• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: سرخ پرندہ

Updated: November 17, 2023, 3:47 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف امریکی ادیب جیمس ہرسٹ کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی اسکارلیٹ آئبیس‘‘ The Scarlet Ibis کااُردو ترجمہ۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

موسم گرما کا سورج اپنی تپتی کرنوں کو سمیٹ کر رخصت پذیر تھا مگر خزاں نے اب تک اپنے پر نہیں پھیلائے تھے۔ ایک ’’آئبیس‘‘ زرد پتوں والے ایک درخت پر آبیٹھا۔ (آئبیس کو اردو میں ’’لق لق‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ فلیمنگو کی طرح نظر آنے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے)۔ اِسے دیکھ کر مجھے سب کچھ یاد آگیا۔ لگ رہا تھا کل ہی کی بات ہو۔ مجھے ’’ڈوڈل‘‘ کی یاد آگئی۔ 
ڈوڈل ایک پیارا اور شریف لڑکا تھا۔ وہ میرا بھائی تھا۔ وہ اُس وقت پیدا ہوا تھا جب مَیں سات سال کا تھا۔ اس کے متعلق ہم سب ابتداء ہی سے مایوسی کا شکار تھے۔ اس کا جسم بہت چھوٹا جبکہ سر کافی بڑا تھا۔ وہ کسی بوڑھے شخص کی طرح نظر آتا تھا۔ پیدائش کے وقت سبھی کو لگا تھا کہ یہ آئندہ چند دنوں میں مر جائے گا۔ جب وہ تین ماہ کا تھا تو ڈیڈی نے بڑھئی کو ایک چھوٹا تابوت بنانے کا حکم دیا تھا۔ ڈیڈی نے اس کا نام ولیم آرمسٹرانگ رکھا تھا۔ وہ دیگر بچوں کی طرح قالین پر آگے کی طرف نہیں بلکہ پیچھے کی طرف رینگتا تھا۔ وہ ایک ’’ڈُوڈَل بَگ‘‘ (کیڑوں کا لاروا) کی طرح نظر آتا تھا اس لئے مَیں نے اسے’’ڈوڈل‘‘ بلانا شروع کردیا تھا۔ اپنے بھائی کا نام ڈوڈل رکھ کر مَیں نے شاید اس پر رحم کیا تھا کیونکہ اس طرح کوئی بھی اس سے زیادہ توقع نہیں رکھتا۔
ڈیڈی نے اس کیلئے لکڑی کی ایک گاڑی بنائی تھی جسے مجھے چلانا پڑتا تھا۔ اگر مَیں کہیں جانے کیلئے اپنی ٹوپی اٹھاتا تو وہ میرے ساتھ جانے کیلئے رونا شروع کر دیتا۔ پھر مما مجھے کہتیں کہ’’ڈوڈل کو ساتھ لے جاؤ۔‘‘
چنانچہ مَیں اسے گاڑی میں کھینچ کر کپاس کے کھیت کے پار لے جاتا اور ہم دلدل کے کنارے بیٹھ جاتے۔ ایک دن مَیں نے اسے گاڑی سے نکال کر نرم گھاس پر بٹھا دیا تو وہ رونے لگا۔ مَیں نے جلدی سے پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘ وہ کہنے لگا،’’یہ بہت خوبصورت ہے، بھائی! بہت خوبصورت۔ بہت حسین....‘‘
اس کے بعد، مَیں اور ڈوڈل اکثر دلدل کے پاس جاتے اوروہاں بیٹھے رہتے۔
سبھی کے اندر محبت کے دھاگے سے کہیں نہ کہیں ظلم کی ایک گرہ بھی بندھی ہوتی ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ مَیں ڈوڈل کو نظر انداز کردیتا تھا۔ میرے دل میں اس کیلئے رحم اور شفقت ختم ہوجاتی تھی۔ ایک بار مَیں نے اسے تابوت دکھاکر بتایا کہ ہم سب کو کیسے یقین تھا کہ وہ مر جائے گا۔ ظلم کی انتہا کرتے ہوئے جب مَیں نے اسے تابوت چھونے کیلئے کہا تو وہ چیخنے لگا۔ 
ایک دن جب ہم تیز دھوپ میں باہر گھوم رہے تھے تو وہ مجھ سے لپٹ کر رو رو کر کہہ رہا تھا کہ ’’مجھے مت چھوڑو، بھائی! مجھے مت چھوڑو!‘‘
جب مَیں ۱۳؍ سال کا ہوا تو ڈوڈل پانچ سال کا تھا۔ مجھے ایسا بھائی ہونے پر شرمندگی تھی جو چل نہیں سکتا تھا، اس لئے مَیں نے اسے سکھانے کا فیصلہ کیا کہ چلتے کیسے ہیں ۔ ایک دن ہم دلدل کے قریب تھے۔
’’مَیں تمہیں چلنا سکھانا چاہتا ہوں ، ڈوڈل!‘‘ مَیں نے کہا۔’’کیوں ؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔ 
’’تاکہ مجھے ہر وقت تمہیں لے کر یہاں وہاں نہ جانا پڑے۔‘‘
’’مَیں چل نہیں سکتا، بھائی۔‘‘
’’ایسا کون کہتا ہے؟‘‘
’’مما، ڈاکٹر، سبھی کہتے ہیں ۔‘‘
’’اوہ، تم چل سکتے ہو؟‘‘ مَیں نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔ وہ آٹے کی خالی بوری کی طرح گھاس پر گر پڑا۔ گویا اس کی چھوٹی ٹانگوں میں ہڈی ہی نہ ہو۔ 
’’مجھے تکلیف مت دو، بھائی۔‘‘
’’چپ رہو۔ مَیں تمہیں نقصان نہیں پہنچا رہا ہوں ۔ مَیں تمہیں چلنا سکھا رہا ہوں ۔‘‘ مَیں نے اسے دوبارہ اٹھایا، اور وہ پھر گر گیا۔
’’مَیں یہ نہیں کرسکتا۔‘‘ 
’’اوہ، ہاں ، تم ایسا کر سکتے ہو، ڈوڈل۔ تمہیں صرف کوشش کرنی ہے۔ اب چلو....‘‘ اور مَیں نے اسے ایک بار پھر اٹھا لیا۔
 یہ ممکن نہیں لگ رہا تھا۔ کوئی معجزہ ہی ڈوڈل کو چلانے میں مدد کرسکتا تھا۔ تاہم، مَیں نے فیصلہ کیا کہ مَیں اسے چلنا سکھاؤں گا تاکہ لوگ مجھ پر فخر کریں ۔ اور پھر مَیں نے ڈوڈل کو چلنا سکھانے کی ٹھان لی۔
آخر کار ایک دن وہ چند سیکنڈ کیلئے اکیلا کھڑا ہوگیا۔ جب وہ گرا تو مَیں نے اسے اپنی بانہوں میں پکڑ کر گلے لگالیا، ہماری ہنسی دلدل کے قریب کسی گھنٹی کی طرح بج رہی تھی۔ اب ہم جانتے تھے کہ ڈوڈل چل سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا ترجمہ: ایک دن کا موسم گرما

ہم نے اس وقت تک کسی کو کچھ بھی نہ بتانے کا فیصلہ کیا جب تک وہ اچھی طرح چلنا نہ سیکھ جائے۔
منتخب کردہ دن، ناشتے کے وقت مَیں لکڑی کی گاڑی میں ڈوڈل کو ڈال کر دروازے تک لے آیا۔ مَیں نے ڈوڈل کو کھڑا کرنے میں مدد کی۔ اور جب وہ اکیلا کھڑا تھا تو مَیں نے کچھ نہیں کہا۔ سبھی خاموش تھے کیونکہ ڈوڈل آہستہ آہستہ چلتا ہوا میز کے پاس لگی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ یہ دیکھ کر مما رونے لگیں ، بھاگ کر اس کے پاس آئیں اور اسے گلے لگا کر چومنے لگیں ۔ 
ڈیڈی نے بھی اسے گلے لگا لیا۔ ڈوڈل نے انہیں بتایا کہ مَیں نے اسے چلنا سکھایا ہے تو انہوں نے مجھے بھی گلے لگا لیا اور مَیں رونے لگا۔
’’تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘ ڈیڈی نے پوچھا لیکن مَیں جواب نہیں دے سکا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ مَیں نے یہ کام صرف اپنے مطلب کیلئے کیا ہے۔ ڈوڈل کو صرف اس لئے چلایا کہ مجھے ایک معذور بھائی کے ہونے پر شرم آتی ہے۔
چند مہینوں میں، ڈوڈل نے اچھی طرح چلنا سیکھ لیا۔ چونکہ مَیں نے ڈوڈل کو چلنا سکھایا تھا، اس لئے میرا یقین پختہ ہوگیا کہ مَیں اسے دوڑنا، رسی باندھنا، تیرنا، درختوں پر چڑھنا اور لڑنا بھی سکھا سکتا ہوں ۔ وہ بھی مجھ پر یقین کرنے لگا تھا۔ لہٰذا ہم نے ایک آخری چیلنج مقرر کیا، جس کے تحت ڈوڈل کو اسکول میں داخل کروانا تھا۔ ان کوششوں میں ایک مرتبہ ڈوڈل زمین پر گر پڑا اور رونے لگا۔ ’’چلو، ڈوڈل۔ تم یہ کرسکتے ہو۔ کیا تم اسکول میں دوسروں سے مختلف نظر آنا چاہتے ہو؟‘‘ 
’’کیا اس سے فرق پڑتا ہے؟‘‘
’’ہاں ۔ اب چلو۔‘‘ 
اور رفتہ رفتہ دن گزرنے لگے۔ گرمیاں ختم ہوچکی تھیں لیکن خزاں ابھی نہیں آئی تھی۔ یہ ہفتہ کی دوپہر تھی، اسکول شروع ہونے سے چند دن پہلے۔ ڈیڈی، مما، ڈوڈل، اور مَیں لنچ کر رہے تھے۔ اچانک صحن سے ایک عجیب آواز آئی۔ کرب میں ڈوبی ہوئی آواز۔ شدید تکلیف میں ڈوبی آواز۔
 ڈوڈل نے کھانا چھوڑ دیا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ وہ باہر چلا گیا، اور صحن میں لگے گوند کے درخت کی طرف دیکھا۔
’’یہ ایک بڑا سرخ پرندہ ہے!‘‘
مما اور ڈیڈی بھی باہر آگئے۔ درخت کی سب سے اوپری شاخ پر ایک دلکش پرندہ بیٹھا تھا جس کے پنکھ سرخ رنگ اور ٹانگیں لمبی تھیں۔ اسی لمحے پرندہ پھڑپھڑانے لگا اور گوند کے درخت سے گر پڑا۔ ایک پل میں وہ ہمارے قدموں میں تھا۔ اس کی دلکش گردن نے دو بار جھٹکے کھائے اور پھر وہ ہمیشہ کیلئے ساکت ہوگیا۔ وہ سرخ پھولوں کے ٹوٹے ہوئے گلدان کی طرح زمین پر پڑا تھا۔ موت بھی اس کی خوبصورتی کم نہ کر سکی تھی۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ ڈوڈل نے پوچھا۔
’’یہ آئیبس ہے۔‘‘ ڈیڈی نے کہا۔ ہم سب افسوس بھری نظروں سے آئبیس کودیکھ رہے تھے۔ نہ جانے اس ہجرتی پرندے نے کتنے میل کا سفر طے کیا تھا، اور اب ہمارے صحن میں مردہ پڑا تھا۔ 
ڈوڈل گھٹنوں کے بل آئبیس کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہنے لگا، ’’مَیں اسے دفن کرنے جا رہا ہوں۔‘‘
کھانا کھانے کے فوراً بعد ڈوڈل اور مَیں جلدی سے ہارس ہیڈ لینڈنگ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ تیراکی کے سبق کا وقت تھا مگر ڈوڈل نے کہا کہ وہ بہت تھکا ہوا ہے۔ جب ہم ہارس ہیڈ لینڈنگ پہنچے تو آسمان پر بجلی چمک رہی تھی اور سمندر اپنی گرجدار لہروں کے ساتھ بادلوں کی گرج سے مقابلہ کررہا تھا۔
ڈوڈل تھکا ہوا اور خوفزدہ تھا۔ ہم نے گھر جانے کا فیصلہ کیا مگر وہ مٹی پر پھسل کر گر پڑا۔ مَیں نے اسے اٹھانے میں مدد کی۔ وہ میری طرف شرمندگی سے دیکھ رہا تھا۔ وہ شاید تیراکی کبھی نہیں سیکھ سکتا تھا۔ ہم دونوں یہ جانتے تھے کہ وہ اسکول میں دوسرے لڑکوں کی طرح بالکل نہیں ہوگا۔ ہم طوفان کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہوئے گھر جانے لگے۔
ایسا لگتا تھا کہ بجلی ہمارے سروں پر گر جائے گی۔ مَیں جتنی تیز چلتا تھا، ڈوڈل بھی اتنی ہی تیز چلنے کی کوشش کرتا۔ یہ دیکھ کر مَیں نے دوڑنا شروع کردیا۔ 
آخر کار بارش شروع ہوگئی اور پائن کے درختوں سے ہوتے ہوئے بوندیں ہم پر گرنے لگیں ۔ پھر ایک بجلی نے سامنے موجود گوند کے درخت کو درمیان سے چیر دیا۔ جب بجلی گرنے کی بہرہ کر دینے والی آواز ختم ہوئی تو مَیں نے ڈوڈل کی آواز سنی، ’’بھائی، بھائی، مجھے مت چھوڑو! مجھے مت چھوڑو!‘‘
تیراکی کا ہمارا منصوبہ ناکام ہوگیا تھا اور یہ تلخ حقیقت مجھے تکلیف دے رہی تھی۔ تبھی میرے اندر ظلم کی شمع روشن ہوگئی۔ جتنی تیز اور جتنی جلدی ہوسکتا تھا، مَیں بھاگنے لگا۔ 
موسلادھار بارش میں اب کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ڈوڈل کی سسکیوں میں ڈوبی آوازیں کچھ دیر تک سنائی دیتی رہیں مگر میری تیز رفتاری میں کچھ دیر بعد وہ بھی آنا بند ہوگئیں ۔ مَیں تیزی سے گھر کی طرف بھاگ رہا تھا۔
پھر مَیں رُک گیا اور ڈوڈل کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ ہر طرف بارش کی آواز تھی لیکن طوفان دم توڑ چکا تھا۔ بارش آسمان سے لٹکتی رسیوں کی طرح سیدھی گر رہی تھی۔
مَیں تواتر سے گرتی بوندوں کے پار دیکھنے کی کوشش کررہا تھا لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ آخر کار مَیں واپس گیا۔ سڑک کے کنارے ڈوڈل کو ایک سرخ پتوں والی جھاڑی سے لپٹا پایا۔ وہ سر گھٹنوں میں دیئے بیٹھا تھا۔ اس کا چہرہ اس کے بازوؤں میں دبا تھا۔’’چلو چلتے ہیں ، ڈوڈل۔‘‘
اس نے کوئی جواب نہیں دیا تو مَیں نے آہستہ سے اس کا سر اٹھایا مگر وہ کسی بے جان پودے کی طرح پیچھے کی طرف زمین پر گر گیا۔ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا اور اس کی گردن اور قمیص کے اگلے حصے پر سرخ رنگ کا داغ تھا۔’’ڈوڈل، ڈوڈل۔‘‘
لیکن بارش کی آواز کے سوا مجھے کچھ نہیں سنائی دیا۔ ڈوڈل کو اس حالت میں دیکھ کر مَیں رونے لگا۔ آنسوؤں نے میری آنکھوں کو دھندلا دیا اور میرے سامنے وہی مانوس منظر تھا۔ درخت سے گرا سرخ لق لق۔ 
’’ڈوڈل!‘‘
مَیں حلق کے بل چیخا۔ طوفان پھر سے شروع ہوگیا تھا۔ تیز ہواؤں اور بارش کی آواز میں کچھ نہیں سنائی دے رہا تھا۔ مجھ لگا کہ ہوا ڈوڈل کو اُڑا لے جائے گی۔ اسے بچانے کیلئے مَیں نے اسے اپنے بازوؤں میں چھپالیا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ مَیں لمبے عرصے تک وہیں بیٹھا روتا رہوں۔ زمین پر گرے اپنے سرخ لق لق کو بارش اور ہوا سے پناہ دیتا رہوں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK