• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: لارا

Updated: January 05, 2024, 4:49 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

برطانوی ادیب ہیکٹر ہیو منرو (عرف: ساکی) کی شہرہ آفاق کہانی ’’لارا‘‘ Laura کا اُردو ترجمہ

Photo: INN
تصویر : آئی این این

’’تُم نہیں مررہی ہو۔ تم مجھے صرف خوفزدہ کرنے کیلئے ایسا کہہ رہی ہو، ہے نا؟‘‘ امانڈا نے بے یقینی کے عالم میں سوال کیا۔
’’ڈاکٹر نے کہا ہے کہ منگل میرا آخری دن ہوگا۔‘‘ لارا نے کمزور آواز میں جواب دیا۔ 
’’اور آج سنیچر ہے، یہ سنگین ہے!‘‘امانڈا کے لہجے میں گھبراہٹ تھی۔ 
’’مَیں نہیں جانتی کہ یہ سنگین ہے یا نہیں البتہ آج سنیچر ضرور ہے۔‘‘ لارا نے کہا۔
’’موت ہمیشہ سنگین ہوتی ہے۔‘‘ امانڈا نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔
’’مَیں نے یہ نہیں کہا کہ مَیں مرنے والی ہوں ۔ مَیں غالباً ’’لارا‘‘ نہ رہوں۔ انسانی جسم چھوڑ دوں مگر کچھ اور بن کر دنیا ہی میں رہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید کسی جانور کے روپ میں زندہ رہوں۔ جب انسان زندگی کی قیمت نہیں سمجھتا اور انسانیت کیلئے کوئی کام کئے بغیر ہی مرجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ وہ اگلا جنم کسی جانور یا انسان سے کم تر مخلوق کے روپ میں لیتا ہے۔ اور مجھے معلوم ہے کہ مجھے انسان کے روپ میں کم ہی لوگ پسند کرتے ہیں ۔ مَیں بدتمیز ہوں اور لوگوں سے انتقام لینے والا مزاج رکھتی ہوں ۔ میری زندگی کے کئی واقعات ان باتوں کی ضمانت دے سکتے ہیں۔‘‘ 
’’ایسا نہیں ہے، لارا۔‘‘ امانڈا نے عجلت میں کہا۔ وہ شاید تسلی دینا چاہتی تھی۔
’’ایسا ہی ہے۔ تم ایک شادی شدہ عورت ہو۔ ایگبرٹ ایک اچھا شوہر ہے لیکن میرے بارے میں تمہیں ایگبرٹ بھی بتاسکتا ہے کہ مَیں کتنی بد اخلاق ہوں ۔ تم نے ایک اچھی زندگی گزاری ہے اسلئے تمہیں مجھ میں خامیاں نظر نہیں آتیں کیونکہ تمہارا دل اچھا ہے۔ لیکن مَیں ایسی بالکل بھی نہیں ہوں۔ ‘‘
’’ایگبرٹ مجھے کیوں بتائے گا؟‘‘ امانڈا نے سوال داغ دیا۔
’’اوہ! غلطی میری تھی۔ ایک دن مَیں اپنے کتوں کو ٹہلانے کیلئے اس کے کھیتوں کی طرف جانکلی۔ کتے کھیت کے پاس دانہ چگتی مرغیوں اور ان کے چوزوں کا پیچھا کرنے لگے۔ عجیب قسم کی ہنگامہ آرائی ہونے لگی۔ پرندے گھونسلوں سے اُڑ گئے۔ جانور یہاں وہاں بھاگنے لگے۔ تم جانتی ہو کہ ایگبرٹ اپنے جانوروں ، کھیتوں اور باغات کا کتنا خیال رکھتا ہے مگر اس ہنگامے میں اس کا کافی نقصان ہوگیا۔ مَیں نے اس سے معذرت نہیں کی مگر ایگبرٹ نے کہا کہ کوئی بات نہیں ۔ اس میں تمہاری غلطی نہیں ہے۔ اس کا اطمینان دیکھ کر مجھے حسد ہوا اور اگلے دن مَیں نے کتوں کو اس کی مرغیوں کے ڈربوں میں چھوڑ دیا۔‘‘ 
’’تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟ ہمیں لگا کہ مرغیاں کسی حادثے کا شکار ہوئی ہیں ۔‘‘ امانڈا نے حیرت سے کہا۔
’’تم نے دیکھا!‘‘ لارا نے بات جاری رکھی، ’’مَیں یقینی طور پر کہہ سکتی ہوں کہ اگلے جنم میں مَیں کوئی چھوٹا موٹا جانور بنوں گی۔ تاہم، مَیں نے سوچ لیا ہے کہ مَیں ایک اچھا جانور بن کر رہوں گی۔ انسانوں سے محبت کروں گی۔ شاید خدا مجھے ’’اود بلاؤ‘‘ بنا دے۔‘‘
’’مَیں تمہیں ایک اود بلاؤ کے طور پر تصور نہیں کر سکتی۔‘‘ امانڈا نے کہا۔
’’مَیں ایک فرشتہ بھی نہیں بن سکتی۔ چاہے تم میرے بارے میں کتنی ہی خوش گمانیاں پال لو۔‘‘ لارا نے کہا۔
امانڈا اس کے طنز پر خاموش رہی۔ اس کے پاس بولنے کیلئے کچھ نہیں تھا۔
 ’’مجھے لگتا ہے کہ ایک اود بلاؤ کی زندگی زیادہ خوشگوار ہو گی۔‘‘ لارا نے اپنی بات جاری رکھی، ’’پورا سال کھانے کیلئے عمدہ مچھلیاں ، سرد اور گرم چٹانوں پر آرام، لوگوں کو دیکھ کر خوش ہونا اور اپنے کرتب سے ان کے دل جیتنا، نیلے سمندر کی لہروں سے کھیلنا۔ یہ سب کتنا خوشگوار ہے۔‘‘ 
’’اود بلاؤ کے شکار کے متعلق سوچو۔‘‘ امانڈا نے مداخلت کی، ’’کتنا خوفناک ہے کہ کوئی بڑا جانور یا انسان تمہارا شکار کرلے۔ موت کہاں سے آجائے، تمہیں نہیں معلوم۔‘‘ 
’’محلے والے مجھے اس حالت میں جس طرح دیکھ کر خوش ہورہے ہیں ، اس سے بہتر ہے کہ کوئی میرا شکار ہی کرلے۔ اگر ایک اود بلاؤ کے روپ میں مَیں نے اچھی زندگی گزاری تو شاید اس کے بعد والے جنم میں خدا مجھے کسی انسان کے روپ میں دنیا میں بھیج دے۔ غالباً بھورے بال والے خوبصورت مصری لڑکے کی شکل میں ۔‘‘
’’کاش تم ایسے وقت میں تو سنجیدہ ہوتی۔ تم فضول باتیں کررہی ہو۔‘‘ امانڈا نے سرد آہ بھری، ’’اور اگر تمہاری زندگی صرف منگل تک ہے تو تمہیں واقعی سنجیدہ ہوجانا چاہئے۔‘‘
لارا کا انتقال پیر ہی کو ہوگیا۔

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا ترجمہ: معمر پری زاد (گیبرئیل گارسیا مارکیز)

’’یہ بہت خوفناک اور پریشان کن ہے،‘‘ امانڈا نے اپنے انکل سر للورتھ کوائن سے شکایت کی۔ ’’مَیں نے بہت سارے لوگوں سے کہا ہے کہ میرے ساتھ لارا کے گھر چلیں لیکن کوئی بھی ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے۔ ‘‘
’’لارا نے بے فکری کی زندگی گزاری ہے۔ اسے فرق نہیں پڑے گا کہ اس کے جنازے پر کون آیا تھا اور کون نہیں ۔ ‘‘ سر للورتھ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
امانڈا نے کہا، ’’وہ پاگلوں جیسی باتیں کرتی تھیں ۔ کیا اس کے خاندان میں کوئی پاگل بھی تھا؟‘‘
’’پاگل؟ نہیں، میں نے کبھی کسی کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں سنی۔ اس کے والد دوسرے شہر میں رہتے ہیں مگر وہ ایک سمجھدار شخص ہیں۔‘‘
امانڈا نے کہا، ’’لارا کا خیال تھا کہ وہ ایک اود بلاؤ کے طور پر دوبارہ جنم لینے والی ہے۔‘‘
سر للورتھ کہنے لگے، ’’ہندوستان میں بھی دوبارہ جنم لینے کا خیال عام ہے۔ غالباً لارا بھی ایسی ہی سوچ رکھتی ہو۔‘‘
’’آپ کو لگتا ہے کہ وہ واقعی کسی جانور کی شکل میں جنم لے گی؟‘‘ امانڈا نے پوچھا۔
امانڈا کا تعلق ان لوگوں میں سے تھا جو اپنے اردگرد کے لوگوں کے نقطہ نظر سے اپنی رائے کو آسانی سے تبدیل کرلیتے ہیں ۔
اسی وقت ایگبرٹ ناشتے کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ کافی غمگین نظر آرہا تھا۔
’’میرے اعلیٰ نسل کے چار مرغ مارے گئے ہیں ۔‘‘ اس نے کہا، ’’وہ چار جو جمعہ کو شو میں جانے والے تھے۔ ان میں سے ایک کو گھسیٹ کر تختے کے نیچے لیجا کر کھایا گیا ہے۔ مَیں انہیں اپنے بچوں کی طرح رکھتا تھا۔ ان کے ڈربے کو کسی عالیشان محل کی طرح آرام دہ بنایا تھا۔ میرے بہترین مرغ مارے گئے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کسی نے جان بوجھ کر صرف ان چاروں ہی کو نشانہ بنایا ہے۔‘‘ 
’’کیا کسی لومڑی نے حملہ کیا ہے؟‘‘ امانڈا کے لہجے میں تشویش تھی۔
سر للورتھ نے کہا، ’’مجھے لگتا ہے بلی ہوگی، یا بلی جیسا کوئی بڑا جانور!‘‘
’’نہیں !‘‘ ایگبرٹ کہنے لگا، ’’ہر جگہ جالی والے پاؤں کے نشانات تھے، اور ہم باغ کے نچلے حصے میں ندی تک گئے؛ ظاہر ہے وہ ایک اود بلاؤ ہے جس نے میرے مرغ کو نقصان پہنچایا ہے۔‘‘ 
امانڈا نے فوراً سر للورتھ کی طرف دیکھا۔
ایگبرٹ اپنے پولٹری فارم کے دفاعی نظام کو مزید مضبوط بنانے کیلئے باہر چلا گیا۔
’’اسے کم از کم اپنے جنازے تک تو رُک جانا چاہئے تھا۔‘‘ امانڈا کے لہجے میں غصہ تھا۔
سر للورتھ خاموش رہے۔ 
مردہ خانے والوں نے اب تک لارا کی لاش نہیں دی تھی۔
دوسرے دن معلوم ہوا کہ ایگبرٹ کے اعلیٰ نسل والے مزید مرغوں کا شکار کیا گیا ہے اور نچلے باغ میں اسٹرابیری کی فصل کو بھی نقصان پہنچا یا گیا ہے۔
ایگبرٹ نے وحشیانہ انداز میں کہا، ’’مَیں جلد از جلد ایک ایسے شخص کا انتظام کروں گا جو اس اودبلاؤ کا شکار کرسکے۔‘‘
’’فی الحال ایسا مت کرو۔ ‘‘ امانڈا نے کہا، ’’ جنازہ جانے کے بعد شکاری رکھ لیں گے اور اود بلاؤ تو ایک پیارا جانور ہے، وہ یقیناً بھوکا ہوگا اس لئے اس طرف آرہا ہے۔‘‘
’’شکاری رکھنا ضروری ہے۔‘‘ ایگبرٹ نے کہا، ’’ایک بار اود بلاؤ شکار کرلے تو وہ رُکتا نہیں ، پے در پے حملے کرتا ہے۔‘‘
’’شاید یہ کہیں اور چلا جائے۔ اب یہاں مزید مرغ نہیں ہیں ۔‘‘ امانڈا نے مشورہ دیا۔
’’تمہاری بات سن کر کسی کو بھی یہی لگے گا کہ تم ایک وحشی جانور کو بچانا چاہتی ہو۔‘‘  ایگبرٹ نے غصے سے کہا۔
’’ندی کی سطح آب کم ہوگئی ہے۔‘‘ امانڈا نے اعتراض کیا، ’’کسی جانور کا شکار کرنا مشکل ہی لگتا ہے۔ اب وہ یہاں پناہ نہیں لے سکتا۔‘‘
