پچاسی سالہ بشیرن دادی کی زندگی میں ووٹ کی اہمیت پر مبنی کہانی۔
EPAPER
Updated: December 04, 2024, 4:32 PM IST | Muhammad Rafi Ansari | Mumbai
پچاسی سالہ بشیرن دادی کی زندگی میں ووٹ کی اہمیت پر مبنی کہانی۔
بشیرن دادی ’ہمت نگر‘ کی سب سے عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ پچاسی سال کی عمر ہونے کے باوجود ان کے ہاتھ پیر میں جوانوں جیسا دم تھا۔ عینک لگاتی ضرور تھیں مگر اس کے بغیر بھی دور نزدیک بخوبی دیکھ لیتی تھیں۔ دو چار دانتوں کے علاوہ ان کے بیشتر دانت سلامت تھے۔ چند برس قبل تک گھروں میں جھاڑو پونچھا کرکے گھر چلاتی تھیں۔ گھر والوں کے منع کرنے کے بعد اب اپنا کام کاج بدل دیا تھا۔ اب بشیرن دادای نے رشتے لگانے کا کام شروع کیا تھا۔ اس سے ان کو اتنا معاوضہ مل جاتا کہ ان کا گزر بسر بآسانی ہو جاتا۔ وہ ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ فلاحِ عام کے کاموں میں بھی حصہ لیتی تھیں۔ انہوں نے اب تک دسیوں الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ دادی نے خود کبھی الیکشن نہیں لڑا لیکن الیکشن لڑنے والوں کا جم کر ساتھ دیا۔
بشیرن میں کئی خوبیاں تھیں۔ وہ ایماندار تھیں۔ بات کی پکی تھیں اور ووٹ بغیر نوٹ لئے دیا کرتی تھیں۔ ہمیشہ شکر ادا کرتیں کہ انہوں نے کبھی اپنے ووٹوں کا سودا نہیں کیا۔ جو امیدوار ان کے مزاج پر کھرا اترتا اس کے لئے تن من دھن سے جٹ جاتیں۔ ان کے گھر کے افراد کچی بستی کے کچے لوگ تھے۔ بستی کی گندی گلیوں، بہتی نالیوں اور اوبڑ کھابڑ راستوں سے بے نیاز انتخابی امیدوار الیکشن کے موقعوں پر یہاں دیوانہ وار آتے۔ بستی کے باسی انہیں دیکھ کر پھولے نہیں سماتے اورانہیں روپے بانٹ کر گلیاں پھاندتے نکل جاتے۔ ہمت نگر کے لوگوں کی پست ہمتی نے انہیں وہیں کا وہیں رکھا۔ نہ ان کے شب و روز بدلے نہ امید کی کوئی کرن نظر آئی۔ مگر ان کے ووٹوں کے طلب گاروں نے ’دور کی دوستی‘ کے ساتھ انہیں ہمیشہ یاد رکھا۔
علاقہ کے قریب رہنے والا مشہور نیتا دلدار شاہ ہمت نگر کے باسیوں سے بہت متاثر تھا۔ بستی کے پانچ سو سے زائد ووٹرس گویا اس کے قبضے میں تھے۔ وہ ہر بار الیکشن میں انہیں مناسب قیمت پر خرید کر الیکشن جیت جاتا۔ مگر بشیرن دادی کو وہ ابھی تک جھکا نہیں سکا تھا۔ وہ ہر بار الیکشن میں دادی کو نوٹ کا لالچ دیتا مگر دادی اس کو ووٹ نہ دے کر ایسی چوٹ پہنچاتی کہ وہ تلملا جاتا۔
مَیں بشیرن دادی کا مداح بھی ہوں اور ان کا قدرداں بھی۔ میرے یہاں برسوں سے ان کا آنا جانا رہا ہے۔ وہ اخبار نہیں پڑھتی لیکن خبروں پر اس کی نظر رہتی ہے۔ خبروں پر اس کے تبصرے بھی بڑے مزے دار ہوتے ہیں۔ گزشتہ بڑے چناؤ کے دوران اس نے مجھے ایک دلچسپ واقعہ سنایا تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ دادی یہ بتائیے کہ آپ کی زندگی کا یادگار الیکشن بھی کوئی ہے؟ بولیں تقریباً پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ جب میں نے پہلی بار ووٹ دیا تھا۔ وہ میونسپلٹی کا الیکشن تھا۔ ہوا یہ کہ امیدواروں میں ایک ریٹائرڈ جج بھی شامل تھے۔ صاحب کا بڑا زور تھا۔ ہر طرف ان کا بڑا شور تھا.... شہر میں بڑی دھوم تھی کہ جج صاحب الیکشن میں کھڑے ہیں۔ بڑا ہنگامہ رہا۔ مگر قسمت کی خوبی دیکھئے سب کچھ ہونے کے باوجود وہ الیکشن ہار گئے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ جج صاحب صرف ایک ووٹ سے چناؤ ہارے تھے۔ یہ سن کر سارا شہر سناٹے میں آگیا.... چھان بین کرنے پر پتہ چلا تو یہ سن کر لوگوں کے اوسان خطا ہوگئے کہ خود ان کی بیوی نے ووٹ نہیں دیا تھا.... کیوں نہیں دیا تھا یہ معلوم نہ ہوسکا.... کہتے ہیں کہ اس کی کوئی خاص وجہ بھی نہ تھی۔ جانکاروں کے مطابق اِدھر دونوں میں کسی بات پر کوئی جھگڑا بھی نہیں ہوا تھا۔ نتیجہ کے بعد جج صاحب کا جو حال ہوا اس کا اندازہ ہم نہیں کرسکتے۔ آج بھی یہ واقعہ جو سنتا ہے عبرت حاصل کرتا ہے۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جج صاحب اپنی بیوی کی اس حرکت پر اسے قید بامشقت دینے پر بھی غور کرنے لگے تھے۔ بارے بیوی کے معافی مانگنے پر اپنا ارادہ بدل دیا اور پھر انہوں نے کبھی کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیا.... اس کے بعد یوں ہوا کہ انتخابی امید وار بھی خبردار رہنے لگے اور ووٹر بھی ہوشیار ہوگئے.... پھر اس حادثہ کے بعد میں نے بھی کوئی الیکشن خالی جانے نہیں دیا، دادی نے بتایا۔
حالیہ الیکشن میں ابھی چند دن باقی تھے کہ دادی شدید بیمار پڑگئیں.... ریاست بھر میں الیکشن کا بخار اپنے عروج پر تھا.... اور دادی کا بخار بھی اُترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ گھر والوں نے بڑے جتن کئے.... اُدھر بستی میں ووٹ کے بدلے نوٹ کی باتیں وہ بھی کرنے لگے جن کا نام ووٹر لسٹ میں ابھی نہیں آیا تھا.... ایک پکے ( یعنی اصلی) ووٹ کی کم سے کم قیمت پانچ سو روپے نقد ٹھہری تھی.... ایک طرف نوٹوں کی بہار اور دوسری جانب طلب گاروں کی قطار.... دادی کی کوئی حکمت اور نصیحت کام نہ آئی.... مگر وہ پھر بھی ڈٹی ہوئی تھیں.... ٹوٹ رہی تھیں مگر جھکنے کو تیار نہ ہوئیں.... پھر انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کو بلایا اور اس سے کہا کہ وہ ووٹ دینا چاہتی ہے.... مگر اسے نوٹ نہیں چاہئے.... بیٹے نے بڑے سوچ بچار اور دلدار شاہ سے صلاح و مشورے کے بعد بشیرن دادی کے ووٹ دینے کا انتظام کیا.... الیکشن کے ادھیکاری اپنے ساز و سامان کے ساتھ دادی کے گھر آئے.... ووٹ دینے سے قبل دادی نے پوچھا کہ ان کے ووٹ دینے کا انتظام آخر کس نے کیا ہے؟ جب ان کے بیٹے نے دلدار شاہ کا نام لیا تو دادی کی تیوری پر بل آگیا.... انہوں نے کہا کچھ نہیں مگر ووٹ بڑی ناگواری سے دیا.... شام ۶؍ بجے تک ووٹنگ چلی.... دو دن کے بعد نتیجے کا دن آیا.... شام ۵؍ بجے فیصلہ کا اعلان بھی کر دیا گیا.... فیصلہ چونکا دینے والا تھا.... دلدار شاہ صرف ایک ووٹ سے الیکشن جیتے تھے.... نوٹ کے بدلے ووٹ لینے والے لوٹ پوٹ ہوئے جارہے تھے۔ بشیرن دادی کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے.... دلدار شاہ نے دادی کے قدموں میں جھک کر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا کہ دادی ’’آپ کے ایک ووٹ کی طاقت کا اندازہ مجھے آج ہوگیا ہے.... دراصل مَیں جیت کر بھی ہار گیا ہوں۔‘‘