• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: نوجوان بادشاہ (پہلی قسط)

Updated: October 06, 2023, 2:00 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف آئرش ادیب آسکر وائلڈ کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی ینگ کنگ‘‘ The Young King کااُردو ترجمہ

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اُس کی تاجپوشی والے دن سے پہلے کی رات تھی۔ نوجوان بادشاہ اپنے عالیشان کمرے میں تنہا تھا۔ اسے ’’لڑکا‘‘کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ اس کی عمر صرف۱۶؍ سال تھی۔ وہ آرام دہ صوفے پر نرم کشن کو اپنی بانہوں میں لئے نیم دراز ہوگیا۔ اس کی روشن آنکھیں اور ہرن جیسی معصومیت دل موہ لیتی تھی۔ اس لڑکے کی پرورش شہزادوں کی طرح نہیں ہوئی تھی۔ اس کا تعلق گڈریوں کے خاندان سے تھا۔ وہ جنگل میںبکریاں چراتا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ لڑکا بادشاہ کا نواسا ہے۔ برسوں پہلے بادشاہ کی بیٹی ایک گڈریئے سے محبت کر بیٹھی تھی اور اس نے اپنی مرضی سے اس سے شادی کرلی۔ سزا کے طور پر بادشاہ نے دونوں کو ملک بدر کردیا۔ دونوں سرحد پر ایک ٹوٹی پھوٹی جھوپڑی میں زندگی گزارتے تھے۔ بوڑھا بادشاہ جب بستر مرگ پر پہنچا تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ اس نے بیٹی، داماد اور نواسے کے ساتھ زیادتی کی ہے لہٰذا اس نے وزراء کو سرحد کی جانب روانہ کیا جنہیں وہاں موجود ٹوٹی پھوٹی جھوپڑی میں اس ۱۶؍ سالہ لڑکے کے علاوہ کوئی نہیں ملا۔ لڑکے نے بتایا کہ اس کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔ جب اسے بادشاہ کے سامنے لایا گیا تو اس نے لڑکے کو اپنا وارث تسلیم کرلیا۔ اس کے نواسے کی آنکھیں، بیٹی کی آنکھوں سے صد فیصد مشابہ تھیں۔
لڑکے کے خواب و خیال میں نہیں تھا کہ وہ اُس ملک کے بادشاہ کا نواسا ہے جس کی سرحد پر وہ برسوں سے رہ رہا ہے اور ایک چرواہے کی زندگی بسر کررہا ہے۔ محل میں لاتے ہی اس کا کھردرا اور سخت لباس اتار کر اسے ریشمی لباس پہنایا گیا ۔ جنگل میں وہ ہمہ وقت آزاد تھا لیکن محل کی آسائشوں نے اس کی آزادی سلب کرلی تھی۔ 
چند دنوں میں اس کے متعلق عجیب عجیب کہانیاں مشہور ہوگئی تھیں مگر حقیقت یہی تھی کہ بادشاہ کی موت کے بعد وہی ملک کا نیا بادشاہ بنے گا۔ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے نظر آنے والے چرچ کے سفید گنبد پر نگاہیں جمائے گھنٹوں کھڑا رہتا کہ خدا نے چند منٹوں میں اس کی زندگی کتنی بدل دی ہے۔ لیکن 
نرم صوفے پر لیٹے لیٹے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ وہ گہری نیند میں چلا گیا، اور پھر اس نے ایک خواب دیکھا۔ 
پہلا خواب
اس نے دیکھا کہ وہ بنکروں کے محلے میں کھڑا ہے۔ وہاں موجود ایک پرانے گھر کی ٹوٹی کھڑکی سے اس نے اندر جھانکا تو اسے یرقان میں مبتلا بچے نظر آئے جن کے چہرے زرد تھے اور پتلے پتلے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کچھ پھوہڑ خواتین سلائی مشین پر بیٹھی تھیں۔ جگہ کافی بدبودار تھی۔ ہوا بوجھل تھی اور دیواریں ٹپک رہی تھیں۔نوجوان بادشاہ بنکروں میں سے ایک کے پاس گیا، اور اسے کھڑا دیکھتا رہا۔بنکر نے غصے سے اس کی طرف دیکھا، اور کہا، ’’تم مجھے کیوں گھور رہے ہو؟ کیا تم ہمارے آقا کے جاسوس ہو؟‘‘
’’تمہارا آقا کون ہے؟‘‘ نوجوان بادشاہ نے پوچھا۔’’ہمارا آقا!‘‘ بنکر نے زور سے کہا۔ ’’وہ ہم جیسا ایک انسان ہے۔ ہمارے درمیان فرق صرف اتنا ہے کہ میرے جسم پر چیتھڑے ہیں اور وہ عمدہ اور شاندار لباس پہنتا ہے۔ مَیں بھکمری کا شکار ہوں لیکن اس کی میز پر ڈھیر سارے لذیذ پکوان ہیں۔‘‘ 
’’اس زمین پر سبھی آزاد ہیں،‘‘ نوجوان بادشاہ نے کہا، ’’تم کسی کے غلام نہیں ہو۔‘‘
 بنکر نے جواب دیا، ’’جنگ میں طاقتور لوگ کمزوروں کو غلام بناتے ہیں، اور امن میں امیر غریبوں کو غلام بناتے ہیں۔ ہمیں جینے کیلئے کام کرنا پڑتا ہے مگر معمولی اجرت میں بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ ہم اسی طرح کسمپرسی میں مر جاتے ہیں۔ ہم امیروں کیلئے دن بھر محنت کرتے ہیں، اور وہ اپنے ہی خزانوں کو بھرتے ہیں۔ ہمارے بچے وقت سے پہلے مرجاتے ہیں۔ ہم جن سے محبت کرتے ہیں ان کی جِلد وقت کے ساتھ کھردری ہو جاتی ہے۔ مکئی کی کاشت ہم کرتے ہیں مگر ہمارا ہی باورچی خانہ خالی رہتا ہے۔ ہم نادیدہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہم غلام ہیں مگر لوگ ہمیں آزاد کہتے ہیں۔‘‘
’’کیا سبھی غریبوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’سبھی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے،‘‘ بنکر نے جواب دیا، ’’نوجوانوں، بوڑھوں، عورتوں، مردوں اور بچوں کے ساتھ بھی۔ تاجر ہمیں پیستے ہیں، اور ہم ان کیلئے بولیاں لگاتے ہیں۔ پادری تسبیح کے دانوں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے ہمارے سامنے سے گزر جاتا ہے، کسی بھی شخص کو ہماری پروا نہیں ہے۔ ہماری دھوپ سے تپتی گلیوں میں غربت اپنی بھوکی آنکھیں کھولے رینگتی ہے، اور گناہ اپنے تلخ چہرے کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے آتا ہے۔ مصائب ہمیں صبح بیدار کرتے ہیں اور شرمندگی رات کو ہمارے ساتھ بیٹھتی ہے لیکن ان باتوں سے امیروں کو کیا؟ تم بھی ہم میں سے نہیں ہو۔ تمہارا چہرہ ہشاش بشاش نظر آتاہے۔‘‘ پھر اس نے منہ پھیر لیا۔
 نوجوان بادشاہ کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا۔ اُس پر ہیبت طاری ہو گئی، اور اُس نے بنکر سے پوچھا، ’’یہ شاندار لباس تم کس کیلئے بُن رہے ہو؟‘‘
’’یہ لباس ہمارے نوجوان بادشاہ کا ہے جو وہ تاجپوشی والے دن پہنے گا۔ تمہیں اس سے کیا؟‘‘ اس نے جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ 
نوجوان بادشاہ ایک زوردار چیخ مارکر بیدار ہوگیا۔ مگر وہ بنکروں کے محلے میں نہیں بلکہ اپنے عالیشان کمرے میں تھا۔ اس نے اپنی کھڑکی سے سیاہ آسمان پر شہد کے رنگ میں نہائے مکمل چاند کو دیکھا۔ 
وہ پھر سو گیا۔ اس نے پھر خواب دیکھا۔
دوسرا خواب
اس نے دیکھا کہ وہ ایک بحری جہاز کے گیلے عرشے پر پڑا ہے۔ سو غلام تیزی سے چپو چلا رہے ہیں۔ اس کے پہلو میں جہاز کا کپتان بیٹھا ہے۔ آبنوس کی طرح سیاہ اس شخص نے سرخ ریشم کی پگڑی باندھ رکھی تھی۔ چاندی کی بڑی بڑی بالیاں اس کے کانوں کی موٹی لابوں کو گھسیٹ کر نیچے لے جارہی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں ہاتھی دانت کے دستے والا ایک چابک تھا۔
غلام ننگے تھے۔ لباس کے نام پر ان کے جسم پر صرف چیتھڑے نما لنگوٹ تھی۔ ہرغلام اپنے پڑوسی کے ساتھ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ ان پر تپتی ہوئی دھوپ چمک رہی تھی۔ حبشی اوپر سے نیچے بھاگتے ہوئے انہیں کوڑوں سے مار رہے تھے۔ غلام اپنے دبلے پتلے بازو تیزی سے چلا رہے تھے جس کے سبب جہاز سمندر کی بے پروا موجوں پر رواں دواں تھا۔ بالآخر وہ ایک چھوٹی سی خلیج پر پہنچے۔انہوں نے لنگر ڈالا اور ایک حبشی رسی کی ایک سیڑھی لے آیا اور اسے جہاز سے لگا کر سمندر میں ڈال دیا۔ کپتان کے حکم پر غلاموں میں سب کم عمر لڑکے کو پکڑ کر اس کے نتھنوں اور کانوں میں موم بھردی گئی۔ اس کی کمر سے ایک بڑا پتھر باندھ دیا گیا۔ وہ تھکے تھکے انداز میں سیڑھی سے اترا، اور پانی میں غائب ہو گیا۔ چند بلبلے نکلے، پھر سطح آب پرسکون ہوگئی۔ دوسرے غلام تجسس سے سمندر میں جھانک رہے تھے۔ عرشے پر بیٹھا ایک شخص تیزی سے ڈھول پیٹ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد غوطہ خور پانی سے نکلا، اور دائیں ہاتھ میں ایک موتی لئے رسی کی سیڑھی سے لپٹ گیا۔ حبشی اس سے موتی چھین کر اسے پھر پانی میں دھکیل دیا۔وہ بار بار اوپر آتا، اور ہر بار اپنے ساتھ ایک خوبصورت موتی لاتا۔ کشتی کے مالک نے موتیوں کو وزن کیا اور چمڑے کے ایک چھوٹے سے تھیلے میں انہیں ڈال دیا۔

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا ترجمہ: بُلبُل اور گلاب (آسکر وائلڈ)

نوجوان بادشاہ نے بولنے کی کوشش کی مگر زبان تالو سے جالگی۔ حبشی خوب چہک رہے تھے ۔دو بگلے کشتی کا چکر لگا رہے تھے۔پھر غوطہ خور آخری بار اوپر آیا۔ اس مرتبہ اس نے جو موتی لایا تھا وہ دیگر تمام موتیوں سے زیادہ خوبصورت تھا۔ اس کی شکل پورے چاند کی طرح تھی۔ موتی بالکل سفید تھا۔
اس موتی کو ’’ستارۂ سحر‘‘ کا نام دیا گیا۔ غلام کا چہرہ زرد ہوگیا تھا۔ وہ عرشے پر گرگیا اور اس کے کانوں اور نتھنوں سے خون بہنے لگا۔ وہ کچھ دیر کانپتا رہا پھر ساکت ہو گیا۔ حبشیوں نے کندھے اچکائے اور اس کی لاش کو سمندر میں پھینک دیا۔
کشتی کا مالک ہنستے ہوئے آگے بڑھا اور موتی لیتے ہوئے کہنے لگا ’’نوجوان بادشاہ کے عصا میں یہ بہت خوبصورت لگے گا۔‘‘ پھر اس نے لنگر اٹھانے کا حکم دیا۔ 
نوجوان بادشاہ ایک دلخراش چیخ مار کر نیند سے جاگ گیا۔ مگر وہ بحری جہاز پر نہیں بلکہ اپنے شاندار کمرے میں تھا۔ اس نے کھڑکی سے دیکھا تو ستارے ڈوبتے نظر آئے۔ صبح ہونے میں کچھ وقت رہ گیا تھا۔ وہ پھر سوگیا، اور اس نے پھر ایک خواب دیکھا۔
تیسرا خواب
اس نے دیکھا کہ وہ ایک گھنے جنگل میں ہے جہاں مختلف اقسام کے پیڑ پودے اور چرند و پرند ہیں۔ وہ چلتے چلتے جنگل کے ایک کنارے پر پہنچ گیا جہاں ایک خشک دریا کے کنارے لوگوں کا ایک ہجوم مشقت کر رہا تھا۔ وہ چیونٹیوں کی طرح قطار بنائے ایک دوسرے کو پتھر دیتے جاتے۔ ان میں سے کچھ کلہاڑیوں سے پتھروں کو توڑ رہے تھے۔ انہوں نے ناگ پھنی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا اور سرخ رنگ کے پھولوں کو روند دیا۔ وہاں ہر آدمی کام کررہا تھا۔ آدمیوں کی قطار ایک اندھیرے غار کے اندر تک چلی گئی تھی۔ 
 نوجوان بادشاہ نے سیاہ لباس میں ایک عورت کو دیکھا جو خشک دریا پر تیر رہی تھی۔ اس کا نام موت تھا۔ اس نے کہا ’’مَیں تھک گئی ہوں، بھوکی ہوں، ان آدمیوں میں سے کچھ کو میرے حوالے کردو۔ مَیں یہاں سے چلی جاؤں گی۔‘‘ تبھی نوجوان بادشاہ نے سبز لباس میں ملبوس طمع (لالچ) کو دیکھا، جو موت سے چند فٹ دوری پر ہوا میں تیر رہی تھی۔ طمع نے کہا، ’’وہ میرے نوکر ہیں۔ مَیں تمہیں ان کے حوالے نہیں کروں گی۔‘‘
موت نے پوچھا، ’’تمہارے ہاتھوں میں کیا ہے؟‘‘ 
’’میرے ہاتھ میں مکئی کے تین دانے ہیں۔‘‘طمع نے جواب دیا۔ 
’’مجھے ان میں سے ایک دے دو،‘‘ موت نے پکارا، ’’مَیں اسے اپنے باغ میں لگاؤں گی۔‘‘ 
’’میں تمہیں کچھ نہیں دوں گی۔‘‘ طمع نے کہا، اور اس نے اپنا ہاتھ چھپا لیا۔
موت نے ہنستے ہوئے پاس موجود تالاب میں ایک پیالہ ڈبویا جس سے بیماری نکلی۔ یہ ایک لہر کی طرح آدمیوں کی بھیڑ پر گزری، اور پھر چند ہی لمحوں میں ایک تہائی افراد مردہ پڑے تھے۔ 
یہ دیکھ کر طمع چھاتی پیٹتے ہوئے رونے لگی، اور کہنے لگی، ’’تم نے میرے ایک تہائی نوکروں کو ختم کردیا۔ تم چلی جاؤ! تاتار کے پہاڑوں میں جنگ جاری ہے، وہاں جاؤ۔ جنگوں میں ملوث حکمراں تمہیں پکار رہے ہیں، وہاںجاؤ۔ میری وادی میں تمہارا کیا کام ؟ تم جنگوں میں جاؤ، اور کبھی یہاں نہ آنا۔ ‘‘

آسکر وائلڈ کی اس کہانی (نوجوان بادشاہ) کا دوسرا حصہ پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کیجئے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK