۱۹۸۱ء کی فلم ’’امراؤ جان‘‘ کیلئے آشا بھوسلے کو صرف ایک نغمہ گانا تھا لیکن پھر فلم کے تمام گانے انہی کی آواز میں ریکارڈ کروائے گئے۔ اپنی ۹۱؍ ویں سالگرہ کے موقع پر آشا بھوسلے کہتی ہیں کہ اسے ہی تقدیر کہتے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 08, 2024, 4:11 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
۱۹۸۱ء کی فلم ’’امراؤ جان‘‘ کیلئے آشا بھوسلے کو صرف ایک نغمہ گانا تھا لیکن پھر فلم کے تمام گانے انہی کی آواز میں ریکارڈ کروائے گئے۔ اپنی ۹۱؍ ویں سالگرہ کے موقع پر آشا بھوسلے کہتی ہیں کہ اسے ہی تقدیر کہتے ہیں۔
تقدیر پر پختہ یقین رکھنے والی آشا بھوسلے آج ۹۱؍ سال کی ہوگئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ۱۹۸۱ء کی فلم ’’امراؤ جان‘‘ کیلئے صرف ایک نغمہ گانا تھا لیکن پھر فلم کے ہر نغمہ کیلئے ان کی آواز استعمال کی گئی۔ مظفر علی کی ہدایتکاری میں بنی اس فلم میں ریکھا نے مرکزی کردار ادا کیا تھا جبکہ اس فلم کیلئے آشا بھوسلے کو بہترین گلوکارہ کا پہلا نیشنل فلم ایوارڈ تفویض کیا گیا تھا۔ فلم کی موسیقی خیام نے ترتیب دی تھی جبکہ نغمہ نگار شہریار تھے۔
یہ بھی پڑھئے:آشا بھوسلے کی ۹۱؍ ویں سالگرہ پر خراج تحسین، گلوکارہ کے بہترین ۱۰؍ نغمے
آشا بھوسلے نے کہا کہ وہ ۱۹۰۵ء کے اردو ناول ’’امراؤ جان‘‘ کو پڑھنے کے بعد حقیقت میں ’’امراؤ جان‘‘ بن گئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی ناول پر فلم بھی بنی تھی۔ انہوں نے دوردرشن کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’پرڈیوسر نے کہا کہ صرف ایک نغمہ گانا ہے، میں نے ہامی بھرلی۔ انہوں نے مجھے ’’امراؤ جان‘‘ پڑھنے کیلئے دی اور کہا کہ ایک ہی لہجے میں تمہیں نغمہ گانا ہے۔ مَیں نے کتاب پڑھی اور پھر ’’امراؤ جان‘‘ بن گئی۔ مجھے صرف ایک نغمہ گانا تھا لیکن پھر تمام نغمے میری آواز میں ریکارڈ کئے گئے۔ یہ تقدیر ہی ہے، ہے نا؟‘‘ اس فلم کے تمام نغمے سپرہٹ تھے۔
یہ بھی پڑھئے:دپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ کے یہاں بیٹی کی ولادت
جب ان سے پوچھا گیا کہ ۹۱؍ سال کی عمر میں بھی وہ اتنی تازہ دم کیسے رہتی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ’’مَیں صرف خوش رہتی ہوں۔ مثبت سوچتی ہوں اور مثبت لوگوں کے درمیان رہتی ہوں۔ میرا خدا پر یقین ہے اور میں ان چیزوں کو اپنے پاس رکھتی ہوں جن سے مجھے محبت ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اور ان کی بڑی بہن، آنجہانی لتا منگیشکر کی آوازوں ’’ہلکی مشابہت‘‘ تھی لیکن وہ ہمیشہ اپنی علاحدہ شناخت بنانا چاہتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ’’ اگر میں ان کی طرح گاتی تو لگتا کہ میں ان کی نقل کررہی ہوں لہٰذا میں نے دنیا کے مختلف حصوں کے گانے سنے، انگریزی ، پنجابی سبھی، اور اپنی آواز اور لب و لہجے کو تبدیل کیا۔ مجھے اپنے آپ کو چیلنج دینا پسند تھا، سو میں نے وہی کیا۔‘‘