معروف ڈینش ادیب ہینس کرسچین اینڈرسن کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی لاسٹ ڈریم آف اولڈ اوک‘‘ The Last Dream of Old Oak کا اُردو ترجمہ
EPAPER
Updated: January 07, 2025, 5:39 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
معروف ڈینش ادیب ہینس کرسچین اینڈرسن کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی لاسٹ ڈریم آف اولڈ اوک‘‘ The Last Dream of Old Oak کا اُردو ترجمہ
گھنے جنگل کے قدرے بلند حصے لیکن ساحل کے قریب ایک پرانا شاہ بلوط (خالص یورپی درخت جس کی لکڑی سے فرنیچر بنایا جاتا ہے) کا درخت تھا۔ اس کی عمر ۳۶۵؍ سال تھی۔ ہم دن کو جاگتے اور رات کو سوتے ہیں لیکن درختوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ موسم بہار، گرما اور خزاں کے طویل دنوں کے بعد سرما میں انہیں سونے اور خواب دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ گرما کے گرم دنوں میں پرانے بلوط کے پاس ’’ایفیمیرا‘‘ (وہ مکھی جس کی زندگی صرف ایک دن کی ہوتی ہے) پھڑپھڑاتی تھیں ۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کی زندگی چند گھنٹوں کی ہے لہٰذا وہ پرانے درخت کے ساتھ خوب کھیلتیں ۔ اس کے پتوں پر آرام کرتیں ۔ درخت ہمیشہ کہتا، ’’بیچاری مخلوق! تمہاری پوری زندگی صرف ایک دن پر مشتمل ہے۔ کتنی مختصر زندگی ہے تمہاری۔ تمہیں تو اداس ہونا چاہئے۔‘‘
’’اداس! تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ مکھی ہمیشہ یہی کہتی۔ ’’میرے آس پاس کی ہر چیز حیرت انگیز طور پر روشن، گرم اور خوبصورت ہے۔ ان سے مجھے خوشی ملتی ہے۔‘‘ ’’لیکن صرف ایک دن کیلئے، اور پھر یہ سب ختم ہوجاتا ہے۔‘‘درخت کہتا۔
’’ختم!‘‘ مکھی نے دہرایا؛ ’’سب ختم ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا تم سب بھی ختم ہو گئے؟‘‘
’’نہیں ؛ تمہارے مرجانے کے ہزاروں دنوں بعد بھی مَیں زندہ رہوں گا۔ میں سارے موسم دیکھوں گا۔ میری زندگی کی طوالت کا تم اندازہ بھی نہیں لگاسکتی۔‘‘
’’مجھے تمہاری باتیں نہیں سمجھ آرہی ہیں ۔ تمہارے پاس ہزاروں دن ہیں لیکن میرے پاس ایک دن میں ہزاروں لمحات ہیں جن میں مَیں خوش ہوں ۔ کیا مرجانے کے بعد دنیا کی تمام خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے؟‘‘
’’نہیں ،‘‘ درخت نے جواب دیا۔ ’’یہ یقینی طور پر ایک طویل عرصے تک باقی رہے گی۔ اتنے طویل عرصے تک کہ میں بھی اس بارے میں اندازہ نہیں لگاسکتا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، پھر،‘‘ مکھی نے کہا، ’’ہمارے پاس جینے کا ایک جیسا ہی وقت ہے۔ لیکن ہم اس کا شمار مختلف طریقے سے کرتے ہیں ۔‘‘ اور وہ ننھی سی مخلوق رقص کرتی، ہوا میں تیرتی، رنگین اور مخملی نازک پروں کے ساتھ باغوں میں گھومتی، کھیت کھلیانوں میں اڑتی پھرتی، جنگلی گلابوں کے ساتھ قہقہے لگاتی، ہواؤں سے باتیں کرتی، شہد پر بھنبھناتی، پھولوں کی خوشبوؤں سے لطف اندوز ہوتی اور نشیلے انداز میں دن بھر یہاں وہاں بھٹکتی رہتی۔ طویل اور خوبصورت دن اس قدر خوشیوں اور لذتوں سے بھرا ہوا تھا کہ سورج ڈوبتے ہی مکھی تھک جاتی۔ اس کے پنکھوں کی پھڑپھڑاہٹ کمزور ہونے لگتی، اور وہ آہستہ آہستہ گھاس کے سبز بستر پر لیٹ جاتی، اپنے چھوٹے سے سر کو گھاس سے لگا دیتی اور سکون سے آنکھیں موند لیتی۔ اس طرح چند گھنٹوں میں اس کی موت ہوجاتی۔
’’بیچاری ایفیمیرا!‘‘ بلوط نے کہا؛ ’’کتنی مختصر زندگی ہے!‘‘ ہر موسم گرما میں بلوط کے سامنے مکھیوں کا رقص ہوتا۔ ان کے درمیان وہی سوال جواب ہوتے۔ یہ عمل ایفیمیرا کی کئی نسلوں تک جاری رہا۔ سبھی اپنی مختصر زندگی سے خوش تھیں ۔ بہار، گرما اور خزاں کا سارہ دن بلوط جاگتا رہا مگر اب اس کے آرام کا وقت آرہا تھا۔ سردیوں کی آمد آمد تھی۔ طوفانوں نے ’’شب بخیر! شب بخیر!‘‘ کا نعرہ لگانا شروع کردیا تھا۔ پتوں کے گرنے کا آغاز ہوگیا تھا۔ سرد ہوائیں درختوں سے کہتیں کہ ہم تمہاری شاخوں سے پتوں کو جدا کردیں گی۔ ہم تمہیں لوری سنائیں گی۔ اب تمہیں لمبے عرصے تک سونا ہے۔ اس لئے میٹھی نیند کی آغوش میں چلے جاؤ۔سو جاؤ۔ بلوط کے تمام پتے جھڑ گئے تھے۔ اب اس کے خواب دیکھنے کے دن تھے۔
یہ بھی پڑھئے: کار کا انتظار (او ہنری)
یہ عظیم درخت کبھی بہت چھوٹا تھا۔ انسانی حساب کے مطابق یہ درخت اپنے وجود کی چوتھی صدی میں تھا۔ یہ جنگل کا سب سے بڑا اور بہترین درخت تھا۔ اس کی چوٹی دوسرے تمام درختوں سے سب سے اوپر تھی، دور سمندر سے بھی یہ صاف نظر آتا تھا۔ ملاح اسے نشانی کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ کتنی ہی آنکھیں اسے بے تابی سے دیکھتی ہیں ۔ اس کی سب سے اونچی شاخوں میں ایک جنگلی کبوتر نے گھونسلا بنایا تھا اور ایک کوئل کی سریلی آواز اس کی گھنی شاخوں میں گونجتی رہتی تھی۔ خزاں میں جب پتے تانبے کے رنگ کے ہوجاتے تو پرندے سمندر کے پار اپنی اڑان بھرنے سے پہلے اس کی شاخوں پر آرام کرتے تھے لیکن اب موسم سرما تھا اور شاہ بلوط پتوں کے بغیر کھڑا تھا تاکہ ہر شخص دیکھ سکے کہ اس کے تنے سے نکلنے والی شاخیں کتنی ٹیڑھی اور جھکی ہوئی ہیں ۔ کوے اس کی شاخوں پر بیٹھ جاتے اور آنے والے مشکل وقت کی بات چیت کرتے کہ اب سردیوں میں خوراک کا کتنا مسئلہ ہوگا۔
کرسمس کی شام درخت نے ایک خواب دیکھا۔ خواب میں اس نے تمام گرجا گھروں سے گھنٹیاں بجنے کی آواز سنی۔ اسے احساس ہوا کہ یہ موسم گرما کا ایک خوبصورت دن ہے، ہلکا اور گرم۔ اس کی بلند چوٹیوں پر تازہ سبز پودوں کا تاج پہنایا گیا تھا۔ سورج کی کرن پتوں اور شاخوں کے درمیان کھیل رہی تھی، اور ہوا جڑی بوٹیوں اور پھولوں کی خوشبو سے بھری ہوئی تھی۔ رنگین تتلیوں نے ایک دوسرے کا پیچھا کیا۔ موسم گرما کی مکھیاں اس کے گرد رقص کررہی تھیں گویا دنیا محض ان کیلئےرقص کرنے اور لطف اندوز ہونے کیلئے بنائی گئی ہے۔ درخت نے خواب میں وہ بھی دیکھا جو اتنے برسوں میں اس کے ساتھ ہوچکا تھا۔ ماضی کے واقعات کسی فلم کی طرح اس کے سامنے چلنے لگے: اس نے پرانے زمانے کے عظیم انسانوں اور معمر خواتین کو ان کے بلند مکانوں پر اپنی لکڑیوں کے سہارے سوار ہوتے دیکھا، ان کی ٹوپیاں رنگین پروں سے مزین تھیں جبکہ ان کی کلائیوں پر خوبصورت شہباز اپنی تیز نگاہوں سے اطراف کا جائزہ لے رہے تھے۔ شکار کا ہارن بجا اور کتے بھونکنے لگے۔ اس نے مخالف سمت سے آتے جنگجوؤں کو رنگ برنگے لباس اور چمکتی ہوئی زرہ بکتر میں نیزوں کے ساتھ، اپنے یہاں لگائے خیموں پر انہیں حملہ کرتے دیکھا۔ پھر آگ بھڑک اٹھی اور لوگ گیت گاتے درخت کے نیچے سو گئے۔ ایک مرتبہ اس کے چند حصوں کو کاٹا گیا تھا جس سے گٹار اور ایسی ہی دوسری چیزیں بنائی گئی تھی۔ اچھی بات یہ تھی کہ اس سے انسانوں کو فائدہ ہوتا تھا۔ بلوط گٹار کی خوبصورت آواز سن کر جھوم اٹھتا تھا۔ جنگلی کبوتر اور کوئل کی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کرلیا اور اسے محسوس ہوا کہ گرما لوٹ آیا ہے۔ پھر یوں لگا جیسے جڑوں ، تنے اور پتوں کے ہر ریشے سے نئی زندگی سنسنی پھیلا رہی ہو، حتیٰ کہ بلند شاخیں نکل آئیں ۔ درخت نے خود کو پھلتا پھولتا محسوس کیا جبکہ زمین کے نیچے اس کی جڑوں میں زندگی کی گرمجوشی دوڑ رہی تھی۔ جیسے جیسے وہ اونچا ہوتا گیا، اس کی طاقت بڑھتی گئی اور شاخیں اوپر، اور پھر اور اوپر بڑھتی چلی گئیں ۔ اس کی نشوونما قابل رشک تھی۔ اس کے ساتھ ہی اسے خواہش ہوئی کہ خوب ترقی کرے، حتیٰ کہ گرم اور روشن سورج تک پہنچ جائے۔ اس کی سب سے اوپری شاخوں نے پہلے ہی بادلوں کو چیر لیا تھا۔ بادل اس کی شاخوں پر سفید ہنسوں کی طرح تیرتے لگتے تھے۔ ہر پتی بصارت کی دولت سے مالا مال لگتی تھی، گویا ہر پتی میں آنکھیں آگئی ہوں ، اور درخت بیک وقت کئی مناظر سے لطف اندوز ہوسکتا ہو۔ دن کی روشنی میں ستارے، بڑے اور چمکدار، صاف اور نرم آنکھوں کی طرح نظر آنے لگے۔ یہ پرانے درخت کیلئے حیرت انگیز اور خوشی کے لمحات تھے، امن اور خوشی سے پُر ؛ اور پھر بھی، اس ساری خوشی کے درمیان، درخت کو ایک تڑپ تھی۔ اس کی آرزو تھی کہ اس کے تمام ساتھی درخت جو اس قدر بلند نہیں تھے، وہ بھی اتنے بلند ہوجائیں کہ وہ سب دیکھ سکیں جو وہ دیکھ سکتا ہے۔ عظیم الشان بلوط اس خوشی میں اکیلا تھا کیونکہ اس کے باقی ساتھی اس کی طرح طاقتور اور بلند نہیں تھے۔ وہ یہ خوشی ان کے ساتھ نہیں بانٹ سکتا تھا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کیلئے اس کی تڑپ بڑھتی جاتی۔ پھر اس کے پاس جنگلی پھولوں کی خوشبو آئی۔ اسے لگا کہ اس نے کوئل کا گیت سنا ہے۔ اور پھر اس کی آرزو پوری ہوگئی۔ بادلوں کے درمیان سے جنگل کے دیگر درختوں کی سبز چوٹیاں اوپر آئیں اور بلوط نے انہیں بڑھتے اور بلند ہوتے دیکھا۔ تمام جھاڑیاں اور پودے تیزی سے بڑھ رہے تھے جیسے ان کی جڑوں میں اچانک کسی نے جادو کردیا ہو۔ ڈھیر سارے رنگ برنگے پرندے ان کی شاخوں پر آکر چہچہانے لگے اور میٹھے گیت سنانے لگے۔ شہد کی مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ، پرندے گیت گارہے تھے۔ ہلکی سرد ہواؤں میں خوشبو بسی ہوئی تھی۔ ’’لیکن وہ چھوٹا نیلا پھول کہاں ہے جو پانی کے کنارے اگتا ہے؟‘‘ بلوط نے پوچھا، ’’اور بنفشی رنگ کا بیل فلاور، اور گل داؤدی؟‘‘ بلوط ان سب کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔
’’ہم یہاں ہیں ، ہم یہاں ہیں ،‘‘ پرندوں کے گیت میں اسے آوازیں آئیں ۔ ’’لیکن پچھلی گرمیوں کی وہ خوبصورت تھائم (ایک سبز جڑ)کہاں ہے؟ اور وادی کے کنول، جنہوں نے پچھلے سال زمین کو اپنے پھولوں سے ڈھانپ دیا تھا؟ اور جنگلی سیب کا درخت اپنے خوبصورت پھولوں کے ساتھ، اور جنگل کی ساری خوبصورتی جو سال بہ سال پھلتی پھولتی ہے؟ وہ چھوٹے پودے جو ابھی زمین سے نکلے ہیں ، وہ کہاں ہیں ؟‘‘
’’ہم یہاں ہیں، ہم یہاں ہیں،‘‘ ہوا میں اونچی آوازیں سنائی دیں ۔بلوط نے خوشی سے بھرے لہجے میں کہا، ’’یہ سب اتنا خوبصورت کیوں ہے، مجھے یقین نہیں ہورہا ہے۔ میرے ساتھ سبھی اتنی بلندی پر آگئے ہیں ۔ کوئی بھی نیچے نہیں رہ گیا ہے۔ کیا ایسی خوشی کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟‘‘ پرانے شاہ بلوط کو یہ سب ناممکن لگ رہا تھا۔ ’’جس زمین کا مالک خدا ہے، وہاں سب ممکن ہے۔‘‘ ہوا نے جواب دیا۔اور بوڑھا شاہ بلوط جو اب بھی اوپرکی جانب اور آگے بڑھ رہا تھا اسے محسوس ہوا کہ اس کی جڑیں زمین سے ڈھیلی ہو رہی ہیں ۔
شاہ بلوط نے کہا، ’’یہ ٹھیک ہے۔ یہ بہتر ہے۔ مجھے کوئی زنجیر نہیں روک سکتی۔ میں روشنی اور خوبصورتی میں انتہائی بلند مقام تک اُڑ سکتا ہوں ۔ میں سب سے محبت کرتا ہوں ۔ میرے ساتھ چھوٹے بڑے تمام پودے ہیں ۔ سب میرے پاس ہیں ۔‘‘
یہ پرانے بلوط کا خواب تھا۔ اور جب وہ خواب دیکھ رہا تھا، ایک زبردست طوفان تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ تیزی سے ساحل کی طرف لپکا۔ شاہ بلوط میں پھٹنے اور کچلنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔ اس کی جڑ اسی لمحے زمین سے اکھڑگئی تھی جب اس نے خواب دیکھا تھا کہ اسے زمین سے ڈھیلا کیا جا رہا ہے اور وہ اُڑ رہا ہے۔ پھر وہ پرانا درخت ایک زور دار آواز کے ساتھ گر گیا۔
اس کے ۳۶۵؍ سال ایفیمیرا کے ایک دن کے طور پر گزر گئے۔ کرسمس کی صبح جب سورج طلوع ہوا تو طوفان تھم گیا۔ تمام گرجا گھروں نے تہوار کی گھنٹیاں بجائیں اور ہر چولہے سے دھواں نیلے آسمان میں اُٹھ رہا تھا۔ گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں خوشی کا ماحول تھا۔ سمندر دھیرے دھیرے پرسکون ہو گیا، اور ایک عظیم بحری جہاز پر جس نے رات کے طوفان کا مقابلہ کیا تھا، خوشی اور جشن کی علامت کے طور پر پرچم بلند کئےگئے۔
’’درخت گرگیا ہے! پرانا شاہ بلوط۔ ساحل پر ہمارا تاریخی نشان!‘‘ ایک ملاح نے چیخ کر کہا۔ ’’یہ رات کے طوفان میں گرا ہوگا۔ اس کی جگہ کون سا درخت لے سکتا ہے؟ یقیناً ! کوئی نہیں ۔‘‘ یہ پرانے درخت کے مرنے پر کی جانے والی ایک مختصر تقریر تھی۔ درخت برف سے ڈھکے ساحل پر پھیلا ہوا تھا۔ بحری جہاز سے ایک گیت کی آواز آرہی تھی۔ یہ کرسمس کی خوشی کا گانا تھا۔ نئی روح پھونک دینے کا نغمہ۔ نئی زندگی عطا کرنے کا گیت۔ جس میں مسیح کی مدح سرائی کی جارہی تھی۔ جہاز پر سوار ہر ایک یہی گانا گا رہا تھا اور نئی زندگی کی دعا کررہا تھا۔ قدیم شاہ بلوط نے اپنے آخری وقت میں یہی محسوس کیا تھا کہ اسے نئی زندگی مل گئی ہے اور وہ ہوا میں اُڑ رہا ہے۔
قدیم شاہ بلوط کا کرسمس کی صبح یہ خوبصورت خواب تھا۔ نئی زندگی عطا کر دینے والا آخری خواب۔