مکھی کے پھول کے بارے میں قدیم یونان کی کہانی سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔ سمندر کے بادشاہ کی کئی بیٹیاں تھیں۔ یہ سب سمندر کے نیچے غاروں میں رہا کرتی تھیں۔ وہ جن محلوں میں رہتی تھیں وہ سیپ کے بنے ہوئے ہوتے تھے۔ ان کے پاس اپنی اپنی گاڑیاں تھیں۔ یہ گاڑیاں بھی سیپ کی بنی ہوئی تھیں۔ یہ جب کہیں جاتیں تو ان گاڑیوں پر سوار ہوجاتیں اور مچھلیاں انہیں اِدھر سے اُدھر پہنچا دیتیں۔ دن بھر یہ سمندر کی شہزادیاں سمندر کے اندر رہتیں اور کھیل میں مصروف رہا کرتیں، لیکن رات کو یہ سمندر سے باہر آجاتیں اور ساحل کی سیر کا لطف لیتیں۔ انہوں نے کبھی سورج کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ صبح ہوتے ہی سب پریاں اپنے اپنے گھروں کو واپس آجاتیں۔
ایک مرتبہ چاندنی رات میں یہ سب بہنیں سمندر کے کنارے کھیل رہی تھیں۔ کھیلتے کھیلتے صبح ہوگئی۔ سب بہنیں اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار ہو کر سمندر میں لوٹ گئیں مگر سب سے چھوٹی بہن سمندر کے کنارے چٹان کے پاس کھڑی رہی۔ اس کی بہنوں نے اس کی بہت خوشامد کی مگر اُس نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ اُس نے کہا کہ وہ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ جب چاند اور ستارے غائب ہوجاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے.... آخر دن میں انہیں یہاں رہنے کی اجازت کیوں نہیں ملتی؟
پَریاں اُسے اسکے حال پر چھوڑ کر چلی گئیں۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ چھوٹی پَری نے دیکھا کہ مشرق کی طرف سے ایک روشنی پھوٹ رہی ہے۔ روشنی کت ساتھ اسے ایک رتھ نظر آیا۔ اس رتھ پر خوبصورت شہزادہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا لباس سنہرا تھا۔ اس کے ساتھ رتھ سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ رتھ آہستہ آہستہ بڑھتا رہا۔ سمندر کی بیٹی نے سوچا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر یہ شہزادہ اپنے رتھ پر اُسے سوار کرکے اسے آسمان کی سیر کرا دے مگر شہزادہ رتھ پر سوار آگے بڑھتا رہا۔ اس نے پَری کی طرف رُخ بھی نہ کیا۔
شام ہوئی تو چھوٹی پَری کی بہنیں پھر ساحل پر آئیں اور صبح سے پہلے انہوں نے پھر اس کی خوشامد کی کہ سمندر میں واپس چلے، مگر اس نے ایک نہ مانی۔ وہ اسی طرح کھڑی رہی۔ روز صبح کو شہزادہ اپنے رتھ پر سوار نکلتا۔ اور یہ پَری حسرت سے اس کی طرف دیکھتی رہتی۔ رفتہ رفتہ وہ سوکھتی گئی لیکن شہزادہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن وہ پَری ایک پودے میں تبدیل ہوگئی تھی۔ آج بھی صبح کو جب سورج کی کرنیں اپنا نور پھیلاتی ہیں تو یہ پَری اس شہزادہ کی توجہ کے انتظار میں اپنا منہ اس کی طرف کر لیتی ہے۔ آج دنیا اس پَری کو سورج مکھی کے نام سے پکارتی ہے، مگر حقیقت میں وہی پَری ہے، جسے آج بھی شہزادہ کی توجہ کا انتظار ہے۔