• Thu, 05 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایک طبع زاد کہانی: عظیم تباہی

Updated: April 05, 2024, 6:39 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

یہ کہانی اٹلی کے شہر پومپئی کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ ۷۹ء میں کوہ ویسوویوس سے آتش فشاں پھٹ پڑا تھا، اور پورا شہر اس کے نیچے دب گیا تھا۔ ۱۷۴۸ء میں اسے دریافت کیا گیا۔ یہا ںآج بھی انسانی لاشیں پتھر کی شکل میں موجود ہیں۔

 The Great Destruction. Photo: INN
عظیم تباہی۔ تصویر : آئی این این

یونان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اَمارہ نامی ایک ۱۱؍ سالہ لڑکی اپنے ماںباپ کے ساتھ ایک جھوپڑی میں رہتی تھی۔ یہ خاندان بہت غریب تھا۔ بمشکل دو وقت کا کھانا کھا پاتا تھا۔ امارہ کے ماں باپ کام کیلئے صبح نکل جاتے اور شام کو گھر لوٹتے۔ دن بھر محنت کرنے کے باوجود انہیں اتنے سکے نہیں مل پاتے تھے کہ وہ اپنی بیٹی کی معمولی خواہشات بھی پوری کرسکیں۔ ماں باپ کے چلے جانے کے بعد امارہ گلیوں میں یونہی گھومتی پھرتی رہتی تھی۔ اسے موسیقی کا بڑا شوق تھا۔ جہاں کوئی دھن سنائی دیتی، وہیں ٹھہر جاتی اور آنکھیں بند کرکے اس دھن کو اپنے ذہن میں اتارنے کی کوشش کرتی۔ اس کے والدین محنت کرتے تھے کہ امارہ پڑھ لکھ کر اچھا کام کرے یا ان کی کوئی چھوٹی دکان ہو جہاں امارہ بیکنگ کا اپنا شوق پورا کرسکے۔ اچھے دنوں کی امید میں امارہ کا خاندان بڑی مشکل سے گزر بسر کررہا تھا۔
ایک صبح امارہ کی آنکھ کھلی تو موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ ماں نے اسے اٹھتے دیکھا تو کہا، ’’تمہارا ناشتہ پلیٹ میں ہے۔ کھا کر گھر ہی میں رہنا۔ بارش تیز ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے والدین سروں پر کپڑا باندھے گھر سے نکل گئے۔ امارہ اداسی سے کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔ اسے تین باتوں کا غم تھا: پہلا یہ کہ ماں باپ کو اتنی بارش میں بھیگتے ہوئے کام پر جانا پڑا ہے، دوسرا یہ کہ ناشتے کی پلیٹ میں پاؤ کے ایک ٹکڑے کےسوا کچھ نہیں ہوگا، تیسرا یہ کہ آج وہ باہر نکل کر گھوم پھر نہیں سکے گی۔ قصبے میں گھومنے پھرنے کے دوران مختلف قسم کی دھنوں کو نہیں سن سکے گی۔
تاہم، تھوڑی دیر بعد وہ بستر سے نکل آئی اور مختلف برتنوں کو الٹا کرکے ایک چھڑی سے انہیں بجانے لگی۔ ساتھ ساتھ باسی پاؤ کا ٹکڑا بھی کھاتی جاتی ۔ پاؤ گلے میں اٹکتا محسوس ہوتا تو پانی پی کر اسے حلق سے نیچے اتارتی اور پھر برتنوں کو بجانے لگتی۔
تبھی ہواؤں کے دوش پر اسے بانسری بجانے کی آواز آئی۔ بانسری کی یہ مسحور کن موسیقی اس وقت بجائی جاتی تھی جب قصبہ کو کوئی بیرونی خطرہ ہوتا تھا۔ موسیقی اس قدر پرکشش تھی کہ امارہ اس کی جانب کھینچی چلی آئی۔ اس نے اپنی جھوپڑی کا ٹوٹا پھوٹا دروازہ کھولا اور آواز کی سمت چل پڑی۔ قصبہ کو خطرہ کس سے تھا؟ کیا سیلاب کا ڈر تھا؟ یا پاس کا کوئی حکمراں ان کے قصبہ پر دھاوا بولنے والا تھا؟ بانسری کی آواز سنتے ہی لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔ سڑکوں اور بازاروں میں گھومنے والے افراد کو جہاں جگہ ملی، وہاں چھپ گئے۔ سڑکیں سنسان اور گلیاں ویران ہوگئیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اس قصبہ میں کوئی ذی روح نہیں رہ گیا ہے۔
بارش تیز ہوتی جارہی تھی اور بانسری بجانے والا شخص بڑے بازار میں ایک اونچے ٹاور پر بیٹھا بانسری بجانے میں مصروف تھا۔ امارہ جیسے ہی چوک پر پہنچی ، اس کی نگاہیں ٹاور پر بیٹھے شخص پر جم گئی۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے امارہ کو چھپنے یا وہاں سے بھاگ جانے کیلئے کہہ رہا تھا مگر موسیقی نے امارہ کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ وہ کسی معمول کی طرح بانسری بجانے والے شخص کو دیکھ رہی تھی۔ گھروں اور دکانوں میں دبکے ہوئے لوگ آپس میں کہہ رہے تھے کہ کوئی اس بچی کو کھینچ کر اندر کرلے لیکن باہر نکلنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ خطرہ سر پر پہنچ گیا تھا۔ تبھی امارہ کی ماں کی نظر اس پر پڑی۔ امارہ ننگے سر بارش میں بھیگتی ہوئی ٹاور کو دیکھنے میں مصروف تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے موسیقی کے علاوہ کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔ تبھی کسی نے اسے پیچھے سے اٹھا لیا اور اگلے ہی لمحے وہ گھوڑے کی پشت پر پیٹ کے بل لٹکی ہوئی تھی۔
موسیقی رُک گئی اور امارہ کو احساس ہوا کہ اسے کسی نے اغوا کرلیا ہے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کے ماں باپ کئی سو میٹر دور گھڑ سوار کے پیچھے دوڑتے نظر آئے۔ وہ چیخ رہے تھے اور رو رہے تھے مگر لٹیروں کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے۔ امارہ بھی روتی رہی۔ لٹیروں نے اسے معمولی رقم میں اٹلی کے شہر پومپئی کے ایک بڑھئی کو فروخت کردیا۔ یہ شہر خلیج نیپلز کے کنارے آباد تھا۔

۷۹ء میں ۱۴؍ سالہ انتونیو، اپنی والدہ اور ماموں کے ساتھ خلیج نیپلز کے قریب میسینم نامی قصبے میں رہتا تھا۔ اس کے ماموں کا شمار اٹلی کے ذہین لوگوں میں ہوتا تھا۔ وہ اپنے ماموں اور والدہ کے ساتھ اکثر پومپئی جاتا تھا۔ پومپئی اور میسینم کے درمیان بحری جہاز سے سفر کرنے میں چند گھنٹے لگتے تھے۔ 
کہتے ہیں کہ اس وقت پومپئی اٹلی کا سب سے بڑا شہر تھا جو کوہ ویسوویوس کے دامن میں آباد تھا۔ اس شہر میں کبھی رات نہیں ہوتی تھی۔ یہ ہر وقت روشنیوں میں ڈوبا رہتا تھا۔ یہاں کے لوگ ہر وقت عیش و عشرت میں مبتلا رہتے تھے۔ شہر میں متعدد عالیشان عبادت گاہیں تھیں مگر عبادت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ لوگ دولتمند اور طاقتور تھے۔ ان کے اندر غرور اور تکبر بھرا ہوا تھا۔ اس شہر کے بڑھئی، کمہار اور نانبائی جیسے لوگ بھی غلاموں کو خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ غریبوں اور فقیروں کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ انتونیو کے ماموں کے پومپئی میں کئی امیر دوست تھے جن کے یہاں اس کی اکثر شامیں گزرتی تھیں۔ 
ایک دن انتونیو اپنے ماموں اور والدہ کے ساتھ پومپئی کی بندرگاہ پر اترا تو اس کے کانوں سے بانسری کی دھن ٹکرائی۔ والدہ اور ماموں تو اپنے امیر دوستوں کی جانب بڑھ گئے مگر انتونیو نے ان سے معذرت کرلی اور موسیقی کی سمت کا اندازہ لگاتے ہوئے اس جانب قدم بڑھانے لگا۔ آخر وہ اس جگہ پہنچ گیا۔ ایک چھوٹی سی لڑکی بانسری بجانے میں مگن تھی۔ اس کے اطراف مجمع لگا تھا۔ چند لمحوں بعد جب اس نے بانسری اپنے ہونٹوں سے ہٹائی تو لوگ تالیاں بجانے لگے اور پھر اس کی جانب چند سکے اچھال کر آگے بڑھ گئے۔ بے چاری لڑکی دوڑ دوڑ کر سڑک پر پڑے سکے اٹھا کر پیوند لگی جھولی میں ڈالنے لگی۔ جب وہ سارے سکے اٹھا چکی تو ایک آخری سکے کیلئے آگے بڑھی، تبھی انتونیو اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ انتونیو نے اسے انتہائی دلچسپی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
لڑکی گھبرا گئی۔ ’’مجھے معاف کیجئے گا! پولیس کو مت بتایئے گا کہ مَیں نے یہاں مجمع اکٹھا کرلیا تھا۔‘‘ وہ ہکلاتے ہوئے کہنے لگی۔
اس دور میں فن کا مظاہرہ کرکے پیسے جمع کرنا معیوب خیال کیا جاتا تھا مگر کچھ فنکار چھپ کر کبھی کبھی ایسا کرلیتے تھے۔
’’مَیں نے تمہارا نام پوچھا ہے۔‘‘
’’اَ...اَ...ما...رہ۔‘‘ لڑکی نے ہکلاتے ہوئے کہا۔’’امارہ! مَیں پولیس کو تمہاری اس حرکت کے بارے میں نہیں بتاؤں گا مگر تمہیں میرا ایک کام کرنا ہوگا۔‘‘ انتونیو نے کہا۔
’’کون سا کام؟‘‘ لڑکی اب بھی ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔’’مجھے بانسری بجانا سکھاؤگی؟‘‘ انتونیو کے سوال پر امارہ نے راحت کا سانس لیا۔’’لیکن میرے پاس وقت نہیں ہوتا۔ مَیں صبح سے شام تک آقا کیلئے لکڑیاں اکٹھا کرتی ہوں۔ اس درمیان تھوڑا وقت مل جاتا ہے تو کسی کونے میں کھڑے ہوکر بانسری بجا لیتی ہوں۔‘‘ امارہ نے معصومیت سے جواب دیا۔
’’تمہارے والدین نہیں ہیں؟‘‘ انتونیو نے حیرت سے پوچھا۔
’’میرے والدین یونان میں ہیں۔ مجھے لٹیروں نے اغوا کرلیا تھا اور پھر یہاں فروخت کردیا۔ ‘‘ امارہ نے افسردگی سے کہا۔ ’’آقا نے خرید لیا۔ ابتداء میں مَیں کافی غمگین تھی مگر آقا اچھے آدمی ہیں۔ انہوں نے موسیقی کی میری صلاحیتیں دیکھیں تو پڑوس میں رہنے والے ایک بوڑھے شخص کو کہا کہ مجھے بانسری بجانا سکھا دیں۔ مَیں شام میں وہاں بانسری بجانا سیکھتی ہوں۔‘‘
’’اِن پیسوں کا کیا کرتی ہو؟‘‘ انتونیو اس کی داستان سن کر اداس ہوگیا تھا۔ اس لڑکی نے کم عمری میں زیادہ دنیا دیکھ لی تھی۔
’’آقا سارے پیسے لے لیتے ہیں!‘‘ لڑکی نے بتایا۔’’اوہ! اس کے باوجود تم کہتی ہو کہ تمہارا آقا ایک اچھا آدمی ہے؟‘‘ انتونیو کو حیرت ہوئی۔’’ہاں! وہ مجھے کھانے کیلئے دو وقت کا کھانا، اپنی چھوٹی بیٹی کے کپڑے اور دالان میں سونے کیلئے ایک پلنگ بھی دیتے ہیں۔‘‘ لڑکی نے معصومیت سے جواب دیا۔
انتونیو کے دل پر کسی نے چھری چلادی۔ اسے لگا کہ روشنیوں اور امارت میں ڈوبے اس شہر کے لوگوں کے دل سیاہ ہوچکے ہیں۔ اس لڑکی کو اپنے والدین سے جدا کردیا گیا اور یہاں وہ غلاموں سے بدتر زندگی گزار رہی ہے مگر آقا کی معمولی عنایات اور گھٹیا سوچ کو سمجھتی ہے کہ اس کا آقا اس کا بہت خیال رکھتا ہے۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔ مَیں روزانہ اسی وقت آؤں تو تم مجھے بانسری بجانا سکھاؤگی؟‘‘ انتونیو نے سوال کیا۔ لڑکی نے اثبات میں سر ہلادیا۔
اس کے بعد انتونیو وقت مقررہ پر پومپئی جانے لگا اور امارہ سے بانسری سیکھنے لگا۔ اسے امارہ سے ہمدری ہوگئی تھی۔ ایک دن اس نے امارہ سے کہا کہ وہ اسے یہاں سے لے جائے گا۔انتونیو اسے اکثر میسینم کے بارے میں بتاتا تھا جہاں اتوار کو پورا قصبہ مل کر رات کا کھانا کھاتا تھا۔ ان باتوں کو سن کر امارہ کی آنکھیں چمکنے لگتی تھیں مگر وہ پھر اداس ہوجاتی کہ آقا اسے جانے نہیں دے گا۔

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: دیوار کے پار

’’مَیں نے کبھی کسی کے ساتھ کھانا نہیں کھایا۔ یونان میں کبھی کبھار ہی کھانا ملتا تھا، وہ بھی تنہا کھانا پڑتا تھا، اور یہاں جب آقا اپنی فیملی کے ساتھ کھانا کھالیتے ہیں تو اُن کی چھوٹی بیٹی کی پلیٹ میں بچا ہوا کھانا مجھے ایک چھوٹی کٹوری میں دیا جاتا ہے جسے میں چوکھٹ پر بیٹھ کر رات کے اندھیرے میں کھاتی ہوں۔‘‘ امارہ نے اداسی سے جواب دیا۔
انتونیو کو اس بات پر شدید غصہ آیا اور وہ طیش میں آقا کے گھر پہنچ گیا۔ آقا نے جب ایک نوجوان لڑکے کو امارہ کے ساتھ دیکھا تو اس کی بھنویں تن گئیں۔ انتہائی غصے میں اس نے امارہ کا ہاتھ چھڑایا اور بے دردی سے اسے اندر دھکیل دیا۔ امارہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور صحن میں لگے امردوکے درخت سے ٹکرا گئی اور اس کے سر سے خون بہنے لگا۔
انتونیو کچھ کرنا ہی چاہتا تھا کہ آقا نے چند ہٹے کٹے نوکروں کو بلا لیا۔انتونیو تنہا ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا اس لئے خاموشی سے پٹتا رہا مگر اس وعدے کے ساتھ لوٹ آیا کہ وہ جلد ہی امارہ کو اس وحشی درندے کے چنگل سے لے جائے گا۔ وہ سوچنے لگا کہ آقا جیسے لوگ کسی گدھ کی مانند ہوتے ہیں۔ جو کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں مگر معمولی احسانات کرکے انہیں اپنا غلام بنائے رکھتے ہیں۔
انتونیو نے امارہ کے بارے میں اپنی والدہ اور ماموں سے بات کی مگر انہیں ایک معمولی درجے کی لڑکی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ انتونیو سمجھ گیا کہ اس کی والدہ اور ماموں کے دل میں غریبوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ دونوں امراء کے غلام ہیں۔ انہیں دولت اور دولتمندوں سے سروکار ہے۔انتونیو سارا دن یہی سوچتا رہا کہ نہ جانے امارہ کی مرہم پٹی کی گئی ہوگی یا نہیں۔
دوسری جانب، امارہ کو سزا کے طور پر گھر سے باہر سونے کا حکم دیا گیا۔ بلا کی سردی تھی۔ مرہم پٹی نہ ہونے کے سبب سر پر خون جم گیا تھا۔ وہ دروازے کے کونے میں دبکی بیٹھی تھی۔ سردی کی شدت سے اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح ہوئی تو آقا نے دروازہ کھول کر انتہائی حقارت سے امارہ کو پاؤں سے چھوا تو اس کا بے جان جسم ایک جانب لڑھک گیا۔ رات میں کسی وقت اس کی روح پرواز کر گئی تھی۔ اس لڑکی سے کسی کو انسیت نہیں تھی۔ بڑی بے دردی سے اس کی لاش خلیج نیپلز کے سرد پانی میں پھینکوا دی گئی۔
فرشتوں نے کہا، ’’اے خدا! یہ قوم اس قدر متکبر ہے کہ اس نے معصوم لڑکی کی خبر لینے کی کوشش نہیں کی۔ تماشہ دیکھنے سب آئے مگر اس کی مدد کو کوئی نہیں آیا۔ اسے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے بہت سے لوگوں نے دیکھا مگر کسی نے ہاتھ پھیلا کر اسے سہارا نہیں دیا۔ اے خدا! کیا اس مظلوم لڑکی کو انصاف ملے گا؟‘‘
دوسری صبح انتونیو درد سے کراہ رہا تھا۔ والدہ نے چند دوائیں اور ناشتہ کی پلیٹ انتونیو کی میز کے قریب رکھی۔ محبت سے اسکے بال سہلائے اور صحت کا خیال رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے پومپئی کی جانب نکل گئی۔
انتونیو دوا کھاکر کھڑکی کے قریب لیٹ گیا۔ تبھی اس کی نظر کوہ ویسوویوس پر پڑی۔پہاڑ سے سیاہ بادلوں کے مرغولے اٹھ رہے تھے جو آسمان کی طرف جارہے تھے۔ لوگوں کو سمجھ نہیں رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ انتونیو کا سارا دن پریشانی میں گزرا ۔ شام میں جب ماموں اور والدہ پومپئی سے لوٹے تو اس نے کوہ ویسوویوس پر نظر آنے والے سیاہ بادلوں کے متعلق سوال کرلیا۔
’’وہ کچھ نہیں ہے۔ پہاڑ پر یقیناً تیز بارش ہورہی ہوگی اس لئے سیاہ بادل جمع ہیں۔ تم فکر مت کرو۔‘‘ ماموں نے بے پروائی سے جواب دیا۔
اگلے دن دوپہر کے ۱۲؍ بجے کے بعد پومپئی کے لوگ اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ بازاروں میں بھیڑ تھی۔ تبھی سیاہ ذرات پومپئی پر برسنے لگے۔ جب لوگوں نے ان کا منبع تلاش کرنے کیلئے نظریں دوڑائیں تو دیکھا کہ راکھ کوہ ویسوویوس سے آرہی ہے جہاں اب سیاہ بادلوں کے درمیان زرد اور نارنجی رنگ کے شعلے بھی نظر آرہے تھے۔دریں اثناء زمین لرزنے لگی۔ چوک پر ایستادہ رومی بادشاہ کا مجسمہ، پھولوں اور پھلوں کی دکانیں اور دودھ کے برتن الٹ گئے۔ زمین میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ پومپئی پر اچانک سناٹا چھا گیا۔ سبھی اپنے گھروں سے نکل آئے، جو نہیں نکلے وہ کھڑکیوں اور دروازوں سے پہاڑ کودیکھ رہے تھے۔
میسینم میں جب راکھ کے ذرات پہنچے تو انتونیو مضطرب ہوگیا۔ وہ وقت ضائع کئے بغیر امارہ کو لینے پومپئی کی طرف روانہ ہوگیا۔ ابھی کشتی پومپئی سے کچھ فاصلے ہی پر تھی کہ خلیج میں طغیانی آگئی۔ کشتیاں ڈولنے لگیں۔ ملاح چیخنے لگے۔ سمندر کی اونچی لہروں میں کشتیاں غائب ہوگئیں۔ طاقتور لہروں کی آواز میں لوگوں کی چیخنے چلانے کی آوازیں دب گئیں۔ انتونیو کی کشتی پومپئی کی بندرگاہ سے چند میل کے فاصلے پر تھی۔ جب انتونیو کو احساس ہوا کہ اس کی کشتی بھی پلٹنے والی ہے تو اس نے پانی میں چھلانگ لگادی اور بمشکل تیرتا ہوا بندرگاہ تک پہنچا۔ پومپئی میں قیامت آئی ہوئی تھی۔ راکھ اتنی زیادہ تھی کہ اس نے سورج کی کرنوں کو چھپا لیا تھا۔ آسمان بالکل سرخ ہوچکا تھا۔ پہاڑ سے بڑے بڑے ملبے اُڑ کر آتےاور پومپئی پر گرتے۔ ہر طرف ناگوار قسم کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ یہ کوئی زہریلی گیس تھی جو پہاڑ سے آرہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ پومپئی پر بیک وقت راکھ، آتشی مادہ اور گیس چھوڑ دی گئی ہو۔ آتشی مادہ جس پر بھی گرتا ، اس چیز کو جلا کر راکھ کردیتا۔ ہر شخص اپنی جان بچانے کیلئے دوڑ رہا تھا۔ انتونیو لوگوں سے بچتا بچاتا امارہ کے گھر کی طرف بھاگا۔ دراصل ویسوویوس میں صدیوں سے سویا آتش فشاں اچانک فعال ہوگیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ خطرناک ہوتا جارہا تھا۔ جب لوگوں کو احساس ہوا کہ وہ اس سے نہیں بچ سکیں گے تو انہوں نے اپنے مکانوں اور دکانوں کی جانب دوڑ لگادی۔ تبھی پہاڑ سے آتشی سیال تیزی سے بہہ کر نیچے آنے لگا۔ جس طرح پتیلی سے دودھ ابل کر چاروں طرف پھیلنے لگتا ہے ٹھیک اسی طرح ویسویوس سے آتشی مادہ تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس سے زہریلی گیس نکل رہی تھی، آتشی ملبہ اور چٹانیں اُڑ کر پومپئی پر پڑ رہی تھی۔ ان کی زد میں جو آتا، وہیں دَم توڑ دیتا۔

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: عظیم فنکار

 انتونیو کی والدہ اور ماموں بھی پومپئی میں تھے مگر اسے امارہ کی فکر تھی۔ وہ جب امارہ کے گھر کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ پورا مکان ایک بڑے آتشی ملبے تلے دبا ہے اور اس پر چٹانیں برس رہی ہیں۔ اندر سے چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ انتونیو اندر جانا چاہتا تھا کہ ایک بڑا ملبہ اڑتا ہوا آیا اور دروازے کے سامنے گرگیا۔ اب اندر جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ انتونیو کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اسے یقین ہوگیا کہ امارہ کو بچانا ناممکن ہے لہٰذا وہ آنسو پونچھتا ہوا تیزی سے بندرگاہ کی جانب بھاگا لیکن پومپئی سے نکلنا ناممکن تھا۔ وہ مایوسی کے عالم میں بندرگاہ کے قریب کھڑا ہوگیا۔
لوگوں کی آوازیں قدرتی آفت میں دم توڑ رہی تھیں۔ اٹلی کی شان اور رومی سلطنت کی جان کہلانے والے شہر پر خدا نے آتش فشاں کی شکل میں قہر نازل کیا تھا۔ آتش فشاں نےاپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو نیست و نابود کردیا۔ لوگ مٹی کا ڈھیر بن گئے۔ جب آتشی سیال بندرگاہ کی طرف آیا تو انتونیو نے اس سے بچنے کیلئے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔
شام ۷؍ بجے تک یہ عالیشان شہر آتش فشاں کے نیچے دب چکا تھا۔ کوئی ذی روح زندہ نہیں بچا تھا۔ لوگوں کے شور و شرابے اور روشنیوں میں ڈوبا رہنے والا یہ شہر اچانک خاموش اور اندھیرے میں غائب ہوگیا۔
اگلی صبح میسینم اور آس پاس کے علاقوں سے لوگ آئے تو انہیں ہر طرف لاشیں نظر آئیں۔ سطح سمندر پر پھیلی سیکڑوں لاشوں میں انتونیو اور امارہ کی لاشیں ایک دوسرے سے قریب قریب تیر رہی تھیں۔
نوٹ: ۷۹ء میں آتش فشاں پھٹنے کے سبب پومپئی اس کے نیچے دب گیا تھا۔ ۱۷۴۸ء میں ماہرین آثار قدیمہ نے اس شہر کو دریافت کیا تھا۔ یہ علاقہ اب کھنڈر ہے جہاں سالانہ لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ یہاں اب بھی پتھر بن چکی انسانی لاشیں موجود ہیں۔ خدا نے اسے عبرت کا مقام بنادیا ہے۔ علاقے میں آج بھی زمانہ قدیم کے نوادرات دریافت ہورہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK