یہ تنبولن تائی کی کہانی ہے جو ایک شرارتی بندر سے عاجز آجاتی ہے۔
EPAPER
Updated: November 16, 2024, 12:55 PM IST | Zaheer Kafi Amrohavi | Mumbai
یہ تنبولن تائی کی کہانی ہے جو ایک شرارتی بندر سے عاجز آجاتی ہے۔
تنبولن تائی بڑھیا ہوچکی تھیں۔ اُن کے سَر کے بال روئی کے گالوں کی طرح سفید تھے۔ وہ خود بھی دودھ کی ملائی جیسی اُجلی تھیں، اسی لئے تو بوڑھی ہو کر بھی ان کی خوبصورتی باقی تھی۔ ہاتھ پاؤں پر جھریاں ضرور تھیں، لیکن وہ اتنی عمر میں بھی بہت چست اور تندرست دکھائی دیتی تھیں۔ تنبولن تائی کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ کبوتر.... بلیاں اور طوطے پالتی تھیں اور ان سے دل بہلاتی تھیں۔
تنبولن تائی کے گھر کے آنگن میں نیم کا بڑا سا پیڑ تھا۔ جس میں طرح طرح کے پرندے بسیرا کئے رہتے تھے۔ کوّے اس وقت تو بہت ہی زور سے کائیں کائیں کرنے لگتے جب صبح ہی صبح کوئی بندر نیم کے پیڑ پر چڑھ آتا تھا۔ کوؤں کی کائیں کائیں سُن کر تنبولن تائی اپنی چوکی پر سے اُٹھتیں، اور اپنے کاتے ہوئے سُوت کی اٹیرن کو نچاتے ہوئے بندر کو للکارتیں۔ عجیب سی آوازیں اپنے پوپلے منہ سے نکالتیں، ’’دُر! دُر! دُر!‘‘
لیکن بندر ایک ڈال سے دوسری شاخ پر چھلانگ لگا جاتا۔ اس پر تنبولن تائی آنگن کے اُس طرف چلی جاتیں، جس پر انہوں نے بکریوں اور اُن کے بچّوں کیلئے ایک چھوٹا سا گھر بنا رکھا تھا۔ وہاں سے وہ سوکھی روٹی کے ٹکڑے سمیٹ کر بندر کی طرف اچھالتیں مگر بندر چڑیوں اور کبوتروں کی آوازوں سے سہما سہما کبھی اِدھر جاتا۔ کبھی دوسری طرف اُچھلتا۔ کوؤں کی کائیں کائیں سے تنبولن تائی بھی گھبرا جاتیں۔ انہیں ڈر لگتا کہ کہیں بندر غصے میں ان کے چہیتے کبوتروں اور طوطوں کو نہ پکڑے۔ وہ پھر اپنے طور پر بندر کو بھگانے کی کوشش کریں۔ دُر! دُر! دُر! لیکن بندر تنبولن تائی کی کسی آواز پر کان نہ دھرتا۔ اب تنگ آکر تنبولن تائی تنبولی تایا کو پکارتیں۔ ’’اجی دیکھیو، یہ ناس مارا، میرے کبوتروں اور طوطوں کو کہیں گھائل نہ کر دے۔‘‘
تنبولی تایا لمبے چوڑے آدمی تھے۔ ہاتھ میں ایک پھٹا ہوا بانس لے کر وہ اُسے پھٹ پھٹاتے ہوئے بندر کو للکارنے لگتے۔ بندر بوکھلا کر اپنی نکٹی چپٹی ناک سے غراتا ہوا پڑوس کے پدھان چاچا کی چھت پر چھلانگ لگا جاتا۔ تنبولن تائی اطمینان کی سانس لے کر تنبولی تایا سے کہتیں، ’’اجی یہ ناس پیٹا کیوں مارا مارا پھرے ہے۔ ذرا ذرا سی چڑیاں تک اپنا گھر، اپنا گھونسلہ بنا کر رہتی ہیں، مگر یہ بے گھر، بے در، گھر گھر، منڈیر، منڈیر مارا مارا پھرے ہے۔‘‘
تنبولی تایا کی ہنسی چھوٹ جاتی۔ وہ اس بات پر نہیں ہنستے تھے کہ بندر کا کوئی اپنا گھر کیوں نہیں ہوتا بلکہ وہ تنبولن تائی کی سادگی پر ہنس پڑتے تھے۔ وہ کہتے، ’’بی بی، تم بندر سے اتنی ڈرتی کیوں ہو؟ کیا تم نہیں جانتیں، بندر اپنی چالاکی جتانے کیلئے ہی تو خُرخُرخُر کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ کرے تب تو کوئی بھی اس پر ڈنڈا دے مارے۔ مَیں تو یہ جانوں ہوں کہ بندر ہی ایک ایسا جانور ہے جسے کبھی پٹتا ہوا تم نے نہیں دیکھا ہوگا۔ ہے نا آخر چالاک!‘‘
تنبولن تائی ہنکارا بھرتے ہوئے تنبولی تایا کی بات سمجھنے کی کوشش کرتیں۔
یہ بھی پڑھئے:مجھے روشنی مل گئی
ایک دن تنبولن تائی جب صبح سویرے سو کر اٹھیں تو پھر وہی کوؤں کی کائیں کائیں اُن کے کانوں میں پڑی۔ وہ سمجھ گئیں۔ ضرور آج پھر نیم کے پیڑ پر بندر چڑھ آیا ہے اور اُن کے چہیتے پرندوں کو گھائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تنبولن تائی نے اپنے کاتے ہوئے سوت کا اٹیرن اُٹھانے کیلئے خود کو ذرا جھکایا تو وہ دھک سے رہ گئیں۔ اُن کا چرخہ اوندھا پڑا ہوا تھا۔ سُوت کی پونیوں کی چنگیر ہی غائب تھی تو بھلا اٹیرن وہاں کیسے ہوتی۔ اتنا ہی نہیں تنبولی تایا نے اپنے پیسوں کی جو تھیلی انہیں حفاظت سے رکھنے کو دی تھی وہ بھی غائب تھی۔ تنبولن تائی کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ سمجھ گئیں ضرور اس نامراد بندر کی کرتوت ہے۔ وہ بڑبڑائیں، ’’موا! چور اچکا! گھر کا نہ گھاٹ کا ڈھیر سے اناج کا!‘‘ تنبولی تایا نے جو تنبولن تائی کو بڑبڑاتے دیکھا تو پوچھنے لگے، ’’بی بی! کسے کوس رہی ہو؟‘‘ ’’اجی اور کون ہوگا؟‘‘ تنبولن تائی نے اپنے پوپلے منہ سے جواب دیا، ’’وہی ہے نامراد۔ آج تو غضب ہی ڈھا گیا۔ میرا چرخہ اوندھا کر گیا۔ چنگیر اور اٹیرن لے بھاگا۔ اور وہ تمہاری پیسوں کی تھیلی بھی۔‘‘ ’’کیا کہا؟‘‘ تنبولی تایا بھی سمجھ گئے کہ بندر نے ہی یہ سب اتھل پتھل مچائی ہے۔ انہوں نے پھٹا ہوا بانس پھڑپھڑایا۔ پر بندر نے کوئی آواز کوئی آہٹ تک نہیں کی۔ تنبولی تایا غرائے، ’’خُر خُر خُر!‘‘
کوؤں نے کائیں کائیں سے کان کھانے شروع کر دیئے۔ کبوتروں نے اپنے پَر پھڑپھڑائے۔ چڑیوں نے چیں چیں چیں چُوں چُوں چُوں کرکے صبح ہی صبح شور اٹھا دیا۔ پڑوس کے بچے، بوڑھے اور عورتیں اور لڑکیاں ایک ایک کرکے تنبولن تائی کے آنگن میں اکٹھے ہوگئے۔ تنبولن تائی ہر آنے والے سے فریاد کر رہی تھیں۔
’’میرا تو ناک میں دَم کر دیا ہے اِس نامراد نے۔ جب دیکھو چڑھ آتا ہے میرے نیم پر۔ جیسے اس کے باوا کی جاگیر ہے میرا نیم۔‘‘ ’’ہوا کیا تنبولن تائی؟‘‘ پدھان چاچا نے پوچھا۔ ’’بھیّا ہوتا کیا۔ اب تو ہر روز وقت بے وقت آدھمکتا ہے۔ پہلے تو میری چڑیوں ہی کا جینا دوبھر کر رکھا تھا، مگر اب تو موا میرا سب کچھ لے گیا۔‘‘
’’کون لے گیا؟ کیا کیا لے گیا تنبولن تائی؟‘‘ منگوتیلن نے پوچھا۔ تنبولی تایا بتانے لگے، ’’اجی کیا بتائیں منگو، آج تو غضب ہی کر دیا ہے اس نے۔ اٹیرن چنگیر تو لے ہی گیا تھا خیر۔ وہ تو میری ساری جمع پونجی والی تھیلی بھی لے گیا۔‘‘
اچانک نیم کے پیڑ میں سے کوئی چیز دھم سے نیچے گری۔ سب ہی نے چونک کر دیکھا، ایک تھیلا تھا۔ تنبولی تایا اُس پر جھپٹے۔ لیکن جب انہوں نے اسے ٹٹول کر دیکھا تو اُس کے اندر سے کتابوں اور کاپیوں کے سوا کچھ نہ نکلا۔ تنبولن تائی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا، ’’ہائے ہائے وہ نامراد کسی بچے کا بستہ بھی اُڑا لایا۔‘‘
کئی گھنٹے تک سب نے تنبولن تائی کی اٹیرن اور چنگیر کو جگہ جگہ ڈھونڈا۔ نیم کے پیڑ کی ایک ایک شاخ اور ڈال پر تلاش کیا۔ مگر کہیں بھی یہ سامان ہاتھ نہ آیا۔ پرندوں کے گھونسلوں سے تنبولی تایا کے پیسوں کی تھیلی ملنے کی اُمید بھی جاتی رہی۔ تھک ہار کر سب اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ تنبولن تائی اپنے گھر کے چوڑے چکلے آنگن میں جھاڑو سے کوڑا کرکٹ صاف کرتے ہوئے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے لگیں، ’’ڈھائی گھڑی کا ہیضہ آوے اُسے جو میری اٹیرن لے گیا ہو۔‘‘ تنبولی تایا نے اب انہیں ٹوکا، ’’بی بی، جو ہوا اسے بھول جاؤ۔ غلطی تو تمہاری بھی ہے۔ اٹیرن اور چنگیر تو معمولی چیزیں ہیں۔ تھیلی میں تو میرے ڈھائی سو روپے تھے۔‘‘ تنبولن تائی لاجواب ہو کر چپ ہوگئیں۔
تنبولن تائی نے اپنے ہاتھوں سے نیم کے پیڑ کو سینچا تھا۔ اُن کے بڑے بوڑھوں نے اسے بویا تھا۔ اس لئے اس نیم کے پیڑ سے انہیں بڑی گہری محبت تھی۔ اس کی گھنی چھاؤں میں انہوں نے گرمیوں کی دوپہریں آرام سے گزاری تھیں۔ اس کی نمولیوں کو وہ بڑے چاؤ سے چوستی رہی تھیں.... جب نیم کے پتّے زرد ہو کر گرنے لگتے تو وہ بڑی عجیب نظروں سے اسے تکا کرتی تھیں اور جب اس پر نئے نئے سبز پتّے پھر آنے لگتے تو وہ دل ہی دل میں خوش ہونے لگتیں۔ نیم پر بَور آجانے پر وہ اس کو سمیٹتیں پھر اس کا کاجل کڑوے تیل میں تیار کرکے بانٹا کرتی تھیں۔ دور دور سے لوگ تنبولن تائی سے نیم کا کاجل یوں ہی مفت لے جاتے۔ تنبولن تائی نے دوا کیلئے نیم کی کسی شاخ، کسی ٹہنی کو توڑا ہو تو توڑا ہو، لیکن کبھی کسی ڈال، کسی بڑی شاخ کو نہیں کاٹا تھا۔ جبکہ کئی بار تنبولی تایا نے چاہا تھا کہ اُسے جڑ سے ہی اکھاڑ کر پھنکوا دیا جائے۔ کئی بار انہوں نے خود ہی نیم کے تنے پر کلہاڑی تانی، لیکن ہر بار تنبولن تائی نے اُنہیں روک لیا تھا۔ کبھی تنبولی تایا سے جھگڑنے بھی لگ جاتی تھیں۔ نیم اُن کی سنسان اور ویران زندگی میں کسی انسانی وجود سے کم نہ تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ نیم کا پیڑ اُن کی تنہائی، اُن کی اداس زندگی کا ساتھی ہے۔ لیکن، آج، جبکہ تنبولن تائی خود بے حد بوڑھی اور کمزور ہوچکی تھیں، اسی نیم کے پیڑ کو کٹوانے پر تیار ہوگئی تھیں۔ جس پر اُن کے چہیتے کبوتر، طوطے، کوّے، چیلیں، فاختائیں، گلہریاں، چڑیاں اور جانے کون کون سے رنگ برنگے پرندے بسیرا کئے ہوئے تھے۔ آخر تنبولن تائی کو یکایک کیا سوجھی؟
تنبولی تایا مزدوروں کو گھر میں لے آئے تھے۔ قریب تھا کہ وہ لوگ نیم پر اپنی کلہاڑیاں چلانے لگتے۔
اُسی لمحے تنبولن تائی کے پاس پدھان چاچا آئے اور بولے، ’’تنبولن تائی، تم جس وجہ سے نیم کا یہ برسوں پرانا یادگار پیڑ کٹوا رہی ہو، اس کی وجہ تمہاری اٹیرن اور چنگیر ہے، جنہیں بندر لے اُڑا تھا؟‘‘
’’ہاں ہاں بھیّا!‘‘ تنبولن تائی بولیں، ’’میرا تو ناک میں دَم کر رکھا تھا اس بندر نے۔ اسی لئے سوچا کہ نہ نیم ہوگا نہ نامراد وہ بندر آئے گا۔‘‘ ’’اور اگر وہ پھر بھی آتا رہا تو؟‘‘ پدھان چاچا نے سوال کیا تو تنبولن تائی ذرا دیر کے لئے سوچنے لگیں۔ تب ہی پدھان چاچا نے اُنہیں خوش خبری سنائی، ’’تنبولی تائی، تمہاری اٹیرن، چنگیر اور تنبولی تایا کے روپوں کی تھیلی مل گئی ہے۔‘‘
’’کیا سچ؟‘‘ تنبولی تایا چیخے۔
’’ہاں!‘‘ پدھان چاچا بولے، ’’تنبولن تائی، ایک بچہ تمہیں تلاش کرتے کرتے آیا ہے اور وہ یہ سب سامان بھی لایا ہے۔‘‘ ’’مگر اُس کے پاس یہ سب سامان آیا کہاں سے؟ کیا بندر نے اُسے دے دیا؟‘‘ تنبولن تائی نے بچّوں کی طرح خوش ہو کر پوچھا۔
تنبولی تایا قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ پدھان چاچا بھی بچّوں کی طرح کھی کھی کھی کرکے ہنسنے لگے۔ ایک دس بارہ سال کا لڑکا تنبولن تائی کو ان کا سامان دے کر بولا، ’’تنبولن تائی میرا بستہ مجھے واپس کر دیجئے۔‘‘
تنبولن تائی کے جھریوں بھرے چہرے پر خوشی کی لہر سی دوڑ گئی۔ پوپلے منہ سے پوچھنے لگیں، ’’میرے بچّے، کیا یہ سب سامان وہی نامرا بندر لے گیا تھا، جو تمہارا بستہ میرے نیم پر ٹانگ گیا تھا؟‘‘
’’جی نہیں تنبولن تائی۔‘‘ لڑکا جلدی سے بولا، ’’ہوا یوں تنبولن تائی بندر میرا بستہ لے گیا اور میرا کتّا آپ کی اٹیرن، چنگیر اورروپوں کی تھیلی۔ پھر اسی نے آپ کے گھر کا سراغ مجھے بتایا۔‘‘
’’پر بیٹے، یہ ڈھیر سارے روپے پا کر بھی تم نے بے ایمانی نہیں کی؟‘‘ تنبولی تایا اور پدھان چاچا نے لڑکے کو حیرت اور محبّت سے دیکھا۔ لڑکا بولا، ’’اِن روپوں سے کہیں زیادہ قیمتی میری کتابیں اور کاپیاں ہیں۔ جن کے بغیر مَیں امتحان میں کیوں کر پاس ہوسکتا ہوں۔‘‘
’’شاباش! شاباش میرے بچّے!‘‘ تنبولن تائی نے لڑکے کے سَر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور پھر مزدوروں کو نیم کاٹنے سے منع کہلوا دیا۔