مَیں جانتا ہوں کہ مَیں دن بہ دن بگڑتا جا رہا ہوں۔ میرا دل ناول پڑھنے میں، کھیلنےمیں بہت لگتا ہے۔ کئی دفعہ تو ابی امّی کو پلٹ کر جواب بھی دے چکا ہوں۔ پتہ نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے مجھے!
EPAPER
Updated: November 09, 2024, 12:35 PM IST | Mumbai
مَیں جانتا ہوں کہ مَیں دن بہ دن بگڑتا جا رہا ہوں۔ میرا دل ناول پڑھنے میں، کھیلنےمیں بہت لگتا ہے۔ کئی دفعہ تو ابی امّی کو پلٹ کر جواب بھی دے چکا ہوں۔ پتہ نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے مجھے!
صبح ناشتے کے وقت امی نے اعلان کیا، ’’جب تک آصف اپنی غلطیوں کی معافی نہیں مانگے گا تب تک کوئی اس سے بات نہیں کرے گا۔‘‘ لیکن آصف پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اور وہ سوچنے لگا، ہوں، نہ کریں بات مَیں کون سی پروا کرتا ہوں۔ مَیں ان سے بات کئے بغیر مر نہیں جاؤں گا۔ کیا ایک شکایت ہے امی ابی کو مجھ سے؟ بہت لمبی فہرست ہے.... ’’مَیں پڑھتا نہیں ہوں۔ پڑھنے کے وقت ناول پڑھتا ہوں۔ رات کو دیر تک کھیلتا ہوں۔ ان کا کہنا نہیں مانتا.... وغیرہ وغیرہ!‘‘ امی تو مجھے اب بھی بچہ ہی سمجھتی ہیں مَیں تیرہ سال کا ہوگیا ہوں۔ اور اپنا بھلا بُرا اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ میرا دسویں کا امتحان قریب ہے یہ کڑوے زہر کے گھونٹ مجھے بار بار پلائے جاتے ہیں۔ دسواں نہ ہوا کوئی گہری ندی ہوگیا جس میں مَیں ڈوب جاؤں گا۔
کیا مَیں نہیں جانتا کہ مجھے پڑھنا ہے؟ یہ سوئٹی کون سی کم ہے؟ دن رات ابی امّی سے میری چغلی کرتی رہتی ہے۔ اسی نے کل ان کو بتایا تھا کہ بھیّا کتاب کے درمیان ناول چھپا کر پڑھ رہا ہے۔ ادھر شام کو ایک اور حادثہ ہوگیا تھا۔ اور اس کی وجہ سے امّی کا پارہ اور چڑھ گیا۔ شام کو جب مَیں دیر سے گھر آیا تو امّی نے اس کی وجہ دریافت کی۔ اور مَیں نے بہانہ بنا دیا کہ عارف کے گھر سوال سمجھ رہا تھا۔ اب بھلا مَیں کیسے بتاتا کہ مَیں جاوید کے گھر ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا۔ مگر بدقسمتی سے رات کو جاوید کی ممی میرے گھر آئیں اور امی کو ان سے معلوم ہوگیا کہ مَیں ان کے گھر ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ امّی نے ڈانٹا تو نہیں تھا، لیکن ایک نظر مجھے گھور کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔ امّی کی تیز نگاہ رات کو کافی دیر تک میرے سینے میں چبھتی رہی اس سے تو بہتر ہوتا کہ امّی ڈانٹ دیتیں۔
یہ بات نہیں کہ مَیں اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا مَیں جانتا ہوں کہ مَیں دن بہ دن بگڑتا جا رہا ہوں۔ میرا دل ناول پڑھنے میں، کھیلنےمیں بہت لگتا ہے۔ کئی دفعہ تو ابی امّی کو پلٹ کر جواب بھی دے چکا ہوں۔ پتہ نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے مجھے!
دو سال چھوٹی بہن سوئٹی کو بھی بات بات پر بلا وجہ پیٹ دیتا ہوں۔ لیکن یہ سوئٹی بھی کم بدمعاش نہیں ہے۔ صبح جب امی نے مجھ سے بات کرنے کو منع کیا تھا تو کیسی خوش ہو رہی تھی۔ یہی جڑ ہے سارے فساد کی، چغل خور کہیں کی!
شام ہونے والی ہے مگر ابھی تک مجھ سے کسی نے بات نہیں کی ہے۔ دوپہر کو کھانے کی میز پر جب مَیں نے سوئٹی کی چوٹی کھینچی تو چلّانے کے بجائے اس نے خاموشی سے اپنی چوٹی چھڑا لی۔ امّی سے شکایت بھی نہیں کی اس نے۔ چوٹی کھنچنے کا سارا مزہ ہی جاتا رہا۔ پھر امّی سوئٹی سے اسکول کی باتیں پوچھنے لگیں۔ اچانک مجھے بھی اسکول کا واقعہ یاد آیا۔ مَیں حوصلے سے امی کو بتانے لگا۔ امّی، آج.... مگر یہ کیا! امّی نے گھور کر مجھے ایک نظر دیکھا اور باورچی خانے میں چلی گئیں۔
اوہ، یاد آیا۔ مجھ سے تو کسی سے بات نہیں کرنی ہے۔ نہ کریں، ان سے بولے بغیر کیا میرا کھانا ہضم نہیں ہوگا؟ بوجھل ماحول میں یٹھنا مشکل ہورہا تھا۔ مَیں اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا۔ ورنہ کھانے کے بعد بھی کافی دیر تک کھانے کی میز پر قہقہے گونجتے رہتے تھے۔
سوئٹی بھی اپنے پڑھنے کی میز پر بیٹھ کر اسکول کا کام کرنے لگی۔ میرا دل پڑھنے میں ذرا بھی نہیں لگ رہا تھا۔ مَیں نے ایک ناول کھولا۔ اسی روز آفتاب سے مانگ کر لایا تھا۔ اب تھوڑی ہی دیر میں بوریت ہونے لگی۔ مَیں نے ناول کو میز پر پٹک دیا اور سوئٹی پر حکم صادر فرمایا، ’’اے سوئٹی کی بچّی، پانی لا!‘‘ لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ مجھے غصہ تو کافی آیا۔ مگر پھر اچانک یاد آگیا کہ امّی جان کے حکم کے مطابق اس کو مجھ سے بات نہیں کرنی ہے۔ اٹھ کر خود ہی پانی پیا اور پھر کھیلنے نکل گیا۔ رات کو کافی دیر کے بعد گھر پہنچا لیکن کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔ اور نہ ہی دیر سے آنے کا سبب دریافت کیا۔ رات کے کھانے کے دوران مَیں خود کو کٹا کٹا سا محسوس کر رہا تھا۔ اور کھانا کھاتے ہی سیدھا اپنے کمرے میں آگیا۔ رات امّی نے خاموشی سے آکر دودھ کا گلاس میز پر رکھا اور چلی گئیں۔ ورنہ ہر روز میرے سر پر ہاتھ پھیر کر پیار سے اپنے ہاتھوں سے دودھ پلاتی تھیں۔ مَیں آٹھ بجے ہی روشنی بجھا کر بستر پر لیٹ گیا مگر نہ جانے کیوں میرا ذہن منتشر رہا اور نیند میں عجیب وغریب خواب دیکھتا رہا۔
صبح کافی دیر بعد جب نیند ٹوٹی تو سر بھاری تھا اور ذہن بوجھل۔ جلدی جلدی تیار ہو کر اسکول بھاگا۔ کیونکہ آج کافی دیر ہوگئی تھی۔ آج پہلی بار مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مَیں سوئٹی سے بہت پیار کرتا ہوں اور اس سے بات کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر کیا کروں، کیا ان سے معافی مانگ لوں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ مَیں کیوں مانگوں معافی؟
چار بجے ابی آگئے۔ آتے ہی بولے، ’’سوئٹی بیٹے! جلدی تیار ہوجاؤ سرکس چلنا ہے۔ چار ٹکٹ لے آیا ہوں۔‘‘ چار ٹکٹ لائے ہیں اس کا مطلب ہے مجھے بھی چلنا ہے۔ تیزی سے مَیں بھی تیار ہوگیا۔ جب سرکس میں جوکر کی مضحکہ خیز اور دلچسپ حرکتیں دیکھ کر سوئٹی سے بولا، ’’سوئٹی دیکھ تو اس جوکر کا پیٹ کیسے روئی کے گدّے جیسا ہل رہا ہے۔‘‘ لیکن اس نے میری بات اَن سنی کر دی۔ اوہ! مَیں پھر بھول گیا تھا کہ یہ سب تو ناراض ہیں مجھ سے۔ میری ہنسی اچانک ہی غائب ہوگئی۔ طبیعت بھاری ہوگئی۔ دل چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔ ابی نے چار آئس کریم کے پیالے خریدے۔ ایک میری بھی بڑھایا مگر مَیں نے لینے سے انکار کردیا۔
واپس گھر لوٹنے کے بعد کھانے کی میز پر مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ اب یہ خاموشی مجھ سے برداشت نہیں ہوگی۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ سچ مچ مَیں بہت خراب ہوں۔ مجھے والدین سے معافی مانگ لینی چاہئے۔ اب مجھے اس کا احساس ہورہا تھا کہ میری امّی بھلائی کیلئے ہی تو ڈانٹتی ہیں۔ سوئٹی میرے بھلے کیلئے ہی تو امی سے میری شکایت کرتی ہے۔ اب مجھے معافی مانگنی ہی چاہئے۔
مَیں نے نظریں جھکا کر کہا، ’’امّی مجھےمعاف کر دیجئے۔ آئندہ مَیں اچھا لڑکا بننے کی کوشش کروں گا۔‘‘ امّی نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور کرسی کھسکا کر میرے قریب آگئیں۔ پھر مجھے گلے لگا کر بولیں، ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ مَیں تم سے بات کئے بغیر خوش ہوں۔ تم میری بے چینی کا اندازہ نہیں لگا سکتے شاید۔ لیکن صرف تمہاری بھلائی ہی کے لئے مَیں نے خود پر قابو کر رکھا تھا۔ بیٹے، تم عمر کے اس دور سے گزر رہے ہو جہاں تمہاری یہ حرکتیں بالکل فطری ہیں۔ لیکن تمہیں سیدھی راہ پر لانا بھی ضروری ہے۔ ورنہ تم راستہ بھٹک کر غلط راہ اختیار کرسکتے ہو۔ تم خوب کھیلو، ناول بھی پڑھو۔ لیکن سب کام وقت پر کرو۔ چوری چھپے ناول پڑھنے سے بہتر ہے کہ تم کھلے عام انہیں پڑھو۔ لیکن پڑھائی کے بعد۔ ناول بھی ایسے ہوں جو اخلاق اور اطوار بگاڑنے والے نہ ہوں۔
پھر ابی بولے، ’’بیٹے، ہماری تم سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ تمہارے مستقبل کا سارا دارومدار اسی دسویں کلاس پر ہے۔ اس میں حاصل ہونیوالے نمبر کی بنیاد پر ہی تمہیں مستقبل کی راہ کا انتخاب کرنا ہے۔ ایک دفعہ بھی اگر تم اس درجے میں چوک گئے تو تمہارا مستقبل اندھیروں میں کھو جائے گا، میڈیکل، انجینئرنگ یا جو بھی لائن تمہیں منتخب کرنی ہے وہ اسی درجے میں حاصل کئے نمبروں پر منحصر ہے۔‘‘
ابی اور امّی کی بات میری سمجھ میں آرہی تھی۔ مَیں نے ابی سے کہا، ’’ابی جان، مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ مَیں خوب محنت اور لگن سے پڑھوں گا۔ اور اچھے نمبروں سے کامیاب ہو کر دکھاؤں گا۔‘‘
انہوں نے میری پیٹھ تھپتھپائی۔ سوئٹی ایک ٹک مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کی چوٹی کھینچ کر مَیں نے کہا، ’’تم کیا دیکھ رہی ہو بندریا!‘‘ وہ چیخ پڑی، ’’امی، بھیّا کو دیکھو۔‘‘ ابی، امّی ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر مسکرانے لگے۔ شاید یہ ان کی فتح کی خوشی تھی۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میری ساری خوشیاں لوٹ آئی ہیں اور مجھے صحیح راستہ نظر آگیا ہے۔