• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

چمتکار

Updated: November 23, 2024, 7:44 PM IST | Mumbai

جسٹس بی لومڑی بدعنوان افراد کی وجہ سے سزا پاتی ہے مگر چمتکار ہوتا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

جسٹس لومڑی کو جب چیف جسٹس شیر نے موت کی سزا سُنائی تو سارے جنگل میں سنسنی پھیل گئی۔ یہ بات جنگل میں آدرش سرکار قائم ہونے کے بعد کی ہے۔
 ہوا یہ کہ کچھ سمجھدار جانوروں کے مشورے پر شیر نے اپنے جنگل میں آدرش سرکار قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
 راج پاٹ ٹھیک طرح چلانے کے لئے بہت سے شعبوں کا قیام عمل میں آیا، جن میں انصاف کا شعبہ خاص تھا۔ جنگل کی حفاطت کی ذمہ داری بھی شعبۂ انصاف کو ہی سونپی گئی تھی۔ جنگل میں شکاریوں کی مداخلت اور چند طاقتور اور چالاک چرندوں پرندوں کی وجہ سے آدرش سرکار کا قیام ضروری ہوگیا تھا۔ جنگل کے بھولے بھالے اور کمزور باسیوں کی حفاظت کیلئے ایسا کرنا لازمی تھا۔
 عدالت میں کچھ منصفوں کا تقرر کیا گیا۔ منصفوں کے عہدے ہاتھی، بھالو، بندر اور چیتے وغیرہ کو دیئے گئے۔

یہ بھی پڑھئے: مجھے روشنی مل گئی

جسٹس کا عہدہ بی لومڑی کو سونپا گیا تھا اور چیف جسٹس کا عہدہ تو تھا ہی شیر کا۔ یہ عہدہ جنگل کے راجہ کے شایانِ شان بھی تھا۔ چھوٹے موٹے مقدمات کا فیصلہ تو دوسرے منصف کر دیا کرتے تھے، مگر بڑے مقدموں کو طے کرنے کا حق جسٹس، یعنی بی لومڑی کو تھا۔ لیکن ان سب فیصلوں کے خلاف اپیل سننے کا اختیار چیف جسٹس یعنی جنگل کے راجہ شیر کو حاصل تھا۔ شیر کے فیصلے کو نہ ماننے کی جرأت کسی بھی جنگل کے باسی کو نہ تھا۔
 لومڑی کی ہوشیاری اور عقلمندی مشہور ہے۔ لیکن جسٹس بننے والی یہ لومڑی بہت مہربان، نرم مزاج اور ہمدرد تھی۔ اس لئے بے قصور ملزموں کو رِہا کرانے کی وہ بھرپور کوشش کیا کرتی تھی۔ جھوٹے مقدمے قائم کرنے والوں کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑتی تھی۔ بی لومڑی بدعنوان ملازموں کی ایک بھی نہ چلنے دیتی تھی۔ لومڑی کی اس حرکت سے اس کے ماتحت منصف اور دوسرے کارکن سخت نالاں رہتے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح بی لومڑی کو کسی جرم میں پھانس کر شیر سے کڑی سزا دلا دیں، مگر ہوشیار لومڑی کسی بھی وار کو کامیاب نہیں ہونے دیتی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: پھول والے داداجی

 کئی بار تو لومڑی نے بے قصور قیدی جانوروں کو خود ہی کٹہرے سے آزاد کر دیا تھا۔ یہ بات کسی بھی کارکن کو پسند نہیں تھی۔ اس کے خلاف بار بار کی شکایتوں نے شیر کے کان کھڑے کر دیئے اور قدرتی طور پر شیر کو بھی لومڑی پر یہ شک ہونے لگا کہ لومڑی اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے لگی ہے۔
 لومڑی کے خلاف لگاتار اور مسلسل سازش کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک وقت ایسا بھی آگیا جب چیف جسٹس نے اسے موت کی سزا سنا ہی ڈالی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ننھے منّے خرگوش کو اس جرم پر جیل میں ڈال دیا گیا تھا کہ اس نے شیر کی بھوک مٹانے کے لئے اپنے گھر کا ٹھیک پتہ نہیں بتایا تھا۔ اس وقت شیر راجہ کا دل خرگوش کا گوشت کھانے کو ہی چاہ رہا تھا مگر ایک دو خرگوش سے شیر کا پیٹ کب بھرنے والا تھا۔ وہ تو خرگوش کے سارے کے سارے خاندان کو چٹ کرکے ہی اپنے پیٹ کی آگ کو کچھ سَرد کرسکتا تھا۔ نتیجے کے طور پر بے چارہ ننھا منّا خرگوش ناانصافی کا شکار ہوگیا تھا لیکن لومڑی کو یہ ناانصافی قطعی اچھی نہ لگی۔ اس کے دل میں رحم کا جذبہ بیدار ہوگیا اور اس نے بے قصور خرگوش کو اس آفت سے چھٹکارا دلانے کا پکا ارادہ کر لیا۔

یہ بھی پڑھئے: نیلم پری

 ایک دن لومڑی نے موقع پا کر خرگوش کو چپکے سے کٹہرے سے آزاد کر دیا۔ اس حرکت کا علم کسی طرح راجہ کو ہوگیا۔ راجہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور لومڑی کے خلاف ساری شکایتیں اُسے سچ لگنے لگیں۔ اس نے لومڑی کو گرفتار کرا دیا بعد میں کچھ دن تک سرکاری کارروائی چلی لیکن فیصلہ لومڑی کے خلاف ہی ہوا۔ یعنی چیف جسٹس شیر نے اسے سزائے موت کے لائق قرار دے دیا۔ موت کی اس سزا کی خبر جنگل کے نیک دل، کمزور اور انصاف پسند باسیوں کے دل پر بجلی بن کر گری۔ لومڑی کے مخالف بھی حیران تھے کہ اتنی چالاک اور باکمال لومڑی کو موت کی سزا کیسے ہوگئی، جبکہ وہ یہ بھی کہتی تھی کہ بے قصوروں، معصوموں اور مظلوموں کا ساتھ دینے والوں کا خدا ہمیشہ ساتھ دیتا ہے، انہیں ہر مصیبت سے بچاتا ہے۔
پھانسی پر لٹکانے سے پہلے لومڑی سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو لومڑی نے جنگل کے راجہ شیر سے کہا، ’’حضور! آپ کے انصاف پر واری۔ آپ کا قانون سب ہی کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ سب ہی کا آپ برابر خیال فرماتے ہیں اس لئے مجھے یقین ہے کہ میرے خلاف بھی آپ کا فیصلہ درست ہی ہے۔ آئندہ بھی آپ انصاف پسندی کا ہی مظاہرہ کرتے رہیں گے، تاکہ آپ کی آدرش سرکار بدنام نہ ہو اور سب آپ کے گُن گاتے رہیں۔ جہاں تک میری آخری خواہش کا سوال ہے تو عرض ہے کہ مَیں اپنا وہ چمتکار دکھانا چاہتی ہوں جو ہمیشہ آپ کے اور آپ کی سرکار کیلئے مفید اور کارآمد ثابت ہوگا۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ہماری مانگیں

 اتنا کہہ کر لومڑی نے شیر کے چہرے کو غور سے دیکھا جو دھیان سے اس کی دلچسپ باتوں کو سُن رہا تھا۔ شیر نے مسکرا کر اجازت دی۔ ’’ہاں، ہاں! تم اپنا چمتکار ضرور دکھاؤ! ہمیں اپنی انصاف پسند پالیسی پر فخر ہے۔‘‘
 چمتکار کی بات سُن کر وہاں موجود سارے جنگل باسی بھی چمتکار دیکھنے کیلئے بے قرار ہوگئے۔
 ’’مَیں لکڑی، پتھر یا لوہے وغیرہ کے ٹکڑوں کو تازہ مزہ دار گوشت میں بدل سکتی ہوں۔ غذائی بحران کے دور میں میرا یہ چمتکار بے حد فائدہ مند ثابت ہوگا۔‘‘ لومڑی کی یہ بات سُن کر شیر کے منہ میں پانی آگیا۔ اس نے سوچا کہ بے کار ہی ایسی چمتکاری لومڑی کو سزائے موت دی گئی۔
 ’’کیا چیز لائی جائے چمتکار دکھانے کے لئے؟‘‘ شیر نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا۔
 ’’ایک خالی صندوق اور چھوٹے چھوٹے مٹی، پتھر، لکڑی اور لوہے وغیرہ کے کچھ ٹکڑے منگوا دیجئے، سرکار۔‘‘ لومڑی نے حیرت میں غرق چرندوں، پرندوں پر نظر ڈال کر کہا۔
 ’’ٹھیک ہے! ساری چیزیں ابھی حاضر کی جاتی ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: شہنشاہ اکبر کا ایک انمول رتن

 پھر شیر نے خوش ہو کر تین چار ملازموں کو ساری چیزیں لانے کا حکم دیا۔
 ذرا سی دیر میں صندوق اور دوسری چیزیں آگئیں۔ لومڑی نے صندوق کا ڈھکن کھول کر ساری چیزیں اس کے اندر رکھ دیں۔ پھر ہونٹ ہلا ہلا کر منتر پڑھنے لگی۔
 ماحول پر سناٹا طاری تھا۔ سب کو چمتکار دیکھنے کا بے قراری سے انتظار تھا۔
 ’’مہاراج! اے انصاف کے محافظ!‘‘ لومڑی نے پُر اثر انداز سے شیر کو مخاطب کیا، ’’چمتکار کا سارا سامان تیار ہے۔ اب صرف صندوق کا ڈھکن اور بند کرنا ہے۔ ڈھکن بند ہوتے ہی ساری چیزیں مزہ دار گوشت میں تبدیل ہوجائیں گی۔ لیکن ڈھکن بند کرنے والا ایسا جانور یا پرندہ ہونا چاہئے جس نے کبھی کوئی بُرا کام نہ کیا ہو۔ بُرے کام کا مطلب تو سب ہی سمجھتے ہیں۔ جھوٹ بولنا، گالی دینا کسی کو ستانا، فریب دینا، بدسلوکی اور ناانصافی وغیرہ۔‘‘
 یہ سُن کر وہاں موجود سارے چرندے، پرندے سٹپٹا گئے۔ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ شیر مہاراج بھی دم بخود تھے۔
 تھوڑی دیر بعد لومڑی نے اپنے مخالفوں اور بدعنوان ملازموں کے نام اپنے ذہن میں تازہ کئے اور شیر سے بولی، ’’مہاراج، پہلے بندر جی کو ڈھکن بند کرنے کے لئے بلایا جائے۔‘‘
 شیر نے فوراً بندر کو ڈھکن بند کرنے کا حکم دیا مگر بندر ایسا کہاں کا نیک تھا، جو ڈھکن کو بند کرتا۔ سارے بندر مارے خوف کے تھرتھر کانپ رہے تھے۔ شیر سمجھ گیا کہ ایک بھی بندر معصوم نہیں ہے۔
 اس کے بعد لومڑی کی درخواست پر ریچھ کو طلب کیا گیا۔ مگر وہ بھی نہ جانے کتنے معصوموں کا خُون چُوس چکا تھا۔ اسی طرح ایک ایک کرکے بہت سے جانوروں اور پرندوں کو ڈھکن بند کرنے کے لئے دعوت دی گئی مگر سب ہی بُرے کام کرچکے تھے.... آخرمیں لومڑی نے اعلان کیا، ’’اگر کوئی ایک بھی ایسا حیوان ہو جو ڈھکن بند کرسکے تو شوق سے آئے اور چمتکار دیکھے۔‘‘
 لومڑی کے اس اعلان پر کوئی اور تو کون آتا خود شیر مہاراج کنّی کاٹ گئے کیونکہ وہ خود کتنے ہی جانوروں کو اپنے پیٹ کی دوزخ میں جھونک چکے تھے۔ کافی دیر بعد لومڑی نے شیر سے گمبھیر آواز میں کہا، ’’سرکار! اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے راج میں ایک بھی باسی ایسا نہیں ہے جو جرم نہ کر چکا ہو۔ آپ نے ان مجرموں میں سے کتنوں کو سزا دی ہے۔ آج تک جو مجھے ایک معصوم اور بے قصور کی جان بچانے پر سزا دے رہے ہیں؟‘‘

یہ بھی پڑھئے: ایسی شرارت نہیں کرتے

 اس پر شیر کی گردن شرم سے جھک گئی۔ نگاہ نیچی کئے ہوئے اس نے کہا، ’’جسٹس لومڑی کو باعزّت رِہا کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ ہماری سرکار میں آج بھی بہت سی بُرائیاں موجود ہیں۔ انہیں دُور کرنے کے لئے سب کو مل جل کر ایمانداری کے ساتھ کوشش کرنا چاہئے۔ اگر آج ہم میں سے ایک بھی باسی صندوق کا ڈھکن بند کرنے کا اہل ہوتا تو ہم انتہائی مفید چمتکار سے محروم نہ رہ جاتے۔ ہمیں اس چمتکار کے لئے ابھی اور انتظار کرنا ہوگا۔‘‘
چیف جسٹس لومڑی فوراً اُچک کر کٹہرے سے باہر آگئی۔ اس کا رعب داب اور وقار اب پہلے سے زیادہ بڑھ گیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK