معروف برطانوی ادیب ہیکٹر ہیو منرو عرف ساکی کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی میوزک آن دی ہل پہاڑی موسیقی کا اُردو ترجمہ
EPAPER
Updated: August 04, 2023, 10:00 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
معروف برطانوی ادیب ہیکٹر ہیو منرو عرف ساکی کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی میوزک آن دی ہل پہاڑی موسیقی کا اُردو ترجمہ
سلویا سیلٹون نے یسنی (ایک صحت افزاء پہاڑی مقام) میں صبح، فتح کے خوشگوار احساس کے ساتھ اپنا ناشتہ مکمل کیا۔ اسے جیتنا پسند تھا۔ وہ سخت مزاج نہیں تھی لیکن اس کا تعلق سپاہیوں کے خاندان سے تھا جو حالات کے پیش نظر خود بخود سخت مزاج ہوجاتے ہیں۔ سلویا نے جدوجہد بھری زندگی گزاری تھی مگر ہر مشکل کا ڈٹ کر سامنا کیا تھا۔ لیکن آج اسے محسوس ہورہا تھا کہ اس نے اپنی زندگی کا سب سے مشکل کام کامیابی سے انجام دیا ہے۔
مورٹیمر سیلٹون (سلویا کا شوہر) سے شادی کرنا، جسے اس کے دشمن ’جان لیوا مورٹیمر‘ کہتے تھے، واقعی ایسا کارنامہ تھا جس کیلئے عزم اور حوصلے کی ضرورت تھی۔ سلویا کافی دنوں سے اپنے شوہر کو منارہی تھی کہ وہ اسے یسنی کی سیر کروائے جہاں وہ کچھ دن فطرت کے قریب گزار سکے۔ کافی اصرار پر مورٹیمر یسنی جانے کیلئے تیار ہوا تھا، اور اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ شہر سے میلوں دور جنگلات سے گھرے اس پہاڑ کے ایک چھوٹے سے فارم ہاؤس پر صبح کا ناشتہ کررہی تھی۔ وہ اپنی اس کامیابی پر بہت خوش تھی۔
’’مورٹیمر شہر چھوڑ کر کبھی نہیں جائے گا!‘‘ اس کی ماں نے طنزیہ کہا تھا، ’’لیکن اگر وہ ایک بار چلا گیا تو پھر وہاں سے کبھی نہیں لوٹے گا۔ مجھے یقین ہے کہ یسنی کا حسن اسے اپنے فریب میں الجھا لے گا۔‘‘
یسنی ایک ایسا علاقہ تھا جہاں شہری وقت گزارنا نہیں پسند کرتے تھے لیکن سلویا کو پراسرار جنگل میں بنے اس گھر میں کچھ دن گزارنے کی خواہش تھی۔ یہاں آنے کے بعد پہلی رات وہ خوف کے مارے ٹھیک سے سو بھی نہیں سکے تھے۔ ہلکی سی آہٹ بھی انہیں چونکا دیتی تھی۔ ان کے ہال کے سامنے سرخ ڈھلوان نما لان تھا اور پھر سبز اور مضبوط درختوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا تھا جو آگے جاکر ایک غار کے پاس ختم ہوتا تھا۔ اس کھلے جنگل میں زندگی بسر کرنا یقیناً شہری افراد کے بس کی بات نہیں تھی۔ ہر وقت کسی نادیدہ شے کی موجودگی کا احساس ہوتا رہتا تھا۔ مگر سلویا کو ان سے خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ وہ اطمینان سے مسکرائی اور قدرت کی صناعی میں کھو گئی، پھر کچھ دیکھ کر اچانک کانپ اٹھی۔
’’یہ وحشت ناک ہے،‘‘ اس نے مورٹیمر سے کہا۔ جو چند لمحے پہلے ہی ناشتے کی میز پر آیا تھا۔ ’’وہاں دیکھو۔ مَیں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہاں ’’پین‘‘ کی پوجا اب تک کی جاتی ہے!‘‘ سلویا نے جھرجھری لی۔
واضح رہے کہ یونانی ثقافت میں چراگاہوں، جنگلوں اور جنگلی حیات کے دیوتا کو ’’پین‘‘ کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ گڈریئے ’’پین پائپ‘‘ پر جو دھن بجاتے ہیں، وہ پین دیوتا کی تعریف ہی میں بجائی جاتی ہے۔ پین کو فطرت کی روح کہا جاتا ہے۔ اس دیوتا کے ذمہ جنگل کی حفاظت ہے۔
مورٹیمر نے کہا، ’’پین کی عبادت ہمیشہ ہی ہوتی رہی ہے۔ دوسرے دیوتا لوگوں کو اپنی جانب متوجہ ضرور کرتے ہیں لیکن وہ فطرت ہی کا دیوتا ہے جس کے پاس سبھی کو لوٹنا ہے۔ اسے تمام دیوتاؤں کا سردار کہا جاتا ہے۔‘‘
سلویا مذہب پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ اس کا ماننا تھا کہ بلند حوصلوں سے ہر پریشانی کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ اسی طرح انسان کا دل صاف اور اچھا ہونا چاہئے۔
’’کیا تم پین پر یقین رکھتے ہو؟‘‘ اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
یہ بھی پڑھئے: لکڑی کا کمرہ (ساکی)
مورٹیمر نے کہا، ’’میں زیادہ تر معاملات میں بے وقوف رہا ہوں مگر اتنا احمق نہیں ہوں کہ جب یہاں یعنی جنگل کے بیچ ہوں تو پین پر یقین نہ کروں۔ اور جب تک تم یہاں ہو، تمہیں بھی اس پر یقین رکھنا چاہئے۔‘‘ مورٹیمر نے بیوی کو مشورہ دیا۔
ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ سلویا یسنی کے حسن سے اُکتا گئی۔ پھر اس نے اس چھوٹے سے پہاڑی گاؤں کی عمارتوں کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ ایک کھیت کے پاس سے گزری تو وہاں اسے صحت مند مویشی ٹہلتے نظر آئےجبکہ گھوڑے اور بطخیں تالاب سے پانی پی رہی تھیں۔ جب وہ گاؤں کا جائزہ لے رہی تھی تو اس کے ذہن میں اس جگہ کے متعلق پہلا تاثر خاموشی اور ویرانی تھا، جیسے کہ وہ تنہا کسی ویران گھر میں ہو جو طویل عرصے سے اُلوؤں اور مکڑی کے جالوں کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ اسے اچانک احساس ہوا کہ کوئی اس کے پاس ہے۔ بھاری دروازوں اور ٹوٹی کھڑکیوں کے پیچھے اسے کھروں کی بے چین آوازیں آتی محسوس ہورہی تھیں۔ کبھی لگتا کہ کسی جانور کے گلے کی گھنٹی بج رہی ہو۔ وہ گھنٹوں یہاں گھومتی رہی۔ اسے یہاں مویشی زیادہ نظر آرہے تھے اور انسان کم۔ جب وہ گائوں کے باغات اور لمبی دیواروں کے پاس سے گزر رہی تھی تو اسے ایک عجیب آواز سنائی دی۔ یہ کسی لڑکے کی ہنسی کی گونج تھی۔
پھر وہ اپنے فارم ہاؤس میں لوٹ آئی۔ اس بارے میں اس نے مورٹیمر سے بات کی لیکن اس نے تشفی بخش جواب نہیں دیا۔
مورٹیمر اسے گھر میں کم ہی نظر آتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کھیت اور جنگلات اسے نگل رہے ہوں۔ ایک مرتبہ وہ مورٹیمر کا پیچھا کرتے ہوئے ایک کھلی جگہ پر پہنچ گئی جہاں کا راستہ بڑے درختوں نے روک رکھا تھا۔ کھلی جگہ کے درمیان پتھر کا ایک چھوٹا سا ستون تھا جس پر کانسے کا ایک نوجوان پین رکھا ہوا تھا۔ یہ کاریگری کا ایک شاہکار تھا لیکن اس کی توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ انگوروں کا ایک تازہ گچھا اس کے قدموں میں بطور نذرانہ رکھا گیا تھا۔ ’’ہمارے فارم ہاؤس کا مالک ہمیں ناشتے میں پھل نہیں دیتا اور یہاں انگور کا گچھا پڑا ہوا ہے۔‘‘ سلویا کو اچانک غصہ آگیا اور اس نے گچھا اٹھا لیا۔ لوگوں کے فرسودہ خیالات پر اسے ہنسی آرہی تھی۔ وہ گھر کے راستے پر چل پڑی، تبھی اسے اپنے قریب کسی چیز کا احساس ہوا۔ وہ خوفزدہ ہوگئی۔ بائیں جانب گھنی جھاڑیوں سے ایک چھوٹا لڑکا اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے بالوں کا رنگ بھورا تھا اور وہ بہت خوبصورت تھا۔ وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے گھر میں آگئی۔ اس ادھیڑ بن میں اسے احساس نہیں رہا کہ گچھا کب اس کے ہاتھوں سے کہیں گرگیا ہے۔
’’میں نے جھاڑیوں کے پاس آج ایک لڑکے کو دیکھا۔‘‘ اس نے شام میں مورٹیمر کو بتایا، ’’بھورے بال والا اور بہت خوبصورت لیکن وہ بدمعاش نظر آرہا تھا۔ شاید خانہ بدوش ہو۔‘‘ ’’ہوسکتا ہے۔‘‘ مورٹیمر نے کہا، ’’لیکن اس موسم میں یہاں خانہ بدوش نہیں آتے۔‘‘
’’پھر وہ کون تھا؟‘‘ سلویا نےپوچھا لیکن مورٹیمر کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا لہٰذا سلویا نے فیصلہ کیا کہ اس لڑکے کے بارے میں وہ اپنے طور پر جاننے کی کوشش کرے گی۔ ’’مجھے لگتا ہے تمہیں وہم ہوا ہے۔ تم اس کے بارے میں پوچھ گچھ کروگی تو لوگ تمہیں پاگل سمجھیں گے۔ کیا اس نے یا تم نے اس کے کسی کام میں مداخلت کی ہے؟‘‘ مورٹیمر نے پوچھا۔’’اس کے نظر آنے سے قبل میں نے پین کے مجسمے کے پاس رکھا انگور کا گچھا اٹھا لیا تھا، اور پھر وہ مجھ سے کہیں گر گیا۔ مجھے لوگوں کی سوچ پر ہنسی آئی تھی۔‘‘ سلویا نے کہا۔
مورٹیمر سیلٹون کے بے چین چہرے پر جھنجھلاہٹ نمایاں ہوگئی۔
’’مجھے نہیں لگتا کہ تم نے کوئی دانشمندانہ کام کیا ہے۔‘‘ اس نے سلویا کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے سنا ہے کہ جنگل کا دیوتا اُنہیں نہیں بخشتا جو اس کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے۔‘‘ ’’تمہاری بات سن کر شاید وہ خوفزدہ ہوجائیں جو اُن پر یقین رکھتے ہیں لیکن تمہیں معلوم ہے کہ مَیں ایسی نہیں ہوں۔‘‘ سلویا نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’میں جانتا ہوں،‘‘ مورٹیمر نے ہموار لہجے میں کہا، ’’اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو جنگلوں اور باغات میں جانے سے احتراز کرتا۔‘‘ سلویا کے نزدیک یہ سب محض بکواس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
’’مورٹیمر،‘‘ سلویا نے اچانک کہا، ’’مجھے لگتا ہے ہمیں شہر واپس چلنا چاہئے۔‘‘ اسے اچانک وحشت ہونے لگی تھی۔ اسے لگا وہ یہاں آنے کے اپنے مقصد میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس لئے وہ اب یہاں سے جانے کیلئے بے چین تھی۔
’’مجھے نہیں لگتا کہ تم کبھی شہر واپس جاسکو گی،‘‘ مورٹیمر نے کہا۔
سلویا کو ایسا لگا کہ مورٹیمر کی ماں نے اپنے بیٹے کے بارے میں درست پیشین گوئی کی تھی کہ یسنی کا حسن اسے اپنے فریب میں الجھا لے گا۔
سلویا اضطراب کا شکار تھی لیکن اگلی صبح وہ جنگل کی جانب نکل گئی۔ اس نے مورٹیمر کی باتوں کو یکسر نظر انداز کردیا تھا۔ وہ بھورے بالوں والے اس لڑکے کو دیکھنا چاہتی تھی جو کل جھاڑیوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
جب وہ سیر کررہی تھی تو اسے احساس ہوا کہ جنگلی جانوروں، مویشیوں، درختوں، جھاڑیوں، پھولوں اور ہواؤں کے درمیان کوئی لطیف سا تعلق ہے۔ اسے پہاڑیوں پر ہلکی موسیقی سنائی دے رہی تھی۔ وہی موسیقی جو گڈریئے پین کو خوش کرنے کیلئے بجاتے ہیں۔ سلویا نے موسیقی کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک ڈھلان پر چڑھنے لگی۔ اس کے قدموں تلے سوکھے پتے چرمرا رہے تھے۔ سلویا کو دور گہرے رنگوں کے پہاڑ نظر آرہے تھے۔ نشیب و فراز عبور کرتے وقت کبھی پہاڑ غائب ہوجاتے تو کبھی نظر آنے لگتے۔ کچھ دیر بعد سلویا کو ایسا لگا کہ موسیقی اس کا پیچھا کررہی ہو۔ وہ گھبرا گئی۔ کوئی نادیدہ چیز اس کا پیچھا کررہی تھی۔ وہ اسے دیکھ سکتی تھی نہ پکڑ سکتی تھی۔ سامنے اسے بلوط کا جھنڈ نظر آیا جسے عبور کرکے اور جنگلی جھاڑیوں کو اپنے ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے وہ ایک کھلے میدان میں آگئی۔ موسیقی سے گھبرا کر وہ ہانپ رہی تھی۔ اس کی نظر سامنے کھڑے ایک فربہ ہرن پر پڑی جس کے سر پر انتہائی مضبوط اور بڑے سینگ تھے۔ سلویا کو آگے جانا تھا لیکن ہرن اس کی راہ میں حائل تھا اور اسے ہی گھور رہا تھا۔ پھر وہ دوڑتا ہوا سلویا کی طرف آنے لگا۔ سلویا گھبرا گئی۔ موسیقی کی آواز بھی چند لمحوں کیلئے تھم گئی تھی۔ ہرن اس کے قریب آیا اور پھر لگا کسی نادیدہ قوت نے اسے ہوا میں اٹھا دیا ہو، سلویا خوف کے مارے جلدی سے گھنی جھاڑیوں میں چھپ گئی۔ ہرن پر نظر ڈالی تو وہ ہوا میں معلق تھا اور اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ سلویا کے اطراف موسیقی کی آواز پھر گونجنے لگی۔ اسے مورٹیمر کی بات یاد آگئی کہ جنگلوں میں مت گھومنا، خطرناک جانور پھرتے رہتے ہیں۔ وہ وحشت بھری نگاہوں سے آس پاس دیکھ رہی تھی۔ اور پھر خوشی سے اس کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ اس نے دیکھا کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔ ایک انسانی شکل جھاڑیوں میں گھٹنے پر بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی۔
’’اسے بھگاؤ!‘‘ وہ زور سے چیخی۔ لیکن جھاڑی میں نظر آنے والی شکل نے کوئی حرکت نہیں کی۔ہرن اُڑتا ہوا سلویا کے قریب آگیا اور اس کے سینگ سلویا کے سینے میں اتر گئے۔ سلویا کے نتھنوں سے شکاری جانور کی تیز بو ٹکرائی۔ اس کی آنکھیں خوف سے بھری ہوئی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا ان آنکھوں نے اپنی موت کے علاوہ کچھ اور بھی دیکھ لیا ہو۔
پھر اس کے کانوں میں بھورے بال والے لڑکے کے قہقہوں کی گونج پڑی اور سلویا اپنی جگہ بے سدھ ہوگئی۔