ہمدردی اور نیکی کرنے سے ہمیشہ بھلا ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: August 24, 2024, 2:02 PM IST | Shahana Mumtaz | Mumbai
ہمدردی اور نیکی کرنے سے ہمیشہ بھلا ہوتا ہے۔
کسی پیڑ پر دو چڑیاں رہتی تھیں، اس میں ایک کا نام پنکی اور دوسری کا نام چنکی تھا۔ دونوں آپس میں بڑے میل سے رہتیں۔ کسی بھی خطرے سے نپٹنے کے لئے وہ دونوں ہر وقت تیار رہتی تھیں اور ایک دوسرے کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتی تھی۔ پیڑ پر ہی ان کا ایک خوبصورت سا گھونسلا تھا جس میں دنوں ایک ساتھ رہتی تھیں۔
ایک دن شام کو جب دونوں چڑیاں دانہ چگ کر آئیں تو پنکی کچھ تھک سی گئی تھی۔ ’’کیوں پنکی، آج تمہاری طبیعت کیسی ہے؟‘‘ چنکی نے بڑی محبت سے معلوم کیا۔
’’کیا کہوں چنکی! آج طبیعت کچھ ناساز سی لگ رہی ہے۔‘‘
’’اصل میں تم کو آج باہر جانا ہی نہیں چاہئے تھا، گھونسلے ہی میں آرام کرنا تھا۔‘‘ چنکی نے کہا۔
’’ نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ صبح تک ٹھیک ہوجاؤں گی۔‘‘ پنکی نے اس کی پریشانی دیکھ کر تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’پھر بھی تم کو دوا لینی چاہئے۔ ٹھہرو میں ابھی بندر ماما سے کوئی دوا لے کر آتی ہوں۔‘‘چنکی نے اڑنے کے ارادے سے اپنے پنکھ پھڑپھڑاتے ہوئے کہا۔ پنکی خاموش ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد چنکی اپنی چونچ میں کوئی دوا لے کر آئی تو پنکی سو رہی تھی۔ اس نے اس کو نیند سے جگانا مناسب نہ سمجھا اور گھونسلے کی صفائی میں جٹ گئی۔
جب پنکی سو کر اٹھی تو چنکی نے اسے دوا دی ۔ دوا کھاتے ہی اس کی طبیعت ٹھیک ہوگئی۔
چنکی نے کہا ’’ پنکی ، ہم کو روز اتنی دور دانہ چگنے جانا پڑتا ہے ، کیوں نہ ہم یہیں خالی زمین پر اپنا ایک چھوٹا سا کھیت اگا لیں؟‘‘
پنکی کو اس کی تجویز پسند آئی۔ دونوں بیج لے کر آئیں اور وہیں پیڑ کے نیچے زمین پر دانے بکھرا دیئے۔ اب کھیت میں پانی دینے کا سوال تھا۔ پنکی نے اس کا حل بھی تلاش کرلیا ۔ وہ ہاتھی کے پاس گئی۔ ’’ہاتھی جی ! ہاتھی جی ! ہمیں آپ سے ایک ضروری کام آ پڑا ہے ، کیا آپ ہماری مدد کریں گے؟‘‘
’’کیوں نہیں بی پنکی! کہو میں تمہاری کیا خدمت کرسکتا ہوں۔‘‘ ہاتھی نے بڑے خلوص سے کہا۔
’’ہم نے اور پنکی نے مل کر ایک کھیت بویا ہے، اس میں پانی دینا ہے۔ کیا تم روزانہ ہمارے کھیتوں میں پانی دے دیا کروگے؟‘‘
’’ہاں ! ہاں، یہ کتنا بڑا کام ہے۔‘‘ ہاتھی نے خوشی سے کہا۔ اب ہاتھی روز اپنی سونڈ میں پانی بھر کر لاتا اور پنکی چنکی کے کھیت پر چھڑکاؤ کردیتا۔ کھیت گیہوں کا تھا اور اب اس میں نئی نئی کونپلیں نکلنی شروع ہوگئی تھیں۔ اور پھر ایک دن جب ان کا کھیت تیار ہوگیا ، اس میں گیہوں کی بالیاں آنے لگیں تو پنکی اور چنکی کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ لیکن دوسرے دن ان کو یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ کسی چرواہے کا لڑکا ان کے کھیت میں اپنی بکری کو لئے گھوم رہا تھا۔ بکریاں بڑے شوق سے ان کا کھیت چر رہی تھیں ۔ وہ بطور احتجاج کھیت کے اوپر ہی چیں چیں کرتی رہیں لیکن اس لڑکے پر کوئی اثر نہ ہوا۔دونوں اداس اداس سی اپنے گھونسلے میں بیٹھ کر کھیت کی اور اپنی محنت کی بربادی پر افسوس کرتی رہیں۔ دوسرے دن پھر وہی لڑکا اپنی بکریاں لے کر کھیت میں آیا تو اس کے ساتھ اس کی ننھی بہن بھی تھی۔ پنکی اڑ کر اس کے کندھے پر بیٹھ گئی۔
’’ننھی رانی !‘‘ اس نے چڑیا کو حیرت سے دیکھا ۔
’’ہاں ننھی رانی ، میں تم سے ہی کہہ رہی ہوں۔‘‘
’’کہو!‘‘
’’ہم نے کچھ دن پہلے ایک کھیت بویا تھا۔‘‘
’’کیا تم نے کھیت بویا؟‘‘ ننھی حیرت سے بولی۔
’’ہاں اور ہمارے کھیت کو پانی دینے ایک ہاتھی آتا ہے۔‘‘
’’ارے یہ تو اور بھی حیرت کی بات ہے۔‘‘ ننھی نے تالی بجاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ننھی رانی! اب جبکہ ہمارا کھیت پک کر تیار ہوا تو تمہارا بھائی اس پر بکریاں چرانے آتا ہے۔‘‘
’’چھی ! چھی! یہ تو بری بات ہے۔ میں بھیا کو منع کروں گی کہ وہ تمہارے کھیت میں بکریاں لے کر نہ آیا کریں۔‘‘
’’ننھی رانی ! تم بہت اچھی ہو۔‘‘
ننھی نے اپنے بھائی کو آواز دی ۔ ’’بھیا! سنو ، یہ ننھی چڑیا کیا کہتی ہے۔‘‘
’’کیا کہتی ہے؟‘‘ اس کے بھائی گلو نے کہا۔
’’یہ کھیت چڑیا کا ہے۔‘‘
’’پاگل! کہیں چڑیا بھی کھیت اگاتی ہیں ، یہ چڑیا جھوٹ بولتی ہے۔‘‘
’’نہیں میں سچ کہتی ہوں۔‘‘ پنکی نے کہا ۔
’’چل چل! کسی اور کو بے وقوف بنانا ۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ پھر اپنی بکریوں کو چرانے لگا۔
ننھی اس کو روکتی رہی لیکن اس کے بھائی نے اس کی پٹائی کرنی شروع کردی۔ پنکی کو یہ دیکھ کر اور بھی دکھ ہوا۔ وہ بکریاں چراتا رہا اور ننھی بیٹھی روتی رہی۔
دوسرے دن جب ہاتھی کھیت میں آیا تو کھیت کی اجڑی حالت دیکھ کر وہ پنکی اور چنکی کے قریب آیا جو اداس بیٹھی تھیں۔ ’’کیا ہوا؟ تم اتنی اداس کیوں ہو اور اس کھیت کا کس نے ناس مارا ہے؟‘‘
پنکی نے سارا حال ہاتھی کو بتایا ۔ ’’میں اس لڑکے کو ایسی سزا دوں گا کہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔‘‘ ہاتھی نے غصے سے کہا۔
اسی وقت ان کو سامنے سے ننھی آتی دکھائی دی ۔
’’دیکھو! دیکھو وہ سامنے اس ظالم لڑکے کی بہن آرہی ہے۔‘‘ پنکی نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’تو میں پہلے اس کی بہن کو ہی سزا دیتا ہوں ۔‘‘ ہاتھی نے غضبناک ہوکر کہا۔ ’’نہیں! یہ ننھی تو بہت اچھی ہے اس کو کچھ نہ کہو۔ کل اس نے ہماری ہی خاطر بھائی سے مار بھی کھائی تھی۔ ‘‘ چنکی نے ہاتھی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
ننھی قریب آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی۔
’’دیکھو چنکی اور پنکی ، میں تمہارے لئے کیا لائی ہوں۔‘‘
’’کیا لائی ہو ننھی رانی !‘‘ دونوں نےمعلوم کیا۔
ننھی نے پوٹلی کھولی تو اس میں کئی طرح کے اناج کے دانے تھے۔ ’’یہ تمہارے لئے ہیں ، اور آج سے تم کو دانہ چگنے کے لئے پریشان نہ ہونا پڑے گا ، میں روز تمہارے لئے دانے لے کر آؤں گی۔‘‘
’’لیکن کیوں؟ تم اتنی تکلیف کیوں کررہی ہو۔‘‘
’’اس لئے کہ میرا ضدی بھائی اپنی بکریوں کو تمہارے کھیت میں چرا چرا کر ایک دن اس کو بالکل ختم کردے گا ۔ میں نے اس کو گھر پر بھی بہت سمجھایا پر وہ ایک نہ مانا ، الٹا مجھ کو ہی مارا ۔‘‘ ہاتھی نے جب ننھی کی یہ باتیں سنی تو وہ اس کو بہت اچھی لگی۔ اب ننھی روز اس کے لئے کبھی چاول کے دانے ، کبھی گیہوں اور کبھی باجرہ وغیرہ کے دانے لاتی وار چنکی کے گھونسلے میں رکھ جاتی۔ ان کا کھیت بالکل ختم ہوچکا تھا اور اس کے بھائی نے بکریاں چرانے کا اب دوسرا ٹھکانہ کھوج نکالا تھا۔
پنکی اور چنکی نے ایک دن کہا ’’آؤ ہم تینوں مل کر کیوں نہ پھر ایک بار کھیت اگائیں ۔ ‘‘لیکن ننھی کو یہ تجویز پسند نہیں آئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کا بھائی کھیت کو ہرابھرا دیکھ کر پھر بکریاں لے کر آجایا کرے گا۔
لیکن پنکی اور چنکی کو جیسے خالی بیٹھنے کی عادت نہ تھی ۔ انہوں نے کہا وہ بعد کی بات ہے ۔ اگر ہماری محنت سے کسی کا بھلا ہوتا ہے تو اس سے اچھی اور نیک بات کیا ہوسکتی ہے۔ پنکی اور چنکی کے پاس بیجوں کا اچھا خاصا اسٹاک جمع تھا۔
’’بیج بکھیرنے سے پہلے ہم کو مٹی صاف کرلینی چاہئے ۔ زمین کو کچھ گہرا کھودنا بھی ہوگا تاکہ اگلی فصل اچھی اگے۔‘‘ ننھی نے رائےدی۔
اگلے دن ننھی اپنے گھر سے ایک پھاؤڑا اٹھا لائی اور زمین کو کھودنے لگی۔ پنکی اور چنکی گھاس چن چن کر الگ پھینک رہی تھیں۔
ایک بار جب ننھی نے پھاؤڑا مارا تو زمین کے اندر سے گویا کسی چیز کے بجنے کی آواز آئی ۔ ’’یہ آواز کیسی ہے؟‘‘ تینوں نے ایک ساتھ کہا۔ ’’لگتا ہے پھاؤڑا کسی برتن سے ٹکرایا ہے۔‘‘ ننھی نے کہا اور جلدی جلدی پھاؤڑا چلانے لگی ۔ تھوڑی دیر بعد اس کو کوئی برتن نظر آیا ۔ ’’ارے یہ تو زمین میں دبا کوئی پیتل کا کلسا معلوم دیتا ہے۔‘‘ ننھی نے جلدی جلدی ہاتھ سے مٹی ہٹتے ہوئے کہا اور مٹی ہٹانے کے بعد شبہ یقین میں بدل گیا ۔ وہ ایک پیتل کا کلسا ہی تھا جو منہ تک سونے کی اشرفیوں سے بھرا تھا۔ ’’تم جلدی سے اپنے ابا کو بلالاؤ۔‘‘ پنکی نے ننھی کو رائے دی۔ اسی وقت اس کو سامنے سے اپنے والد آتے دکھائی دیئے۔ ننھی نے پکارا ’’ابا ! ابا! جلدی یہاں آؤ، دیکھو تو کیا ہے۔‘‘
ننھی کے ابا نے جب اشرفیوں سے بھرے کلسے کو دیکھا تو حیرت اور خوشی سے اس کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ ننھی نے پنکی اور چنکی کو بھی اپنے ابا سے ملوایا ۔ ننھی کے ابا دونوں سے مل کر بہت خوش ہوئے ۔ اور جب ننھی نے اپنے بھائی گلو کی نالائقی کے بارے میں انہیں بتایا تو وہ مسکرانے لگے ۔ ’’ہاں گلو کو پنکی اور چنکی دونوں سے معافی مانگنی چاہئے ۔ لیکن سوچو اگر دوبارہ کھیت اگانے کے لئے تم لوگ یہ زمین نہ کھودتیں تو پھر یہ دھن ہمیں کیسے ملتا۔‘‘
ننھی کے ابا وہ کلسا لے کر اور پنکی ، چنکی اور ننھی کے ساتھ گھر آئے۔ اتنی دولت پانے کے بعد اب ان کی غریبی کے دن ختم ہوچکے تھے اور اس کے لئے وہ پنکی ، چنکی اور ہاتھی کے بے حد احسانمند تھے۔ (اسی نام کی کتاب سے ماخوذ)