• Thu, 16 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: کار کا انتظار

Updated: August 11, 2023, 8:32 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف امریکی ادیب او ہنری کی شہرۂ آفاق کہانی ’’وہائل دی آٹو ویٹس‘‘ While The Auto Waits کا اُردو ترجمہ

Photo: INN
تصویر: آئی این این

جیسے ہی سورج نے اپنی کرنیں سمیٹنا شروع کی، شہر کے سب سے پرسکون علاقے کے خاموش چھوٹے سے پارک کے ایک خاموش کونے میں سرمئی رنگ کا لباس پہنے وہ لڑکی پھر آگئی۔ وہ گزشتہ روز بھی یہاں آئی تھی، اور آج بھی پارک کے اسی بینچ پر بیٹھی تھی جس پر کل بیٹھی تھی۔ اسے بینچ پر بیٹھ کر کتاب پڑھتے ہوئے ڈوبتے سورج کو دیکھنا پسند تھا۔ جب تک سورج مکمل طور پر غروب نہیں ہوجاتا، وہ وہیں بیٹھی مطالعہ میں غرق رہتی۔ اس کے چہرے پر معصومیت تھی۔ خوبصورت لباس بھی اس کی سادگی کو چھپا نہیں پاتا تھا۔ اس نے جالی دار ٹوپی پہنی ہوئی تھی جس کی جالیاں اس کے چہرے پر لٹکی ہوئی تھیں ، یعنی اس کا چہرہ واضح طور پر نظر نہیں آتا تھا۔ اسے ایک جالی دار نقاب ضرور کہا جاسکتا تھا۔ ڈوبتے سورج کی روشنی جب اس کی جالی دار ٹوپی پر پڑتی تو اس کے چہرے پر خوبصورت نقوش بن جاتے، جیسے کسی ماہر نقاش نے اس کے چہرے پر نقشی بنادی ہو۔ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ پارک میں کوئی اور بھی تھا جو یہ جانتا تھا کہ یہ لڑکی کل بھی اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھی۔ 
نوجوان اسے دلچسپی دیکھ رہا تھا۔ لڑکی دنیا سے بے خبر اپنی کتاب میں مگن تھی۔ نوجوان جاننا چاہتا تھا کہ آخر وہ کون سی کتاب پڑھتی ہے جو اپنے اطراف سے اس قدر بےخبر ہوجاتی ہے۔ اس نے تہیہ کرلیا کہ آج اسے اس کتاب کے بارے میں لڑکی سے ضرور پوچھنا چاہئے۔ وہ ابھی قریب ہی پہنچا تھا کہ لڑکی کے ہاتھ سے کتاب پھسل کر اس کے قدموں میں جاگری۔ نوجوان نے فوراً کتاب اٹھائی اور لڑکی کے حوالے کردی۔ لڑکی نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک شریف نوجوان نظر آرہا تھا۔ وہ ایسا نوجوان تھا جو خواتین کا احترام کرتا تھا۔ 
لڑکی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور مہذب انداز میں کہا، ’’اگر آپ چاہیں تو یہاں بیٹھ سکتے ہیں ۔‘‘ 
’’لیکن مَیں یہاں بیٹھ کر باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ ویسے بھی کم روشنی میں کتاب پڑھنے سے آنکھیں خراب ہوجاتی ہیں ۔‘‘ نوجوان نے خوشدلی سے کہا۔ 
لڑکی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لوگ ان کے سامنے سے گزر رہے تھے جنہیں دیکھ کر نوجوان نے کہا ’’لوگوں کو دیکھنا کافی دلچسپ ہے۔ دراصل یہ زندگی کا ایک شاندار ڈراما ہے۔ کچھ رات کے کھانے پر جا رہے ہیں اور کچھ کہیں اور۔ شاید مَیں ان کی زندگیوں اور ان کی پریشانیوں کے متعلق جان سکتا۔‘‘ 
’’مَیں ان کے متعلق متجسس نہیں ہوں ۔ مجھے یہاں بیٹھ کر کتابیں پڑھنا پسند ہے۔ مجھے سادہ لوگ پسند ہیں ۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ میں نے تمہیں یہاں بیٹھنے کی دعوت کیوں دی ہے!‘‘ 
’’میرا نام پارکن اسٹیکر ہے۔‘‘ نوجوان نے کہا۔ 
لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’تم نے میری مدد کی، اور میں نے تمہیں یہاں بیٹھنے کی اجازت دی۔ تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں ، اور میں نے ایسی نقاب نما ٹوپی کیوں پہنی ہوئی ہے۔ مَیں پارک میں اس لئے آتی ہوں کہ مجھے عام انسانوں سے بات چیت کرنا پسند ہے۔ میں ایسے کسی شخص سے بات کرنا چاہتی ہوں جو دولت کی حقیر چمک اور سماجی برتری سے بے نیاز ہو۔ تم نہیں جانتے کہ میں مشہور اور امیر لوگوں سے کس قدر پریشان ہوچکی ہوں ۔ ہر وقت دولت کی باتیں کرنا مجھے پسند نہیں ہے۔ مجھے ایسی چیزیں بالکل پسند نہیں ہیں ۔‘‘
نوجوان نے ہچکچاتے ہوئے کہا، ’’مجھے ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ دولت ایک اچھی چیز ہے۔‘‘ 
 ’’دولت ایک ایسی خواہش ہے جس کی تکمیل کیلئے لوگ مقابلہ کرتے ہیں ۔ لیکن میں ایسی نہیں ہوں ۔ وقت آیا تو میں لاکھوں ڈالر یونہی ٹھکرا دوں گی۔‘‘ لڑکی نے عزم کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے چہرے پر مایوسی تھی، اس نے پھر کہا ’’دنیا پر دولت کی اجارہ داری ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان، ان سب پر اب دولت حاوی ہوچکی ہے۔‘‘ 
پارکن اسٹیکر اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا، پھر اس نے کہا، ’’مجھے ہمیشہ ہی سے دولتمند اور فیشن ایبل لوگوں کے طریقوں کے بارے میں پڑھنے اور سننے کا تجسس رہا ہے۔ لیکن تم مجھے ایک الگ ہی کہانی سنا رہی ہو۔‘‘ 
لڑکی نے کھنکتا ہوا قہقہہ لگایا۔
’’تمہیں معلوم ہونا چاہئے،‘‘ اس نے نرم لہجے میں وضاحت کی، ’’کہ ہم غیر مفید طبقے کے لوگ اپنی تفریح کیلئے ہمارے اجداد پر انحصار کرتے ہیں ۔ انواع اقسام کے کھانے اور مشروبات ہمارا جنون ہیں ۔ محلوں میں رہنے والے شہزادے، شہزادیوں کے خواب دیکھتے ہیں اور شہزادیاں ، شہزادوں کے۔‘‘
’’اوہ!‘‘ نوجوان نے عاجزی سے اعتراف کیا۔ ’’لیکن امیروں کی اندرونی زندگیوں پر عام لوگوں کی نظریں نہیں ہوتیں ۔ اس لئے ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا چل رہا ہے۔‘‘ 
 لڑکی نے اپنی بات آگے بڑھائی، ’’میری پرورش اسی انداز میں ہوئی ہے کہ مجھے صرف بڑے خواب دیکھنے کی آزادی ہے۔ میں چھوٹے خواب نہیں دیکھ سکتی۔ میرے طبقے نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا ہے کہ مجھے کسی شہزادے سے شادی کرنی ہے۔ مجھے کس انداز میں سو کر اٹھنا ہے اور کس انداز میں سونے کی تیاری کرنی ہے، یہ بھی سکھا دیا گیا ہے۔ یہی نہیں ، میری حرکات و سکنات پر ہمیشہ نظر بھی رکھی جاتی ہے۔ تم نہیں جانتے کہ کتنے پاپڑ بیلنے کے بعد مَیں اس پارک میں چند منٹ اپنی مرضی سے گزارنے آتی ہوں ۔ تمہیں یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ میرے لئے جرمنی اور برطانوی شہزادوں کے رشتے آئے ہیں ۔ مگر مجھے ان سے شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مَیں اس بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتی۔ مَیں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنا چاہتی ہوں ۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: پہاڑی موسیقی (ساکی)

پارکن اسٹیکر نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا، ’’مجھے تمہارے اس اعتماد پر رشک ہورہا ہے۔‘‘ 
لڑکی نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ سمجھ گئی کہ دولت اور دولت مندوں کے بارے میں ان دونوں کی آراء مختلف ہیں ۔ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ 
’’تم کیا کرتے ہو، مسٹر پارکن اسٹیکر؟‘‘ لڑکی نے اپنی کتاب بند کرتے ہوئے پوچھا۔
’’مَیں کوئی بڑا کاروباری نہیں ہوں ۔ لیکن مجھے امید ہے کہ ایک دن دنیا میں میرا نام ہوگا۔ تاہم، میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا تم تمام آسائشیں چھوڑ کر واقعی ایک عام زندگی بسر کرنا چاہتی ہو؟‘‘ 
’’یہ حقیقت ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے؟‘‘ لڑکی کے لہجے کی مضبوطی برقرار رہی۔ 
’’مَیں ایک ریستوراں میں کام کرتا ہوں ۔‘‘ پارکن اسٹیکر نے جھجکتے ہوئے کہا۔ 
لڑکی نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 
’’ویٹر کے طور پر نہیں بلکہ کیشئر کے طور پر!‘‘ اس نے سڑک کے سامنے روشنی میں نہائے ایک ریستوراں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی۔ 
لڑکی نے اپنی بائیں کلائی پر خوبصورت ڈیزائن والے کڑے میں لگی گھڑی کو دیکھا، اور جلدی سے اٹھ گئی۔ اس نے اپنی کتاب کو کمر سے لٹکے ایک چمکدار جالی دار بیگ میں ڈالا مگر بیگ چھوٹا تھا اورکتاب بڑی۔ 
’’تو تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔
’’ میری شفٹ رات میں شروع ہوگی۔‘‘ نوجوان نے کہا۔ ’’اسے شروع ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے۔ کیا تم سے دوبارہ ملاقات ہوسکتی ہے؟ ‘‘ 
’’مجھے نہیں معلوم مگر کتاب پڑھنے کی خواہش مجھے یہاں دوبارہ لے آئی تو شاید ہماری ملاقات ہوجائے۔ مجھے ابھی چلنا چاہئے۔ ایک ڈنر پارٹی ہے، اور پھر ایک ڈراما دیکھنے جانا ہے۔ پارک میں آتے وقت شاید تم نے میری کار دیکھی ہو، سفید رنگ کی۔‘‘ 
’’جس کا گیئر سرخ رنگ کا ہے؟‘‘ نوجوان نے اپنی بھنوؤں کو اٹھاتے ہوئے کہا۔ 
’’ہاں ۔ میں ہمیشہ اسی کار سے آتی ہوں ۔ ڈرائیور وہاں کھڑا میرا انتظار کرتا رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں چوک کے ڈپارٹمنٹ اسٹور میں خریداری کر رہی ہوں ۔ تم ایسی زندگی کا تصور کرو جہاں ہمیں اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کیلئے ڈرائیوروں کو بھی جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ اچھا میں چلتی ہوں ۔ شب بخیر۔‘‘
’’لیکن اندھیرا ہوگیا ہے،‘‘ پارکن اسٹیکر نے کہا، ’’اور پارک میں بدتمیز مرد بھی ہیں ۔ میں تمہیں تمہاری کار تک چھوڑ آتاہوں ۔‘‘ 
لڑکی نے مضبوطی سے کہا، ’’اگر تم چاہتے ہو کہ میں کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوں تو تم یہیں بیٹھے رہو، اور میرے جانے کے دس منٹ بعد اس بینچ سے اٹھنا۔ اگر ڈرائیور نے تمہیں میرے ساتھ دیکھ لیا تو میری مشکلات کافی بڑھ جائیں گی۔ شب بخیر۔‘‘
سورج ڈوب چکا تھا۔ وہ لڑکی باوقار انداز میں اٹھی اور تیزی سے پارک کے گیٹ کی طرف بڑھنے لگی۔ نوجوان اسے جاتا دیکھتا رہا۔ وہ پارک کے کنارے بنے فٹ پاتھ پر پہنچ گئی اور پھر اپنی کار کی طرف بڑھنے لگی۔ لڑکے نے پارک کی جھاڑیوں میں چھپتے ہوئے اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔ وہ لڑکی پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ جب لڑکی کونے پر پہنچی تو اس نے سفید کار پر ایک نظر ڈالی اور پھر سڑک پار کرکے آگے بڑھ گئی۔ لڑکا اس پر برابر نظر رکھے ہوئے تھا۔ پھر لڑکی سڑک کے پار روشنی میں نہائے اسی ریستوراں میں داخل ہوگئی جس کا حوالہ لڑکے نے کچھ دیر پہلے دیا تھا۔ لڑکا لڑکی کی یہ تمام حرکات دیکھ رہا تھا۔ یہ ایک ایسا ریستوراں تھا جہاں تمام طبقات کے لوگ اپنی جیب پر زیادہ بوجھ ڈالے بغیر کھانا کھاسکتے تھے۔ لڑکی ریستوراں کے عقبی حصے میں چلی گئی اور کچھ ہی دیر میں اپنی نقاب نما ٹوپی کے بغیر باہر نکلی۔ 
کیشئر کی میز بالکل سامنے تھی۔ ایک سرخ ٹوپی والی لڑکی نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرمئی لباس والی لڑکی کو دیکھا، اور پھر سرمئی لباس والی لڑکی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ 
نوجوان بھی پارک سے نکل آیا۔ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالے وہ آہستہ آہستہ فٹ پاتھ پر چل رہا تھا۔ پھر وہ پارک کے کونے میں کھڑی کار کے پاس پہنچا۔ تبھی اس کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا۔ اس نے نیچے دیکھا تو ایک کتاب پڑی تھی جس کا کور کافی دلکش تھا۔ لڑکے نے کتاب پہچان لی۔ یہ اسی لڑکی کی کتاب تھی۔ 
اس نے لاپروائی سے کتاب اٹھائی اور دیکھا۔ 
 اس کا عنوان ’’نیو عربین نائٹس‘‘ (نئی الف لیلیٰ) تھا جس کے مصنف رابرٹ اسٹیونسن تھے۔ وہ کچھ دیر تک کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا پھر اس نے کتاب وہیں رکھ دی جہاں سے اٹھائی تھی۔ ریستوراں کی طرف دیکھتے ہوئے وہ چند منٹوں تک بے فکری سے وہیں کھڑا رہا۔ پھر سفید رنگ اور سرخ گیئر والی شاندار گاڑی میں بیٹھ گیا اور ڈرائیور سے کہا: ’’کلب، ہنری۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK