• Thu, 16 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: بُلبُل اور گلاب

Updated: September 15, 2023, 3:20 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف آئرش ادیب آسکر وائلڈ کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی نائٹ اینگل اینڈ دی روز‘‘ The Nightingale and The Roseکا اُردو ترجمہ

Photo. INN
تصویر:آئی این این

’’اُس نے کہا کہ اگر میں اُس کیلئے سرخ گلاب لاؤں تو وہ میرے ساتھ رقص کرے گی،‘‘ نوجوان طالب علم نے زور سے کہا، ’’مگر میرے باغ میں سرخ گلاب نہیں ہے۔‘‘
شاہ بلوط کے درخت پر بنے گھونسلے سے بلبل نے حیرانی سے باہر دیکھا۔
’’میرے باغ میں سرخ گلاب نہیں ہے!‘‘ اس نے رونے والے انداز میں کہا۔ اس کی خوبصورت آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔ ’’آہ! خوشی کا دارومدار چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہے! مَیں نے داناؤں اور فلسفیوں کی ساری کتابیں پڑھ لی ہیں لیکن ایک سرخ گلاب کی کمی سے میری زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔‘‘’’شاید یہ لڑکا سچ مچ اس لڑکی سے محبت کرتا ہے اس لئے اداس ہے،‘‘ بلبل نے خود کلامی کی۔ ’’ہر رات مَیں نے اس کیلئے میٹھے گیت گائے حالانکہ مَیں پہلی بار اسے دیکھ رہی ہوں ۔ اس کے بال گہرے سیاہ اور ہونٹ سرخ ہیں بالکل اسی گلاب کی طرح جس کی اسے جستجو ہے لیکن مایوسی نے اس کے چہرے پر زردی بکھیر دی ہے۔ غم نے اس کی پیشانی پر مہر لگا دی ہے۔‘‘
’’ کل رات شہزادے کے ہاں رقص ہے،‘‘ نوجوان طالب علم بڑبڑایا، ‘‘ وہ بھی وہاں ہوگی۔ اگر مَیں اس کیلئے سرخ گلاب لے جاؤں تو وہ میرے ساتھ رقص کرے گی لیکن باغ میں سرخ گلاب نہیں ہے اسلئے میرے ساتھ کوئی رقص نہیں کرے گا۔ سب خوش ہوں گے اور میں اپنا ٹوٹا دل لئے ایک جگہ خاموش اور مایوس بیٹھا رہوں گا۔‘‘ 
’’یہ لڑکا واقعی اداس ہے۔‘‘ بلبل نے کہا۔ ’’میرے نغموں سے اسے خوشی نہیں ملے گی۔ جو میرے لئے خوشی ہے وہ اس کیلئے غم ہے۔ یقیناً محبت ایک حیرت انگیز چیز ہے۔ یہ زمرد سے زیادہ قیمتی ہے۔ موتیوں سے اسے خریدا نہیں جاسکتا۔ اسے بازار میں فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی تاجر اسے خرید نہیں سکتا۔ اسے سونے میں تولا نہیں جاسکتا۔‘‘
’’موسیقار اپنی گیلری میں بیٹھیں گے،‘‘ طالب علم نے پھر کہا، ’’اور اپنے تاروں پر دھنیں چھیڑیں گے، اور سبھی بربط اور وائلن کی موسیقی پر رقص کریں گے۔ وہ بھی وہاں ہوگی جو کسی اور کے ساتھ رقص کررہی ہوگی۔ وہ میرے ساتھ رقص نہیں کریگی کیونکہ میرے پاس سرخ گلاب نہیں ہے۔ ‘‘اور پھر وہ گھاس پر گر کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگا۔
’’وہ کیوں رو رہا ہے؟‘‘ ایک سبز چھپکلی نے پوچھا۔ ’’پتہ نہیں ؟‘‘ سورج کی کرنوں سے کھیلتی تتلی نے کہا۔’’پتہ نہیں ؟‘‘ گل داؤدی نے دھیمی آواز میں پڑوسی پھول سے کہا۔
’’وہ سرخ گلاب کیلئے رو رہا ہے۔‘‘ بلبل نے کہا۔’’سرخ گلاب کیلئے؟‘‘ سب نے بیک زبان کہا، ’’یہ مضحکہ خیز ہے۔‘‘ سبز چھپکلی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
لیکن بلبل نے طالب علم کے غم کو جان لیا تھا۔ وہ بلوط کے درخت پر خاموش بیٹھی محبت کےبارے میں سوچنے لگی۔
اچانک اس نے اپنے بھورے پنکھوں کو پرواز کیلئے پھیلایا اور ہوا میں اُڑ گئی۔ وہ سائے کی طرح اڑتی ہوئی باغ کے پار چلی گئی۔
گھاس کےبیچ ایک خوبصورت گلاب کا پودا تھا۔ بلبل نے اسے دیکھا تو اس کے پاس آگئی۔ ’’مجھے ایک سرخ گلاب دو،‘‘ بلبل نے پکارا، ’’میں تمہیں اپنا سب سے میٹھا گیت سناؤں گی۔‘‘ پودے نے کہا، ’’میرے گلاب سفید ہیں ۔ سمندر کے جھاگ کی طرح سفید، اور پہاڑ کی برف سے زیادہ سفید۔ تم میرے بھائی کے پاس جاؤ جو پرانی گھڑی کے پاس ہے، شاید وہ تمہاری مدد کرسکے۔‘‘ 
چنانچہ بلبل گلاب کے اس پودے کی طرف اڑ گئی جو پرانی گھڑی کے پاس تھا۔ ’’مجھے ایک سرخ گلاب دو،‘‘ بلبل نے کہا، ’’میں تمہیں اپنا سب سے میٹھا گیت سناؤں گی۔‘‘ پودے نے کہا، ’’میرے گلاب زرد ہیں ۔ بالکل کسی جل پری کے بالوں کی طرح۔ زرد گھاس سے بھی زیادہ زرد۔ تم میرے بھائی کے پاس جاؤ جو طالب علم کی کھڑکی کے نیچے ہے، شاید وہ تمہاری مدد کرے۔‘‘ 
چنانچہ بلبل اڑ کر گلاب کے اس پودے کے پاس گئی جو طالب علم کی کھڑکی کے نیچے تھا۔’’مجھے ایک سرخ گلاب دو،‘‘ اس نے کہا، ’’میں تمہیں اپنا سب سے میٹھا گیت سناؤں گی۔‘‘ پودے نے کہا، ’’میرے گلاب سرخ ہیں ، کبوتر کے پنجوں کی طرح سرخ۔ سمندروں اور غاروں میں پائے جانے والے مرجان سے بھی زیادہ سرخ لیکن موسم سرما نے میری رگوں کو جما دیا ہے۔ سردی نے میری کلیوں کو نچوڑ دیا ہے۔ طوفان نے میری شاخوں کو توڑ دیا ہے۔ فی الحال میرے پاس سرخ گلاب نہیں ہے۔‘‘ ’’مجھے صرف ایک سرخ گلاب چاہئے،‘‘ بلبل نے کہا، ’’صرف ایک سرخ گلاب! کیا کوئی راستہ نہیں ہے؟‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: کیڈی لاک کا مالک (رولڈ ڈاہل)

’’ایک راستہ ہے،‘‘ پودے نے کہا۔ ’’لیکن یہ اتنا خوفناک ہے کہ میں تمہیں بتانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔‘‘
’’مجھے بتاؤ! مَیں نہیں ڈرتی۔‘‘ بلبل نے عزم کا اظہار کیا۔ 
پودا کہنے لگا، ’’اگر تمہیں سرخ گلاب چاہئے تو تمہیں چاندنی میں اپنا سب سے میٹھا گیت گانا ہوگا جس سے میری شاخوں سے گلاب نکلے گا۔ تم اسے اپنے دل کے سرخ خون سے رنگ دینا۔ تمہیں اپنے سینے کو میرے کانٹوں سے لگانا ہوگا۔ تم رات بھر میرے لئے نغمہ گاؤ اور میرا کانٹا تمہارے دل میں اترتا چلا جائے گا۔ تمہاری زندگی کا خون میری رگوں میں بہے گا، اور وہ میرا بن جائیگا۔‘‘ 
’’ایک سرخ گلاب کی قیمت ادا کرنے کیلئے موت بہت بڑی قیمت ہے،‘‘ بلبل نے کہا، ’’اور زندگی سبھی کو عزیز ہے۔ سبز ٹہنیوں پر بیٹھ کر سورج کی زرد اور نارنجی کرنوں کو سینکنا، موتی کی طرح چمکتا چاند، پتوں اور پھولوں کی میٹھی خوشبو اور وادیوں میں اڑتے حسین پرندوں کو دیکھنا ایک خوشگوار احساس ہے مگر محبت زندگی سے بہتر ہے، اور انسان کے دل کے مقابلے پرندے کے دل کی کیا حیثیت۔‘‘ 
لہٰذا بلبل نے اپنے بھورے پنکھوں کو پرواز کیلئے پھیلایا، اور ہوا میں اُڑ گئی۔ وہ ایک سائے کی طرح باغ سے گزری اور شاہ بلوط پر اپنی مخصوص جگہ پر آ بیٹھی۔ 
نوجوان طالب علم اب بھی گھاس پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں کے آنسو اب تک خشک نہیں ہوئے تھے۔
’’خوش ہوجاؤ،‘‘ بلبل نے کہا، ’’تمہیں سرخ گلاب ملے گا۔ میں اسے چاندنی میں اپنے نغموں سے بناؤں گی اور اسے اپنے دل کے خون سے سرخ کر دوں گی۔ بدلے میں مَیں تم سے بس یہی مانگوں گی کہ کبھی کسی کا دل نہیں توڑنا، چاہے وہ ذی روح ہو یا نہ ہو۔ ہمیشہ محبت کرنا اور ایک اچھا انسان بن کر جینا۔ محبت فلسفے سے زیادہ گہری ہے۔ طاقت سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس کے پَر شوخ رنگوں کے ہیں ، اس کا جسم شعلوں کی طرح ہے۔ اس کے ہونٹ شہد کی طرح میٹھے ہیں اور اس کی سانس لوبان کی خوشبو جیسی ہے۔‘‘ 
طالب علم گھاس پر لیٹا اشکبار آنکھوں سے بلبل کو دیکھ رہا تھا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اتنا خوبصورت پرندہ کیا کہہ رہا ہے کیونکہ وہ صرف کتابوں میں لکھی باتیں جانتا تھا مگر شاہ بلوط کا درخت سمجھ گیا، اور غمگین ہوگیا کیونکہ وہ اس بلبل کو پسند کرتا تھا جس نے اس کی شاخوں میں آشیانہ بنایا تھا۔’’مجھے ایک آخری گیت سناؤ۔‘‘ اس نے سرگوشی کی، ’’جب تم چلی جاؤ گی تو مَیں بہت تنہا محسوس کروں گا۔‘‘
چنانچہ بلبل نے بلوط کیلئے ایک گیت گایا۔اس کی آواز چاندی کے برتن میں گرنے والے پانی کی طرح خوبصورت تھی۔
جب اس نے اپنا گیت ختم کیا تو طالب علم اٹھ گیا اورآنسو پونچھتا اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔ وہاں اپنے بستر پر لیٹ کر روتے روتے سوگیا۔ 
جب آسمان پر سال کا سب سے روشن اور مکمل چاند چمکا تو بلبل گلاب کے پودے کے پاس آگئی اور اپنے سینے کو اس کے کانٹے سے لگا کر گیت گانا شروع کردیا۔ سرد چاند اپنی کرنوں کو بکھیرتے ہوئے اس کا گیت سنتا رہا۔ وہ گاتی رہی اور کانٹا اس کے سینے میں اترتا گیا۔ بلبل کا خون کانٹے کے ذریعے پودے میں منتقل ہوتا رہا۔ اس نے پہلی مرتبہ کسی کی محبت کیلئے گیت گایا تھا۔ اور پھر پودے کی سب سے اوپری شاخ پر ایک شاندار گلاب کھلا۔ پنکھڑیاں در پنکھڑیاں مگر اس کا رنگ سفید تھا۔ ہلکا سفید۔ ہلکی صبح کی طرح سفید۔ پانی میں پڑنے والی چاندنی کی طرح سفید۔ پودے نے بلبل کو پکارا کہ ’’اپنے سینے میں کانٹے کو اتارو۔ اور گہرائی میں ۔ پیاری بلبل! اور گہرائی میں ۔ ورنہ دن طلوع ہوجائے گا اور سرخ گلاب تیار نہیں ہوسکے گا۔‘‘ 
لہٰذا بلبل نے اپنے سینے میں اچھا خاصا کانٹا اتار لیا اور پوری قوت سے گیت گاتی رہی۔ پودے نے پھر پکارا، ’’اور گہرائی میں اتارو، ورنہ گلاب کا رنگ سرخ نہیں ہوگا اور دن طلوع ہوجائے گا۔‘‘ لہٰذا بلبل نے پورا کانٹا اپنے سینے میں اتار لیا۔ وہ درد کی شدت سے کراہنے لگی۔ اسے بہت درد ہورہا تھا مگر اس نے اپنا گیت جاری رکھا۔ بلبل نے اُس محبت کیلئے گایا جو اس کی موت ہی سے پوری ہوسکتی تھی۔ پھر اس شاندار گلاب کا رنگ قرمزی ہوگیا۔ مشرقی آسمان کی طرح سرخ ۔ یاقوت کی طرح سرخ۔ گہرا سرخ۔ لیکن بلبل کی آواز دم توڑنے لگی۔ اس کے چھوٹے پَر درد کی شدت سے پھڑکنے لگے۔ اس آنکھوں کے سامنے بیک وقت کئی منظر گھوم گئے۔ اس پر غشی طاری ہوگئی اور اسے لگا کہ کوئی چیز اس کا گلا دبا رہی ہے۔ پھر اس کے حلق سے آخری آواز نکلی۔ سفید چاند نے اسے سن لیا۔ وہ صبح کو بھول کر آسمان سے بلبل ہی کو دیکھتا رہ گیا۔ سرخ گلاب نے اسے سنا، اور خوشی سے کانپ اٹھا، پھر اپنی پنکھڑیوں کو صبح کی ٹھنڈی ہوا میں کھول دیا۔ بازگشت نے اس کی آخری آواز کو پہاڑیوں میں ارغوانی غاروں تک پہنچایا اور سوئے ہوئے چرواہوں کو ان کے خوابوں سے جگایا۔ یہ آواز دریا اور اس کے کنارے موجود درختوں پر تیرتی ہوئی نیلگوں سمندر تک پہنچ گئی۔ بلبل کی محبت کا پیغام ہر طرف پھیل گیا۔
’’دیکھو، دیکھو!‘‘ گلاب کے پودے نے پکارا، ’’گلاب مکمل ہوگیا ہے،‘‘ لیکن بلبل کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا کیونکہ وہ لمبی گھاس میں مردہ پڑی تھی اور اس کے دل میں ایک کانٹا گہرائی تک چبھا ہوا تھا۔
دوپہر کو طالب علم نے کھڑکی کھولی۔ ’’واہ! میری شاندارقسمت !‘‘ وہ خوشی سے چیخ اٹھا، ’’مَیں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا گلاب نہیں دیکھا ہے۔ اس کی خوبصورتی سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اسے پودے نے کافی محنت اور محبت سے پالا ہے۔‘‘ اور اس نے نیچے جھک کر سرخ گلاب کو ٹہنی سے توڑ لیا۔ 
پھر اس نے ٹوپی پہنی اور ہاتھ میں گلاب لئے پروفیسر کے گھر کی طرف بھاگا۔پروفیسر کی بیٹی دروازے کے پاس رکھی کرسی پر نیلے رنگ کا ریشمی لباس پہنے بیٹھی تھی۔ 
’’تم نے کہا تھا کہ اگر میں تمہارے لئے ایک سرخ گلاب لاؤں تو تم میرے ساتھ رقص کروگی،‘‘ طالب علم نے کہا۔ ’’یہ دنیا کا سرخ ترین گلاب ہے۔ تم آج شام اسے اپنے دل کے قریب لگانا اور میرے ساتھ رقص کرنا۔‘‘لڑکی نے بھنویں سکوڑتے ہوئے کہا، ’’یہ گلاب میرے لباس کے رنگ سے میل نہیں کھاتا، اور ویسے بھی شہزادے نے میرے لئے کچھ زیورات بھیجے ہیں ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ زیورات کی قیمت پھولوں سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘
’’تم ایک ناشکری لڑکی ہو۔‘‘ طالب علم نے غصے سے کہا۔ اور اس نے گلاب کو گلی میں پھینک دیا جہاں وہ گٹر کے قریب گرا اور ایک گاڑی کا پہیہ اس پر سے گزر گیا۔’’ناشکری!‘‘ لڑکی نے کہا۔ ’’تم بدتمیز ہو۔ تم آخر ہو کون؟ صرف ایک طالب علم۔ تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ اور وہ گھر میں چلی گئی۔
’’محبت کتنی احمقانہ چیز ہے،‘‘ طالب علم بڑبڑایا۔ ’’اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ مَیں فلسفہ پڑھوں گا اور طبعیات میں اعلیٰ ڈگری حاصل کروں گا۔‘‘ وہ اپنے کمرے میں واپس آیا اور گرد سے اَٹی ایک بڑی سی کتاب نکال کر اس کا مطالعہ کرنے لگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK