• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جِنوں کا مکان

Updated: March 23, 2024, 2:52 PM IST | Badr Munir | Mumbai

مَیں نے ایک ڈنڈا، اور عزیز صاحب نے بندوق اور جلال صاحب نے لالٹین ہاتھ میں لے لی۔ اور اس کوٹھری کے قریب گئے۔ مگر وہاں پہنچتے ہی ہماری حیرت کی انتہا نہ رہ۔ وہاں بجائے ایک کے بیس چالیس بلیاں تھیں۔ اور بچہ کہیں نظر نہ آتا تھا۔ یہ بلیاں عام بلیوں سے بڑی تھیں۔ اور ان کی آنکھیں بھی خوفناک تھیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

آج رات کو کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اور ہم صبح ۹؍ بجے سے پہلے نہ اُٹھ سکے۔ ہمارے ملازم نے چائے کا پانی چولہے پر رکھ دیا، اور کسی ضرورت سے باہر چلا گیا۔ میرے دوست اس کی واپسی کا انتظار نہ کرسکے۔ اور خود چائے بنانے پہنچ گئے۔ مگر جب دیگچی کھولی تو اس میں دودھ اُبل رہا تھا ان کو گل فام پر سخت غصہ آیا۔ اس نے ابھی تک چائے کا پانی نہیں رکھا اتنے میں ملازم آگیا۔ وہ اس پر خفا ہونے لگے۔ اس نے کہا، ’’مَیں نے تو پانی رکھ دیا ہے، اور چائے کیلئے دودھ الگ رکھا ہے۔‘‘
 اب جو دودھ کی دیگچی دیکھتے ہیں تو اس میں پانی بھرا ہوا ہے۔ مگر اس تبادلہ سے ہمارا کچھ فائدہ ہوگیا۔ کیونکہ ہمارا دودھ تقریباً ڈیڑھ پاؤ تھا، اور دیگچی میں ڈیڑھ سیر، دو سیر کے قریب دودھ نظر آرہا تھا۔ اب پھر گل فام نے چائے کیلئے پانی رکھا۔ تھوڑی دیر بعد دیگچی کا ڈھکن خودبخود اُچھلنے لگا۔ اس سے ایسی آواز آنے لگی جیسے کہیں ہارمونیم بج رہا ہو۔ ہم نے ملازم کو منع کیا کہ ابھی دیگچی چولہے سے مت اُتارو۔ اور ہم لوگوں نے دودھ پی لیا۔ یہ بہت مزیدار اور میٹھا دودھ تھا۔ ہم نے اپنے میزبان کو یہ مزیدار تماشا دیکھنے کیلئے بلایا مگر سوائے ہمارے میزبان کے لڑکے کے اور کوئی نہ آیا۔ چنانچہ ہم لوگ تقریباً ایک گھنٹے تک باجا سنتے رہے۔ اب ہم نے دل میں خیال کیا کہ خواہ مخواہ ہر شخص ہم کو یہاں ٹھہرنے سے منع کرتا ہے۔ حالانکہ یہاں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم لوگ شکار کھیلنے چلے۔ آج ہمارے گل فام نے وہی رات کا شکار پکایا تھا۔ کھانا بڑا مزے دار تھا۔ اس لئے ہم نے سوچا کہ ان بزرگ کے لئے بھی کچھ لے چلیں جن سے رات میں ملاقات ہوئی تھی۔ چنانچہ ہم نے ایک ناشتہ دان میں کچھ کھانا رکھا اور جنگل کو روانہ ہوئے۔
 رات کا راستہ ہمیں اچھی طرح یاد تھا اور ہم لوگ گھنٹہ دو گھنٹہ میں اس جگہ پہنچ گئےجہاں ان بزرگ کی جھوپڑی تھی۔ مگر اب یہاں جھوپڑی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ ہم لوگوں نے خیال کیا کہ شاید یہ جھوپڑی کسی اور طرف ہوگی۔ متواتر تین چار گھنٹے تک ان بزرگ کو تلاش کرتے رہے مگر ان کا یا ان کی جھوپڑی کا کہیں پتہ نہیں چلا۔
 اب شام کا وقت ہو رہا تھا، اور ہم لوگ بہت تھک گئے تھے اس لئے کھانا کھانے کیلئے ناشتہ دان کھولا تو معلوم ہوا کہ وہ بالکل خالی ہے۔ خیر، صبر و شکر کرکے بیٹھ رہے پھر گھر چلے۔ راستے میں ہرن کا شکار کیا اور ہم لوگ اٹھا کر گھر لائے۔ جب گھر پہنچے تو ملازم نے ایک کاغذ دیا، یہ اُسے صحن میں پڑا ہوا ملا۔ اس میں تحریر یہ تھا کہ ’’مکان نہ چھوڑو۔ خیر، آج کی رات ہم دیکھیں گے۔‘‘ ہم نے اس پر کوئی توجہ نہ کی اور کھانا وغیرہ کھا کر سو رہے۔

یہ بھی پڑھئے: ضد تھی کہ روزہ رکھیں گے

رات کے شاید بارہ بجے ہوں گے۔ ایک کوٹھری سے میاؤں میاؤں کی آوازیں آنے لگیں۔ تھوڑی دیر تک تو ہم نے کچھ خیال نہ کیا مگر جب آوازیں بڑھتی رہیں تو ہم نے گل فام سے کہا کہ اس بلی کو بھگاؤ۔ اس نے کوٹھری میں جا کر دیکھا تو وہاں بڑی بڑی آنکھوں والی ایک بلّی بیٹھی تھی اور اس کے سامنے دو تین سال کا ایک آدمی کا بچہ پڑا ہوا تھا۔ بلی اُس کے چاروں طرف گھوم رہی تھی، اور میاؤں میاؤں کر رہی تھی۔ گل فام کچھ ڈر گیا اور واپس آکر یہ قصہ ہم سے بیان کیا۔ اس وقت میزبان صاحب کے لڑکے مصطفیٰ بھی موجود تھے۔ مگر وہ تو یہ سن کر فوراً ہی گھر چل دیئے۔ مَیں نے ایک ڈنڈا، اور عزیز صاحب نے بندوق اور جلال صاحب نے لالٹین ہاتھ میں لے لی۔ اور اس کوٹھری کے قریب گئے۔ مگر وہاں پہنچتے ہی ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہاں بجائے ایک کے بیس چالیس بلیاں تھیں۔ اور بچہ کہیں نظر نہ آتا تھا۔ یہ بلیاں عام بلیوں سے بڑی تھیں۔ اور ان کی آنکھیں بھی خوفناک تھیں اندھیرے میں ایک ہی بلی کی آنکھوں سے ڈر معلوم ہوتا ہے۔ یہاں تو پچاس ساٹھ آنکھیں چمک رہی تھیں۔ یہ منظر اس قدر خوفناک تھا کہ ہم سب کے اوسان خطا ہوگئے۔ میرے دوست جلال صاحب ذرا کمزور دل کے تھے۔ وہ ڈر کے مارے لالٹین پٹخ کر بھاگ گئے۔ اندھیرا ہوتے ہی سب بلیاں غائب ہوگئیں۔ دوبارہ روشنی کی گئی تو کوٹھری میں ایک بلی کا بھی بچہ نہ تھا۔ ہم لوگ بہت دیر تک اس واقعہ پر غور کرتے رہے۔ مگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئی۔ مجبوراً سو گئے اور رات نہایت آرام سے بسر کی۔
 صبح اٹھ کر جو دیکھتے ہیں تو بہت ہی عجیب و غریب باتیں ظہور میں آرہی تھیں۔ یعنی ہم سب کے سوٹ کیس غائب تھے۔ بندوقیں موجود تھیں مگر ان کی نالیں بالکل مڑی ہوئی تھیں۔ فرش پر کارتوس ٹوٹے پڑے تھے۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان کو کسی نے چبایا ہے اُن کے چھرّے اور گولیاں اِدھر اُدھر بکھری ہوئی تھیں۔ میری قمیص کسی نے کاٹ دی تھی۔ ہمارے دوست کے سر کے بال آدھے غائب تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کسی نے استرے سے کاٹ کر صاف کر ڈالا ہے۔ ایک صاحب کا منہ کالا کر دیا گیا تھا، اور میرے نوکر گل فام کا ایک ہاتھ غائب تھا، لوگوں کو اپنی حالت پر ہنسی بھی آرہی تھی اور غصہ بھی۔ ابھی ہم سب آپس میں گفتگو ہی کر رہے تھے کہ ایک دم میرے دوست کی نظر دیوار پر پڑی۔ وہاں کوئلے سے موٹے حرفوں میں لکھا ہوا تھا: ’’ابھی تو صرف سامان کا نقصان ہوا ہے۔ اب تمہاری جانوں کا نمبر ہے۔‘‘ یہ دیکھ میرے ایک دوست نے چلّا کر کہا، بھائی جو کوئی بھی ہو ہے بڑا بزدل۔‘‘ یہ جملہ ابھی ختم ہی ہوا تھا کہ ایک گوشے سے کرخت آواز میں جواب آیا، ’’کیا ہم بزدل ہیں۔‘‘ ’’بزدل نہیں تو کون ہو۔ اگر ہمت ہے تو سامنے آؤ۔‘‘
 ’’خیر ہمیں آپ سے لڑنا نہیں ہے۔ لیکن ہمارا جس قدر نقصان ہوا، اس کا ذمے دار کون ہے؟‘‘ مَیں کہا۔ ’’تم خود ہو۔ ہم نے پہلے ہی سمجھا دیا تھا۔‘‘ یہ سنتے ہی ہم لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ یہ تو جنگل والا شخص بول رہا ہے۔ ہو نہ ہو وہ کوئی بزرگ تھے۔ انہوں نے اس مکان میں رہنے کیلئے بھی منع کیا تھا۔
 چنانچہ ہم لوگ ایک زبان ہو کر معافی مانگنے لگے، اور کہنے لگے، ’’خیر اب تو قصور ہوا مگر آپ ہماری چیزیں واپس کر دیجئے۔ اور ان چیزوں کو ٹھیک کر دیجئے تو مکان فوراً خالی کر دیا جائے۔‘‘ ’’ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘
 ’’تو پھر آپ کو چیزیں غائب کرنا اور ان کو توڑنا پھوڑنا ہی آتا ہے۔‘‘ میرے دوست نے کہا۔ ’’دیکھو تم ضد سے باز نہیں آتے، پھر پچھتاؤ گے۔‘‘ ’’اس میں ضد کی کون سی بات ہے۔ آپ ہماری چیزیں ٹھیک کر دیجئے، اور ہم مکان خالی کر دیں۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد آواز آئی، ’’اچھا!‘‘ اور ہم لوگوں کی بندوقیں خودبخود ٹھیک ہوگئیں۔ کارتوس کا ایک بڑا پیکٹ آکر ہمارے سامنے گرا جس میں ہمارے کارتوسوں سے زیادہ تھے۔ ’’اور ہمارے سوٹ کیس کہاں ہیں۔‘‘ ہم نے پوچھا۔
 ’’بلی والی کوٹھری میں رکھے ہیں۔‘‘ گل فام اس کوٹھری میں گیا اور سامان اُٹھا لایا۔ اب پھر آواز آئی، ’’اب مکان خالی کردو۔‘‘ ’’شام تک مکان خالی کر دیں۔‘‘ ’’لیکن آپ ہیں کون؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’تم کو اس سے کیا واسطہ۔‘‘ ’’ہم آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ ’’تم نے ہم کو دیکھا ہے۔‘‘
 ’’کب؟‘‘
 ’’رات کو۔‘‘
 ’’تو کیا آپ سفید ریش بزرگ ہیں۔ جنہوں نے ہماری رہنمائی کی تھی۔‘‘
 ’’ہوں۔‘‘
 ’’تو پھر آپ سے دوستی ہے۔‘‘
 ’’جی نہیں۔‘‘
 ’’جی نہیں کے کیا معنی۔‘‘
 ’’آپ کو ہماری دعوت کرنی پڑے گی۔‘‘ میرے من چلے دوست نے کہا۔
 ’’بس خاموش رہو۔‘‘ گرجی ہوئی آواز نے کہا۔ ’’آخر دعوت میں کیا ہرج ہے؟‘‘ مَیں نے ذرا نرمی سے کہا۔
 ’’اچھا! آج شام کو تم سب کی دعوت ہے مگر دعوت کے بعد مکان خالی کر دینا۔‘‘ ہم نے وعدہ کر لیا۔ دن بھر ہم شکار کھیلے اور شام سے پہلے گھر آگئے۔ ہم نے اپنے میزبان صاحب کو بھی دعوت میں بلا لیا۔ مگر ان میں سے کوئی نہ آیا بلکہ انہوں نے ہم لوگوں کو تاکید بھی کی، کہ اگر کہیں شام کو کھانا کھا لیا تو سب کے سب مر جاؤ گے۔ مگر ہم نے ایک نہ سنی۔ اور شام ہی سے دعوت کا انتظار کرنے لگے بعد مغرب کسی نے کنڈی بجائی۔ جب ملازم نے دروازہ کھولا تو ایک اجنبی کھانا لئے کھڑا تھا۔
 کھانے میں متنجن، بریانی، فیرنی، شامی کباب، نرگسی کباب، شیر مال، مرغ مسلم، قورمہ اور ایک خاص قسم کا حلوہ تھا۔ ہم لوگوں نے پیٹ بھر کھانا کھایا۔ اور اپنے نادیدہ میزبان کا شکریہ ادا کرکے مکان خالی کر دیا۔ اور اُسی دن رات کو گھر واپس آگئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK