• Sun, 29 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

چوری

Updated: December 28, 2024, 12:40 PM IST | Abrar Mohsin | Mumbai

رامو کی حالت دوسرے مچھیروں سے کسی قدر بہتر تھی۔ صحتمند ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ محنت کرسکتا تھا اس لئے اس کے ہاتھ دوسروں سے زیادہ مچھلیاں لگتی تھیں۔ اِسی وجہ سے اس کے پڑوسی اُس سے جلتے تھے۔ خصوصاً بوڑھا بھیکو تو اُس سے بہت حسد رکھتا تھا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ماہی گیروں کی وہ بستی صرف چار جھوپڑوں پر مشتمل تھی جن سے تھوڑے ہی فاصلے پر نیلا سمندر شروع ہوجاتا تھا۔  سمندر جو اُن کی زندگی تھا، جس کے اندر خوراک تھی، ان کا روزگار تھا۔ ہر روز پَو پھٹنے سے قبل ہی جب سمندر پر اندھیروں کی حکمرانی ہوتی، ماہی گیر کشتیوں میں جال رکھ کر موجوں کے کاندھوں پر بہت دور نکل جاتے اور شام کے ٹھنڈے دُھندلکوں کی چھاؤں میں جب آبی پرندے اپنے ٹھکانوں کی سمت پلٹتے، یہ ماہی گیر بھی کشتیوں میں مچھلیوں بھرے ساحل کا رُخ کرتے۔ سورج کا گولا دھیرے دھیرے سُرخ پانی میں گُم ہوجاتا۔ نیلے آسمان کی چادر پر ستاروں کے موتی بکھرنے کے ساتھ ہی ساتھ جھوپڑوں میں مٹی کے چراغ جل اٹھتے، چولہے روشن ہوجاتے۔ روکھی سوکھی کھانے کے بعد ماہی گیر مچھلیاں ٹوکریوں میں بھر کر شہر کا رُخ کرتے۔ واپس آتے آتے رات کا پہلا پہر بیت جاتا۔ اگلی صبح پھر وہی سمندر کا سفر۔ ہر روز یہی ہوتا تھا۔
 اِسی طرح دن گزرتے تھے.... مگر برسات کے موسم میں یہی سمندر انتہائی خوفناک ہوجاتا۔ طوفانی لہریں بپھرے ہوئے درندوں کی طرح ساحل پر بار بار حملہ آور ہوتیں، ساحل پر کی اُبھری چٹانیں ڈوب جاتیں۔ راتوں میں ہواؤں کے جھکڑ اور موجوں کے تھپیڑے ماحول کو انتہائی بھیانک بنا دیتے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا جیسے سمندر ساحل کی ریت کی دیواروں کو پھلانگ کر شہر کی طرف چڑھ دوڑے گا۔ اِسی لئے ماہی گیروں نے جھوپڑے ذرا بلندی پر بنائے تھے تاکہ وہ موجوں سے محفوظ رہ سکیں۔
 کہا جاتا ہے کسی زمانے میں نیچے ساحل پر ماہی گیروں کی ایک بستی تھی، مگر برسات کی ایک رات کو سمندر میں طوفان آیا اور اگلی صبح وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ پوری آبادی کو سمندر ہڑپ کر گیا تھا۔ یہ بہت پُرانی بات ہے۔ بہرحال جھوپڑوں کو اس قسم کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ مگر برسات جب بھی آتی، ماہی گیروں کے لئے دکھوں کا پیغام لاتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ طوفانی سمندر میں مچھلیاں پکڑنے جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ جھوپڑوں میں رہنے والے ماہی گیروں کے بڑے بوڑھے طوفانوں کی ہی بھینٹ چڑھے تھے۔ برسات کا موسم عام طور پر غربت کا موسم ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھار تو جھوپڑوں میں کئی کئی دن چولہے نہیں سلگتے تھے کیونکہ اچھے دنوں میں بھی ان کی کمائی اتنی نہیں ہوتی تھی جو آڑے وقت کے لئے بچا کر رکھی جاتی۔

یہ بھی پڑھئے: اندھیرے کا چراغ

ان جھوپڑوں میں سے ایک میں رامو ماہی گیر اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ نوجوان تھا، تندرست اور قدآور۔ ہر صبح وہ کشتی لے کر نیلی موجوں میں گم ہوجاتا۔ تمام دن بیوی سمندر کی سمت نگاہیں اُٹھائے اس کی منتظر رہتی۔ شام کے ڈھلتے سایوں کے ساتھ ہی دور اُس کی کشتی موجوں پر ڈولتی نظر آتی۔ بیوی خوشی سے پھولی نہ سماتی۔ جوں ہی کشتی ساحل سے آکر لگتی، وہ جھپٹتی اور کشتی میں سے مچھلیاں اُٹھانے میں اس کا ہاتھ بٹاتی۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد رامو دن بھر کے واقعات مزے لے لے کر سناتا۔ غربت کے باوجود دن سکھ سے گزر رہے تھے۔ رامو کی حالت دوسرے مچھیروں سے کسی قدر بہتر تھی۔ صحتمند ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ محنت کرسکتا تھا اس لئے اس کے ہاتھ دوسروں سے زیادہ مچھلیاں لگتی تھیں۔ اِسی وجہ سے ا س کے پڑوسی اُس سے جلتے تھے۔ خصوصاً بوڑھا بھیکو تو اُس سے بہت حسد رکھتا تھا۔ بڑھاپے کی وجہ سے اس کا جسم کمزور ہوگیا تھا۔ اس پر بیوی اور چھ بچّوں کا پیٹ بھرنا پڑتا تھا۔ جب رامو بہت سی مچھلیاں لے کر آتا، بھیکو کے دِل میں آگ ہی تو لگ جاتی، جیسے رامو اس کے حصے کی مچھلیاں پکڑ لایا ہو۔
ان موقعوں پر بھیکو دل دہی دل میں کہتا، ’’بھگوان کرے تیری کشتی کو سمندر کھا جائے۔ اگلے دن تُو واپس لوٹ کر نہ آئے۔‘‘
 باقی دو پڑوسی سیتا اور غریبا بھی اس سے حسد رکھتے تھے۔ مگر رامو کو اس کی کچھ پروا نہ تھی۔ وہ اپنی ہی دُھن میں رہا کرتا۔ اپنی محنت کی وجہ سے اس نے گھر میں تانبے کے چند برتن کر لئے تھے، بیوی کے پاس چاندی کے دو تین زیور تھے۔ بیس تیس روپے جوڑ بھی رکھے تھے۔

یہ بھی پڑھئے: ناک

ایک مرتبہ برسات بڑی بھیانک تھی۔ کئی ہفتوں سے موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ سمندر میں پہاڑ جیسی موجیں بپھرے ہوئے ہاتھیوں کی طرح بار بار ساحل سے ٹکرا رہی تھیں۔ بادل اِس قدر سیاہ تھے کہ دن میں بھی دُھندلکا سا چھایا رہتا تھا۔ اُن ہی دنوں میں رامو کے بیٹی پیدا ہوئی۔ بیوی سخت بیمار پڑ گئی۔ جو کچھ جوڑ کر رکھ چھوڑا تھا سب خرچ ہوگیا۔
 بیوی کی حالت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی۔ وہ گھبرا گیا۔ پیسہ ختم ہوچکا تھا اور سمندر میں طوفان تھا۔
 ’’مَیں شہر جا کر برتن فروخت کروں گا اور دوا لاؤں گا۔‘‘ اُس نے اپنی بیوی سے کہا۔
 ’’ایسا نہ کرو۔‘‘ بیوی کراہتی ہوئی بولی، ’’یہ برتن تو گھر کا سنگھار ہیں۔ تم نے کتنی مشکل سے خریدے ہیں۔ کیا خبر پھر کبھی خرید سکو یا نہیں۔ رہنے دو، مَیں خود ہی ٹھیک ہوجاؤں گی۔‘‘
 رامو کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس کی حالت نازک تھی مگر وہ اس کا دل بھی تو نہیں توڑ سکتا تھا۔ بیوی کا زندہ رہنا ضروری تھا۔ خاص طور سے ننھی سی جان کے لئے۔ اس نے پھنکارتے ہوئے سمندر کی طرف دیکھا۔ اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے موجیں اس کے حوصلے کو للکار رہی ہوں، ’’ہمت ہے تو آکر دیکھو۔ آج دیکھنا ہے جیت تمہاری ہوتی ہے یا ہماری۔ ڈر گئے نا۔ بزدل! بیوی موت اور زندگی کے طوفان میں گھری ہے اور تم جان بچا کر ساحل پر کھڑے ہو۔ بزدل!‘‘
 اور اُس نے فیصلہ کر لیا۔
 ’’رامو کشتی لے کر چلا گیا۔ موت کے منہ میں گیا ہے۔ واپس نہیں آئے گا۔‘‘ جھوپڑے والوں نے ایک دوسرے سے کہا۔
 بیوی کو پتہ چلا تو اس کی حالت اور بھی خراب ہوگئی وہ جانتی تھی بھوکا سمندر اُسے واپس نہیں آنے دے گا۔
 غریب کے اندر اتنی طاقت ہی کہاں تھی جو چیختی چلّاتی۔ بچی بھوک سے مسلسل چلّا رہی تھی۔ وہ خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔ ایک ایک پَل پہاڑ بن گیا تھا۔ اب کیا ہوگا؟ رامو کیسے واپس آئے گا؟ اگر وہ نہیں آیا....؟
 اِسی طرح دن گزر گیا۔ اندھیرے اور گہرے ہوتے گئے۔ بارش کا زور اور موجوں کا شور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اس میں اتنی طاقت ہی کہاں رہی تھی جو ساحل پر جا کر اس کی راہ تکتی۔ سارے بدن کی طاقت ختم ہوچکی تھی۔ بچی بھوک اور مسلسل چلّاتے رہنے سے غالباً ہوش کھو بیٹھی تھی۔ اور رامو نہیں آیا۔
 وہ بہت مشکل سے اُٹھی اور چراغ جلا دیا۔ اندھیروں سے اُسے بے حد ڈر لگتا تھا۔ اندھیرے جو ماحول پر پوری طرح چھا چکے تھے، جو اُس کی زندگی میں بھر رہے تھے۔ اندھیروں سے اس کا دل گھبراتا تھا کیونکہ اس کا باپو بھی دس برس پہلے ایک اندھیری رات میں سمندر میں کھو گیا تھا۔ وہ جانتی تھی سمندر کے اندھیرے کتنے خوف ناک، کیسے ظالم ہوتے ہیں۔ لمحہ بھر کے لئے اُسے یہ غلط فہمی ہوگئی جیسے اُس کا ننھا چراغ سمندر کی راہیں روشن کر دے گا اور اس کے اُجالے میں رامو واپس آجائے گا۔ اچانک موجیں ساحل کی چٹانوں سے پوری قوت سے ٹکرانے لگیں۔ زمین تھرانے لگی۔
 اندھیرے اور سیاہ ہوگئے۔ پھر وہ اس کی روح میں داخل ہوگئے۔
 رامو کی جھوپڑی کے باہر دو سایے کانا پھوسی کر رہے تھے۔
 ’’مَیں دیکھ کر آیا ہوں۔ وہ مَر چکی ہے۔‘‘ یہ بھیکو کی آواز تھی۔
 ’’پھر کیوں ڈرتے ہو؟‘‘ اُس کی بیوی جھلا کر بولی، ’’رامو کو سمندر کھا گیا۔ اب کس بات کا ڈر ہے۔ اچھا خاصا سامان موجود ہے۔ اندر جاؤ، اور سب سے زیادہ قیمتی چیز لے آؤ۔ مَیں جھوپڑے میں انتظار کر رہی ہوں۔‘‘
 بھیکو نے چوروں کی طرح رامو کے جھوپڑے میں قدم رکھ دیا۔ سامنے ہی چراغ کی مدھم روشنی میں رامو کی بیوی کی لاش پڑی تھی جس کے سینے سے بچی لپٹی ہوئی تھی۔ بے جان جسم پر چاندی کے زیور عجیب سے لگ رہے تھے۔ چولہے کے پاس برتن رکھے تھے۔
 بھیکو کی بیوی نے بھیکو کو آتے دیکھا اور سنبھل کر بیٹھ گئی۔ اس نے ہاتھوں میں ایک گٹھری اٹھا رکھی تھی۔
 ’’لے آئے؟‘‘ بیوی نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
 ’’ہاں! پہلی بار چوری کی ہے اس لئے لمبا ہاتھ مارا ہے۔ لے دیکھ۔‘‘ وہ بولا اور گٹھری کھول دی۔
 ’’یہ کیا؟ لڑکی!‘‘ بیوی حیرت سے چیخ اٹھی۔
 ’’رامو کے جھوپڑے میں مجھے اس سے زیادہ قیمتی چیز نظر نہیں آئی۔ اسے ساتویں اولاد سمجھ لے۔ لے، اب جلدی سے اس کا پیٹ بھر کر سینے سے لگا لے.....‘‘ بھیکو بڑبڑایا۔ اور ننھی بچی کو ایک بار پھر ماں کی گود مل گئی۔n
(ماخوذ: کھلونا، ۱۹۷۱ء)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK