• Wed, 08 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سبزی کانفرنس

Updated: January 06, 2025, 3:55 PM IST | Khaliq Anjum Ashrafi | Mumbai

ایک دن سبزیوں میں ہنگامہ ہوگیا کہ کون سی سبزی بہترین ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ایک دن ہم صبح سویرے سبزی منڈی پہنچے اور ایک بڑی دکان پر کھڑے ابھی شلجموں کی گلابی رنگت دیکھ ہی رہے تھے کہ بی لوکی بول اُٹھیں، ’’آج ذرا مجھے بھی تو پکا کر دیکھئے۔‘‘ اس پر شلجم صاحب بڑی غصیلی نظروں سے بی لوکی کو گھورنے لگے۔ اتنے میں بیگن صاحب بیچ میں ٹپک پڑے۔ ٹپک کیا پڑے ڈھلک پڑے کہنا زیادہ درست ہوگا۔ بہرحال وہ بولے، ’’ذرا میرا شیام مراری جیسا روپ تو دیکھو۔‘‘ دوسری طرف سے ٹماٹر چلّایا، ’’اجی مجھے کھایئے گا تو میری ہی طرح سُرخ ہوجائیے گا۔‘‘
 بس پھر کیا تھا۔ نوک جھونک شروع ہوگئی۔ لوکی اور شلجم میں بحث چھڑ گئی اور جلد ہی تُو تُو مَیں مَیں لڑائی میں بدل گئی۔ بینگن اُچھلا اور اس نے اپنے نوکیلے ڈنٹھل سے بے چارے ٹماٹر کی انتڑیاں چھلنی کر دیں۔ شلجم تھا تو لوکی سے چھوٹا، لیکن اُس نے بڑی بہادری دکھائی اور لوکی کو گِرا کر اس کی کمر توڑ دی، دیکھتے ہی دیکھتے یہ جنگ ’’منڈی گیر‘‘ بن گئی۔ کوئی بھی سبزی غیر جانبدار نہ رہ سکی۔ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں میں جس طرح چھوٹے چھوٹے ممالک کو بڑوں کا دُم چھلّا بننا پڑا تھا اسی طرح ہر سبزی کو بھی کسی نہ کسی گروپ میں آنا پڑا۔ اب تو جناب وہ ہلڑ مچا کہ توبہ ہی بھلی۔ ہم کئی قدم پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوگئے کیونکہ ایسے جھگڑوں میں راہی اور پردیسی ہی مارے جاتے ہیں اور ویسے بھی شریف آدمی جھگڑے سے بہت دور بھاگتا ہے۔ کیا کہا آپ نے؟ ہم اس طرح اپنی شرافت کا تذکرہ کرکے اپنے منہ میاں مٹھو بن رہے ہیں۔ خیر جواب تو آپ کو اس کا دنداں شکن مل سکتا ہے۔ مگر کہیں اس طرح ہم سبزیوں کی لڑائی کی کہانی سناتے سناتے اور آپ سنتے سنتے ان سبزیوں کی طرح تُو تُو مَیں مَیں اور پھر ہاتھا پائی پر نہ اُتر آئیں۔ اس لئے آپ برائے مہربانی خاموشی سے سنتے چلئے۔

یہ بھی پڑھئے:چوری

خیر صاحب ہم یوں الگ ہوئے کہ اگر کہیں میاں بینگن ہماری ناک پر آگرے تو ہماری ناک کا بھرتہ بن جائے گا اور اگر کہیں میاں ٹماٹر ہماری آنکھ پر آپڑے تو ہم اندھے (کچھ دیر ہی کے لئے سہی) ہی ہوجائیں گے۔ اور شلجم صاحب ہماری پیشانی پر آگرے تو کہیں عینک کے ہمراہ ہماری آنکھوں کو بھی ’نروان‘ نہ حاصل ہوجائے۔
 بہرحال خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آخر میں سبزی منڈی کے چودھریوں کی مداخلت سے یہ ’جنگ‘ بند ہوئی مگر اس دُکان کا حال کسی ایسے میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کر رہا تھا جہاں دو حریفوں میں دیر تک جم کر لڑائی ہوئی ہو۔ کریلے ٹوٹے پڑے تھے۔ مٹر کی پھلیوں کا بُرا حال تھا اور گوبھی ریزہ زیرہ ہو کر بکھر گئی تھی۔
 دوسرے دن منڈی کے چودھریوں نے فیصلہ کیا کہ روز کی کل کل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ایک کانفرنس مقرر کی جائے جس میں سبزیاں عوام کو اپنے فوائد اور خامیوں سے آگاہ کریں۔ بس پھر کیا تھا اگلے دن بازاروں میں پوسٹر لگ گئے کہ اگلے دن سبزی ہال میں ایک شاندار سبزی کانفرنس منعقد ہوگی۔
 مقررہ وقت پر ہال کھچا کھچ بھر گیا۔ اسٹیج پر طرح طرح کی سبزیاں رونق افروز تھیں۔ فرش پر ’عام لوگ‘ بیٹھے تھے۔ ان میں چمچے، کرچھیاں، ڈوئیاں، کفگیریں، دیگچیاں، ہانڈیاں، بگونے، فرائنگ پین، نمک، مرچ، گرم مسالہ، ہلدی وغیرہ غرض کہ باورچی خانے کی ساری آبادی موجود تھی۔
 صدارت کے لئے باقاعدہ ووٹنگ ہوئی اور ووٹوں کی اکثریت سے پیاز کو صدر چن لیا گیا۔ کارروائی شروع ہونے سے پہلے محترمہ صدر صاحبہ نے ایک مختصر سی تقریر کی جس میں کانفرنس کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے فرمایا، ’’مَیں سبزیوں کے اس جھگڑے میں غیر جانبدار ہوں ہر سبزی بڑی محبّت سے مجھے گلے لگاتی ہے اور مَیں ہر سبزی سے گھل مل جاتی ہوں۔ آپ لوگوں نے مجھے جو عزت بخشی اس کے لئے مَیں آپ لوگوں کی مشکور ہوں۔ اب مَیں جنابِ شلجم سے درخواست کروں گی کہ وہ مائک پر تشریف لا کر اپنی تقریر سے کانفرنس کا آغاز فرمائیں۔‘‘
 تالیوں کی گونج میں شلجم صاحب آکر مائک کے سامنے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اپنی تقریر اس طرح شروع کی۔
 ’’محترمہ صدر صاحبہ، خواتین و حضرات! میرا نام شلجم ہے کچھ لوگ شلغم بھی کہتے ہیں۔ مجھے جنّت کی سبزی کہا جاتا ہے۔ جنّت سے میری مراد فردوس بر روئے زمین یعنی کشمیر ہے۔ کسی کشمیری سے میرا مزا پوچھئے۔ کشمیری کیوں سُرخ ہوتے ہیں یہ میری ہی مہربانی کا پھل ہے۔ ویسے میری سب سے زیادہ خدمت بھی کشمیری ہی کرتے ہیں۔ یعنی وہی سب سے زیادہ مجھے کھاتے ہیں۔‘‘
 اتنا کہہ کر جناب شلجم جھٹ ایک طرف لڑھک گئے اور صدر صاحبہ کی اجازت پا کر بینگن صاحب کھڑے ہوگئے اور بولنا شروع کیا، ’’آپ لوگوں نے ابھی جنابِ شلجم کی ڈینگیں سنیں۔ جبکہ یہ جب تک گوشت کے ساتھ نہ پکیں تب تک ان میں کوئی مزہ ہی نہیں۔ مجھ کو دیکھئے گوشت نہیں تو نہ سہی، بڑیاں ڈال کر پکایئے۔ پیاز کے ساتھ تو میرا ذائقہ اور بڑھ جاتا ہے (صدر صاحبہ مسکرا دیں۔ ایک آواز: ’’مکھن بازی نہیں چلے گی۔‘‘) افغان اور ایرانی میرے پیٹ سے گودا نکال کر اس میں قیمہ بھر کر پکاتے ہیں اور اس کا مزہ کچھ وہی لوگ جانتے ہیں۔ لوگ میرا بھرتہ بھی بنا کر بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ دُنیا کی کوئی سبزی میرا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اسی لئے سبزیوں میں میرا مقام سب سے بلند ہے۔‘‘
 بینگن کی لمبی چوڑی تقریر ختم ہوتے ہی جناب آلو اس طرح تیزی سے لڑھکتے ہوئے مائک کے سامنے آگئے، گویا ابھی تک اِسی انتظار میں رہے ہوں کہ کب بینگن کی تقریر ختم ہو اور کب وہ اپنے دل کا بخار نکالیں۔ صدر صاحبہ کی اجازت پر انہوں نے اس طرح اپنی تقریر شروع کی:
 ’’حضرات و خواتین! سن لیں آپ نے ان حضرت کالے کلوٹے بینگن لُوٹے کی باتیں۔ یہ جتنے اُوپر سے کالے ہیں اتنے ہی اندر سے بھی ہیں۔ صرف برادری والے ہی ان کی جو عزت کرتے ہیں وہ ہے ورنہ ساری دُنیا میں یہ اتنا بدنام ہیں کہ تھالی کا بینگن ان جیسوں کے لئے ایک مشہور کہاوت بن گئی ہے۔ تاثیر ان کی اتنی گرم ہے کہ اِن کو کھاتے ہی پیچش کسی بن بُلائے مہمان کی طرح تشریف لے آتی ہے۔ مجھے دیکھئے سدا بہار ہوں۔ ہر موسم میں ملتا ہوں۔ میرا کچالو بناتے ہیں۔ چاٹ کا خاص جزو ہوں۔ میرا بھرتہ بھی بہت لذیذ اور ذائقہ دار ہوتا ہے۔ مجھے گوشت میں ڈالئے مزہ دوبالا ہوجاتاہے۔ چنوں میں ملائیے لذیذ ہوجاتا ہے۔ نسل کے لحاظ سے ولائتی ہوں۔ انگلستان سے آیا ہوں اور سبزیوں کا راجا ہوں۔‘‘
 آلو کے یہ الفاظ سن کر سامعین کی صف میں بیٹھے فرائنگ پین نے زور سے نعرہ لگایا، ’آلو مہاراج، زندہ باد!‘‘ اس نعرے کو سنتے ہی شور و غل مچ گیا۔ صدر صاحبہ نے بڑی مشکل سے لوگوں کو خاموش کیا اور مِس مولی کا نام پکارا اور ان سے تقریر شروع کرنے کی درخواست کی۔ مس مولی بڑی نزاکت سے اپنی نازک کمر اور دھانی پوشاک سنبھالتی مائک پر آکر کھڑی ہوگئیں اور بڑی سُریلی آواز میں انہوں نے یوں کہنا شروع کیا، ’’بھائیو اور بہنو! یہ آلو صاحب بھی بھلا کوئی سبزی ہیں۔ مجھے دیکھئے۔ سبزی کی سبزی ہوں، پھل کا پھل۔ کچا کھائیے چاہے پکا کر۔ دونوں حالتوں میں میرے ذائقہ اور فائدے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ کھانے کے بعد کھائیے تو کھانا ہضم۔ سبزی کیا مَیں تو چُورن کی پڑیا ہوں۔‘‘
 مس مولی نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ صدر صاحبہ کے پاس ایک رقعہ گیا۔ معلوم ہوا کہ جناب ساگ ابھی ابھی گاؤں سے تشریف لائے ہیں اور ہال کے باہر کھڑے صدر صاحبہ کی اجازت کے طلبگار ہیں۔ ان کو اندر بلا لیا گیا اور اس مولی کے بعد ان کو بھی تقریر کرنے کا موقع دیا گیا۔ انہوں نے اپنی تقریر شروع کی:
 ’’اس سے پہلے کہ مَیں اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کروں، مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مجھے منتظمین سے سخت شکایت ہے۔ مقام ِ حیرت ہے کہ مجھے اس کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ تک نہیں بھیجا گیا۔ آج جب مَیں گاؤں سے شہر آیا تو مَیں نے دیواروں پر سبزی کانفرنس کے پوسٹر دیکھے اور دوڑا یہاں چلا آیا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ مجھے مدعو نہ کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہماری شہری برداری ہمیں اپنے سے کمتر سمجھتی ہے۔ آج اس کا ثبوت بھی مل گیا۔‘‘ کچھ دیر رُک کر ساگ صاحب نے فرمایا، ’’مَیں اپنے ان تلخ لیکن سچے الفاظ کیلئے معذرت خواہ ہوں۔ اور اپنے بارے میں صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ مَیں گاؤں کی وہ سادہ اور خالص سبزی ہوں جسے ہر غریب آدمی حاصل کرسکتا ہے۔ مکئی کی روٹی اور کچی لسی کے ساتھ میری سبزی بہترین کھانا تسلیم کیا گیا ہے۔ مَیں صرف ذائقہ دار ہی نہیں ہوں بلکہ میرے اندر فولادی طاقت کا وہ خزانہ پوشیدہ ہے جو کمزور سے کمزور آدمی کو طاقتور بنا سکتا ہے۔ پیٹ کے امراض کیلئے تو میرا استعمال بہت ہی فائدہ مند ہے۔‘‘
 اچانک ٹماٹر، لال مرچ اور چقندر ایک ساتھ بول اُٹھے، ’ہم لوگ متفقہ طور پر جناب ساگ کے حق میں ہیں کیونکہ ان کی شکایت سو فیصدی درست ہے۔ شہری سبزیوں کو سرمایہ داروں نے اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے وہ ساگ سے نفرت کرنے لگی ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر سُرخ سبزیوں نے سرمایہ داری کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ شہری سبزیوں میں بھی جوش پھیل گیا وہ ’سرخوں‘ کو مارنے دوڑیں۔ کانفرنس میں ایک ہلڑ مچ گیا اور اِسی ہلڑ میں صدر صاحبہ نے کانفرنس کے خاتمہ کا اعلان کر دیا اور سبزیاں لڑتی جھگڑتی ہال سے باہر چلی گئیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK