چھٹیاں کیسے گزاریں؟ ان بچوں سے سیکھئے۔
EPAPER
Updated: August 17, 2024, 1:12 PM IST | Ismail Sulaiman | Mumbai
چھٹیاں کیسے گزاریں؟ ان بچوں سے سیکھئے۔
آج گرمی کی تعطیلات کے بعد اسکول کا پہلا دن تھا۔ پت جھڑ کی وجہ سے اسکول کے احاطے میں ہر طرف سوکھے پتے بکھرے پڑے تھے۔ صاف صفائی کے بعد پیش درس ہوا۔
اسکول میں نئے داخل ہونے والے طلبہ کا پھول دے کر استقبال کیا گیا۔ جشن ِ داخلہ منانے کے بعد نئے طلبہ کو پرانے طلبہ نے اسکول کی سیر کرائی۔ جس میں تمام جماعتوں کے کمرے، سائنس لیب، اسکول لائبریری اور کمپیوٹر لیب شامل تھیں۔ اس کے بعد باقاعدہ کلاس کا آغاز ہوا۔ اسکول میں جماعت نہم کے طلبہ بڑی بے صبری سے اپنے نئے کلاس ٹیچر کا انتظار کررہےتھے۔ اسکول میں یہ نظم تھا کہ ہر سال نئی کلاس کو نئے کلاس ٹیچر دیئے جاتے۔ یعنی تعلیمی سال کے پہلے دن طلبہ نئے يو نیفارم، نئی جماعت، نئے جوتے، نئی کتب، اور نئے کلاس ٹیچر کے ساتھ پڑھائی شروع کرتے۔ یعنی سب کچھ نیا نیا۔
جیسے ہی مزمل سر کمرہ جماعت میں داخل ہوئے طلباء و طالبات نے تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔ اسکول میں مزمل سر طلبہ کے پسندیدہ استاد تھے۔ موصوف کے عمدہ اخلاق، پاٹ دار آواز، محنت و شفقت سے پُر تدریس، ہنس مکھ چہرہ و طلبہ میں گھل مل جانے والی فطرت کی وجہ سے وہ کافی مقبول تھے۔ مزمل سر نے اپنا تعارف دیا۔ پھر باری باری سبھی طلبہ سے اپنا اپناتعارف پیش کرنے کو کہا۔ پھر حاضری لی اور سبھی طلبہ کو گرمی کی چھٹیوں میں دیا گیا گھر کام چیک کیا۔ گھر کام کر کے لانے والے طلبہ کی خوب حوصلہ افزائی کی جن کے کام میں کچھ کمی اور کوتاہی رہ گئی تھی انہیں مناسب رہنمائی و نصیحت کی پھر طلبہ سے باتیں کرنے لگے۔
یہ بھی پڑھئے:ضد تھی کہ روزہ رکھیں گے
’’پیارے بچو! بتاؤ تم نے گرمی کی تعطیلات کس طرح گزاری؟‘‘
جمیل بولا، ’’سر سمیر کی لمبائی گرمی کی چھٹیوں کے بعد کچھ زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔‘‘ مزمل سر بولے، ’’بتاؤ سمیر کیا یہ بات سچ ہے؟‘‘
سمیر بولا، ’’سر! سبھی لوگ تو یہی بول رہے ہیں کہ میرا قد بڑھ گیا ہے۔ راز کی بات یہ ہے کہ امسال گرمی کی چھٹیوں میں ہم کچھ دوستوں نے فٹ بال کی کلاس جوائن کی تھی۔ ہم روزانہ صبح اور شام اپنے ٹیچر کی نگرانی میں مشق کرتے رہیں اور اس طرح مجھے فٹ بال میں مہارت حاصل ہوئی اور دلچسپی بھی پیدا ہو گئی ہے۔ میں اس مشق کو جاری رکھوں گا۔ اسکولی سالانہ کھیلوں کے مقابلے میں ان شاءاللہ اسکول کی فٹ بال ٹیم کا حصہ بنوں گا۔‘‘ مزمل سر سمیر کے اس جذبے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بولے، ’’شاباش! تم نے گرمی کی چھٹیوں کا بہترین استعمال کیا ہے۔ ایک نئی چیز سیکھی۔‘‘
تبھی فرزانہ بولی، ’’سر! ہمارے شہر سے شائع ہونے والے روزنامہ کے ’رنگ بھرو اور انعام پاؤ‘ مقابلے میں مجھے تیسرا انعام ملا۔ ہمارے محلے میں کچھ طلبہ روزانہ گروپ میں بیٹھ کر اس مقابلے کی مشق کرتے تھے۔ بزرگوں کی نگرانی میں ہم روزانہ ڈرائنگ میں رنگ بھرتے۔ محلے کے ذمہ داروں کی نگرانی میں مشق کرنے سے میرے سبھی ساتھیوں کو ڈرائنگ سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ اس سال میں حکومت کی طرف سے ہونے والے ڈرائنگ کے امتحان میں شرکت کروں گی اور اس میں کامیابی بھی حاصل کروں گی، ان شاء اللہ۔ اس کی تیاری میں نے ابھی سے شروع کر دی ہے۔‘‘ ’’شاباش! تمہارا کارنامہ بھی بہت اچھا ہے۔ جاوید تم نے اپنی چھٹیوں میں کیا کیا؟‘‘ مزمل سر جاوید سے مخاطب ہوئے۔
جاوید بولا، ’’سر! اس سال ہمارے شہر میں بہت زیادہ گرمی تھی اس لئے ہماری گلی کے کچھ بچوں نے گروپ بنا کر کچھ رقم اکٹھا کی اور بازار سے لیموں اور شربت کے مختلف رنگ اور ذائقے دار مسالے خریدے اور ان سے مختلف ذائقے والے شربت بنا کر اپنے اپنے گھرو ں کے فریج میں ٹھنڈا کیا۔ دوسرے دن بازار سے برف کی لادی لا کر ان ٹھنڈی بوتلوں کو ایک پلاسٹک کے باکس میں رکھ کر نکڑ پر فروخت کرتے رہیں۔ اس طرح ہمارے سبھی ساتھیوں نے خوب محنت کی اور چھ ہزار روپے کا منافع حاصل کیا۔ کچھ ضرورتمند افراد کو ہم نے مفت شربت بھی دیا۔‘‘
مزمل سر بولے، ’’واہ !واہ! شاباش بہت خوب، بہت خوب پیارے بچو! آپ کو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہوگی کہ پیسے کمانے کے لئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ آپ لوگوں کو اپنے والدین کی محنت کا اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا کہ وہ کس طرح آپ کی پرورش کے لئے دن رات محنت و مشقت کرتے ہیں۔ اب آپ بھی ان کے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے پڑھائی پر پوری توجہ دوں۔ اچھا یہ بتاؤ کہ منافع کی اِس رقم کو کس طرح خرچ کرو گے؟‘‘
جاوید بولا، ’’سر! ہم نے وہ منافع ہمارے پڑوسی صابر دادا جان کے حوالے کر دیا ہے۔ اب دادا جان اپنے سینئر سٹیزن گروپ کی مدد سے ہمارے لئے محلے میں ایک نکڑ لائبریری کھولنے والے ہیں۔ باری باری دادا جان کے گروپ کا ایک رکن روزانہ ہماری رہنمائی کیلئے لائبریری تشریف لائے گا۔ ان کی نگرانی میں ہم روزانہ لائبریری سے کتابوں کا لین دین کریں گے اور دادا جان کے گروپ کے ساتھی سے ان کے تجربات سنیں گے، ان سے نصیحتیں حاصل کریں گے اور ان کی نصیحتوں پر عمل بھی کریں گے۔‘‘
مزمل سر کا چہرہ یہ بات سن کر کھل اُٹھا۔ انہوں نے جاوید کے کام کی جماعت میں خوب سرہانہ کی۔ ’’اب تم بتاؤ جمیل میاں تم نے کس طرح اپنی چھٹیاں گزاریں؟‘‘
یہ بھی پڑھئے:چچا چھکن نے کرسی بنائی
جمیل بولا، ’’سر! امسال میں اپنے آبائی وطن گیا تھا جہاں میرے انکل کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ملنے والی زرعی امداد کی رقم سے انکل نے ہمارے آبائی کھیت میں ایک چھوٹا سا مصنوعی تالاب بنایا ہے۔ میں نے اپنے انکل کی نگرانی میں ٹریکٹر کے ٹیوب کی مدد سے تیرنا سیکھا اور مہینہ بھر اس کی خوب مشق کی اب میں بہت اچھی طرح تیرا کی کر سکتا ہوں۔ میں جیسے ہی چھٹیوں کے بعد شہر لوٹا تو میں نے تیراکی کلاس میں اپنا نام درج کرا دیا ہے۔ میرے دو دوستوں کو بھی تیراکی کے فوائد بتا کر تیراکی سیکھنے پر آمادہ کر لیا ہے۔ اب ہم تینوں دوست روزانہ اپنے شہر کے تالاب میں تیراکی سیکھنے جاتے ہیں۔ میری خوب مشق ہو چکی اس لئے میں امسال تیرا کی مقابلوں میں بھی حصہ لوں گا۔‘‘
شبانہ کو خاموش دیکھ کر مزمل سر نے پوچھا، ’’بتاؤ گڑیا تم نے اپنی چھٹیاں کس طرح گزاریں؟‘‘ شبانہ بولی، ’’سر! ہمارے گھر چھٹیوں کے آخری ہفتے میری کزن کی شادی تھی۔ میں نے گھر کی صاف صفائی میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹایا اور کچن کے چھوٹے موٹے کام سیکھیں اور رات میں دادی جان سے مزیدار کہانیاں بھی سنیں اور دادی جان کو بھی میں نے ایک نئی چیزسکھائی۔‘‘
سر نہایت شفقت سے گویا ہوئے، ’’اچھا!تو آپ اپنی ہی دادی کی استانی بن گئی ہو، ہمیں بھی تو بتاؤ بھئی کہ وہ کون سا ہنر ہے جو تم نے اپنی دادی جان کو سيکھایا ہے؟‘‘
شبانہ بولی، ’’سر! دادی جان کو میں نے اسمارٹ فون چلانا سکھایا۔ وہاٹس ایپ پر میسیج بھیجنا اور آیا ہوا میسیج پڑھنا، فون کو لاک و اَن لاک کرنا وغیرہ سکھایا۔‘‘
’’بھئی بہت اچھے یعنی آپ نے اپنی دادی جان کو ’اسمارٹ دادی‘ بنا دیا ہے۔ بہت خوب!‘‘
اب سر تمام طلبہ سے مخاطب ہوئے، ’’پیارے بچو! آپ سال بھر پڑھائی کرتے ہو۔ اسکول آتے ہو۔ اسکول کی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہو۔ اس کے بعد آپ کو گرمی کی طویل چھٹیاں ہوتی ہیں اور یہ چھٹیاں اسی طریقے سے نت نئےہنر سیکھنے کے لئے خرچ کرنا چاہئے۔ اسی طرح تقریر کرنا، مضمون لکھنا، عربی زبان، مراٹھی، ہندی اور انگریزی زبان بولنا سیکھئے۔ تاریخ کا مطالعہ کیجئے۔ کسی سیلانی مقام کی تعلیمی سیر کیجئے۔ خوشخطی سیکھئے۔ نئے ہنر سیکھ کر نئے تعلیمی سال کا استقبال کیجئے۔ تو چلئے اب ہم اپنے نئے تعلیمی سال کی پڑھائی اس عزم کے ساتھ شروع کرتے ہیں کہ آئندہ سال کی تعطیلات میں ہم پھر ایک نیا ہنر سیکھیں گے۔ پھر تمام طلبہ نئے عزم کے ساتھ پڑھائی میں مشغول ہو گئے!