’’مَیں جلد سے جلد اس جانور کو مارنا چاہتا ہوں ۔‘‘ ایگبرٹ نے غصے سے کہا اور پاؤں پٹختا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
امانڈا کی مخالفت اس وقت کمزور پڑگئی جب اگلے اتوار کو ایک اود بلاؤ گھر میں داخل ہوا اور اس نے کچن میں رکھی ایک بڑی اور عمدہ مچھلی پر حملہ کردیا۔ وہ اسے گھسیٹ کر ایگبرٹ کے اسٹوڈیو میں لے گیا اور اس مچھلی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔ اس نے سارا ایرانی قالین خراب کردیا۔
ایگبرٹ نے غصے سے کہا، ’’ہم جلد ہی اس اود بلاؤ کا شکار کرینگے اور ٹھیک اسی طرح اسے ٹکڑے ٹکڑے کریں گے جیسے اس نے میرے مرغوں اور مچھلیوں کا کیا ہے۔‘‘
امانڈا یہ سوچنے لگی تھی کہ وہ اس اود بلاؤ کو جانتی ہے۔ یہ صرف امکان نہیں ہوسکتا۔
آج شکاری اود بلاؤ کا شکار کرنے آئے تھے۔ امانڈا ندی کے کنارے چہل قدمی کر رہی تھی۔ تبھی پڑوس کی دو لڑکیاں دوڑتی ہوئی آئیں اور کہنے لگیں ، ’’مادام! آپ کے باغ میں واقع تالاب سے شکاریوں نے اودبلاؤ کو پکڑ لیا ہے۔‘‘
’’کیا انہوں نے اسے ماردیا؟‘‘ امانڈا نے جلدی سے پوچھا۔
’’وہ ایک خوبصورت مادہ اود بلاؤ تھی۔ آپ کے شوہر نے انتہائی غصے میں اسے تیز چاقو سے کاٹ دیا۔ وہ آپ کے شوہر کے ہاتھوں میں تڑپ رہی تھی۔ بیچارہ جانور۔ مجھے اس پر بہت افسوس ہوا، جب اسے مارا گیا تو اس کی آنکھیں بالکل انسانوں جیسی تھیں ۔ اگر اس کے بارے میں بتاؤں گی تو آپ مجھے احمق کہیں گی۔ آپ کو بتاؤں اس کی آنکھوں نے مجھے کس کی یاد دلائی؟ کیا ہوا.....؟‘‘
امانڈا کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا تھا۔ وہ کافی دنوں تک بستر پر پڑی رہی۔ جب وہ کسی حد تک صحت یاب ہو چکی تو ایگبرٹ اسے سیاحت کی غرض سے وادیٔ نیل لے گیا۔ ماحول اور مناظر کی تبدیلی نے امانڈا کی ذہنی اور جسمانی صحت پر مثبت اثرات قائم کئے۔
اب امانڈا کسی حد تک پرسکون ہوگئی تھی۔ ایک شام قاہرہ (مصر کا ایک شہر) میں واقع ہوٹل کے ان کے کمرے میں عجیب واقعہ پیش آیا۔ ایگبرٹ کے تمام صاف ملبوسات بیت الخلاء میں ملے جن پر کیچڑ اور غلاظت لگی ہوئی تھی۔ ایگبرٹ پریشان تھا۔ اس نے ہوٹل کے اسٹاف کو بتایا تو انہوں نے بتایا کہ شاید کسی جانور نے ایسا کیا ہے۔ آج صبح ہوٹل میں ایک لڑکا آیا تھا جس کے پاس اود بلاؤ تھا، یہ جانور کچھ دیر کیلئے غائب ہوگیا تھا، شاید اس طرف نکل آیا ہو اور آپ کے تمام ملبوسات خراب کردیئے ہوں ۔
جب ایگبرٹ نے یہ بات امانڈا کو بتائی تو وہ اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ سکی، اور پوچھا کہ کیا ماجرا ہے۔ ’’بھورے بالوں والے ایک خوبصورت مصری لڑکے نے اود بلاؤ پالا ہے، اور اس جانور نے میرے تمام ملبوسات خراب کر دیئے ہیں ۔‘‘ ایگبرٹ نے غصے سے کہا۔
اور اب امانڈا شدید بیمار ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK