فلم اور ویب سیریز اداکار آصف خان کا کہنا ہے کہ تھیٹر کرنے کے دوران منشی پریم چند اور سعادت حسن منٹو کو ہم نے پڑھا ہے اسلئے بڑے مجمع کے سامنے بھی تقریر کرنے میں کوئی دِقت نہیں ہوتی۔
EPAPER
Updated: June 23, 2024, 12:32 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai
فلم اور ویب سیریز اداکار آصف خان کا کہنا ہے کہ تھیٹر کرنے کے دوران منشی پریم چند اور سعادت حسن منٹو کو ہم نے پڑھا ہے اسلئے بڑے مجمع کے سامنے بھی تقریر کرنے میں کوئی دِقت نہیں ہوتی۔
مشہور ویب سیریز مرزا پور میں بابر کا کردار ادا کرنے والے آصف خان نے او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر اپنی شناخت قائم کرلی ہے۔ اس ویب سیریز کے بعد انہوں نے پنچایت میں گنیش کا کردار ادا کیا۔ حال ہی میں پنچایت کا نیا سیزن ریلیز کیا گیا ہے جس کی تشہیر کیلئے وہ مختلف شہروں کا دورہ کررہے ہیں۔ مرزا پور اور پنچایت میں بہتر کرداراداکرنے کے علاوہ انہوں نےپاتال لوک، جامتارا، پگلیٹ اور ہیومن میں بھی اپنی اداکاری کی چھاپ چھوڑی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے منی ٹی وی کی سیریز ’مرڈر اِن اگونڈا‘ اور جیو سنیما کے ’گھر سیٹ ہے‘ میں مرکزی کردار ادا کیاہے۔ انہوں نے اوٹی ٹی پلیٹ فارم سے اپنے کرداروں کے ذریعہ شائقین کےسامنے اچھی کہانیاں پیش کی ہیں۔ آصف خان بہت سے پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں جن میں ورجن ٹری، نورانی چہرہ اور نان اسٹاپ نان سینز قابل ذکر ہیں۔ نمائندہ انقلاب نے آصف خان سےبات چیت کی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
س:ان دنوں آپ کس پروجیٹ میں مصروف ہیں ؟
ج:فی الحال میں اپنے شو کی تشہیر کررہاہوں اور کوشش کررہا ہوں کہ دور تک اس کا پیغام پہنچاسکوں۔ اس کے ساتھ ہی میرے پاس الگ الگ فلموں کی اسکرپٹ بھی آرہی ہیں جنہیں پڑھ رہا ہوں۔ انڈسٹری میں اکثر یہ ہوتاہے کہ اگر کوئی کہانی ہٹ ہوجاتی ہے تو پھر اسی طرز کی دیگر کہانیاں بننی شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک اداکار ہونے کے ناطے میں ایک ہی رول کو بار بار کرنے کی خواہش نہیں رکھتا۔ کوشش کررہاہوں کہ کچھ اچھا رول ملے تو میں اس اسکرپٹ کیلئے ہامی بھروں۔ میں نے حال ہی میں اپنی فلموں کی شوٹنگ مکمل کی ہے اور کچھ وقت کیلئے راجستھان گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی والدہ اور بہن کے ساتھ وقت گزار رہاہوں۔
یہ بھی پڑھئے: امریش پوری: بالی ووڈ میں طویل عرصہ تک بطور ویلن بے تاج بادشاہ رہے
کیا آپ کو او ٹی ٹی کا سپراسٹار کہا جاسکتاہے ؟
ج: یہ کتنا صحیح ہے یا کتنا غلط اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتاکیونکہ میں اپنا کام کرتا ہوں اور اس رول کو بہتر انداز میں نبھانے کی پوری کوشش کرتاہوں۔ آج بھی میں سیراور سفر کیلئے نکلتا ہوں تو میرے مداح مجھ سے مسلسل کہتے ہیں کہ میں اچھا کام کر رہا ہوں اور اسے یوں ہی جاری رکھوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاؤں اور اداکاری کے جوہر دکھاؤں۔ جبشائقین کی طرف سے تعریف ہوتی ہے اور آپ کو تمغے ملنے شروع ہو جاتے ہیں تو پھر آپ پرذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ آپ نے فلاں رول اچھا کیا تھا اور دیگر شوبھی میں اچھاکام کررہے ہیں تو اُن کا اشارہ ہوتاہے کہ آپ اگلے شوز میں اس سے بھی اچھا کرو۔ میں اپنی طرف سے پوری کوشش کرتاہوں کہ ان کی امیدوں پر کھرا اتروں۔ بہرحال آج شائقین نے مجھے گاؤں کا بیٹا کہنا شروع کردیاہے۔ جہاں بھی جاؤں وہ مجھے یہی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں کہ گاؤں کا بیٹا آگیا۔ میرے لئے اسٹار یا سپراسٹار کہلانے سے بہتر گاؤں کا بیٹا کہلانا ہے۔
ایک اداکار کی پہچان کردار سے ہوتی ہے، تو آپ اپنے کرداروں کی تیاری کس طرح کرتے ہیں ؟
ج:الگ الگ کردار کیلئے تیاری بھی الگ الگ کرنی ہوتی ہے۔ میں بھی ہر رول کیلئے اسی طرح کی تیاری کرتا ہوں۔ مثلاً میں نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا لیکن مجھے ایک بار شرابی کا رول ادا کرنا تھا۔ اس وقت سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں ۔ اس وقت میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ میں جلتے ہوئے بلب کی تیز روشنی میں کھڑا ہوجاؤں اور اسے مسلسل گھورتا رہوں۔ یہ مشق میں نے چند دنوں تک کی تو میری آنکھیں شرابیوں کی سی سرخ ہوگئی تھیں۔ اس کے بعد میں نے اس رول کو ادا کیاتھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ اکثر اداکار شرابی کا رول نبھانے کی کوشش میں پھیل جاتے ہیں جبکہ ایک شرابی، شراب پینے کے بعد خود کو سمیٹتا ہے، وہ کوشش کرتاہے کہ اس سے کچھ بدتمیزی نہ ہوجائے۔ پاتال لوک میں مجھے ایک سنجیدہ سین کرنا تھا، اس وقت مجھے کہا گیا کہ میں اپنی زندگی کا سب سے غمگین دن یاد کروں ، تو میں نے اپنے والد کے انتقال کےلمحے کو یاد کیا تھا اور اس منظر کو شوٹ کیا تھا۔
جدوجہد کے بعد جو صلہ ملتاہے، اس کا احساس کیسا ہوتاہے ؟
ج:انسان کی جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتیہے، ویسے ویسےاس کے تجربے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جب میں ممبئی آیا تھا تواس وقت میری عمر ۱۷؍برس تھی۔ یہاں آکر تھیٹر کرتے کرتے میں کیمرے کے سامنے اداکاری کرنے لگا۔ اس وقت میں نے یہ طے کرلیا تھاکہ میں اپنے کام سے اچھا اداکار بنوں گا نہ کہ سپر اسٹار۔ دراصل سپراسٹار بھی عوام ہی بناتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے ویب سیریز میں کام کرتے ہوئے خود کویہ باور کروایاکہ دنیا سے چلا جاؤں تو میرا نام نہ ہو لیکن میرا کام سبھی یاد رکھیں۔ آج میں کریئر کے جس پڑاؤ پر ہوں وہاں میں نےاپنی ضرورتوں کو کم کردیا ہے۔ آج ایک شخص اگر کام کرتا ہے تو وہ اپنے سے بڑے کو دیکھتاہے، مثلاً اگر کوئی موٹر سائیکل پر آرہا ہے تو وہ کار والے کو دیکھتاہے، لیکن میں یہ دیکھتا ہوں کہ میں کار میں آرہا ہوں تومیرا دوست بیچارہ پیدل آرہا ہے، میں اچھی عمارت میں رہتا ہوں تو وہ چال میں رہتاہے۔ اس وقت میں خدا کا شکر ادا کرتاہوں کہ اس نے مجھے یہ نعمتیں عطا کی ہیں۔
انڈسٹری میں آپ کو کس کردار سے پہچان ملی ؟
ج:مجھے اپنے ۲؍کرداروں سے بہت زیادہ شناخت ملی ہے۔ ایک پنچایت کا کیریکٹر گنیش ہے اور دوسرا مرزا پور کا کیریکٹر بابر، ان دونوں کی وجہ سے میں چاہے ہندوستان میں رہوں یا یورپ، یا دنیا کے کسی بھی کونے میں رہوں، ان دونوں کی وجہ سے پہچان لیا جاتا ہوں۔ دراصل یہ دونوں ہی کردار میرے دل کے بہت قریب ہیں۔
آپ کے اگلے پروجیکٹ کون سے ہیں ؟
ج:میں اس وقت کئی پروجیکٹ پر کام کررہا ہوں اور ان کی شوٹنگ میں مصروف ہوں۔ ایک فلم آرہی ہے جس میں ۴؍اداکار ہیں جن میں، میں، ثاقب سلیم اورسوناکشی سنہا ہیں۔ اس کے بعد سنجے دت کے ساتھ ایک فلم ورجن ٹری آنے والی ہےجس میں کئی اچھے ایکٹرہیں جن میں سنی سنگھ اور پلک تیواری کا نام قابل ذکر ہے۔ یہ ایک ہارر کامیڈی فلم ہے۔ نوازالدین صدیقی کے ساتھ میری ۲؍ فلمیں آنے والی ہیں جن میں سے ایک نورانی چہرے ہے، یہ ایک رومانوی مزاحیہ فلم ہے۔ نواز بھائی کےساتھ کام کر کے بہت مزہ آرہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور فلم نان اسٹاپ نانسینز بھی آنے والی ہے۔ ان کے علاوہ بہت سی اسکرپٹ آئی ہیں، انہیں پڑھ رہا ہوں۔
کس اداکار کے ساتھ کام کرنے کی خواہش ہے؟
ج:ایسے تو ۲؍ اداکاروں کےساتھ کام کرنے کی خواہش تھی جن میں سے ایک نواز الدین صدیقی ہیں ، ان کے ساتھ میں دو فلموں میں کام کررہا ہوں۔ دوسرے عرفان خان تھے جن کے ساتھ کام کرنے کی بہت تمنا تھی لیکن وہ ہمیں بہت جلد ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ ان دونوں کے علاوہ شاہ رخ خان اور منوج باجپئی کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں۔ وہ شاہ رخ خان ہی ہیں جن کی وجہ سے میں ممبئی آیا تھا اور فلموں میں کام کرنا شروع کیا۔
س:کیا تھیٹر آرٹسٹ، سب سے اچھا اداکار ہوتاہے؟
ج: یہ بات بالکل صحیح ہے کہ تھیٹر آرٹسٹ ایک اچھا اداکار ہوتاہے اور وہ اپنے فن سے سبھی کو متاثر کرتاہے۔ مثال کے طورپر تھیٹر کا آرٹسٹ نظم وضبط کو بہت پسند کرتاہے۔ تھیٹر میں جو لوگ کام کرتے ہیں وہ ٹیم ورک کرتے ہیں، اسلئے انہیں سبھی کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ تھیٹر آرٹسٹ کو ایک گلاس رکھنے سے لے کر مجمع کے سامنے اپنے فن کو پیش کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ میں مثال پیش کرتاہوں کہ ہم جیسے چھوٹے شہر کے افراد ممبئی جیسے بڑے شہروں کے عوام کے سامنے انگلش بول نہیں سکتے لیکن آج ہم ان کے سامنے آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرتے ہیں کیونکہ ہم نے تھیٹر میں منشی پریم چند پڑھاہے، ہم نے سعادت حسن منٹو کا مطالعہ کیاہے۔ ان کو پڑھنے کےبعد میرے اندر اتنا اعتماد آیا ہے کہ میں ۵؍ہزار کے مجمع کے سامنے بھی نڈر ہوکر تقریر کر سکتا ہوں۔ میں نے ایک یونیورسٹی میں اپنی فلم کی تشہیر کے دوران آئی آئی ٹی اور ایم بی اے کی جماعت کے طلبہ کے سامنے تقریرکی تھی، جب میری تقریر ختم ہوئی تو سبھی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ہم نے عصمت چغتائی کو پڑھا ہے جس کی وجہ سے ہم میں اتنا اعتماد آیاہے۔ اسلئے ایک تھیٹر آرٹسٹ بہت اچھا اداکار ہوتاہے۔