پلےبیک سنگنگ سےتقریباً ۳؍ دہائیوں تک سامعین کو اپنا دیوانہ بنانے والے مکیش دراصل ہندی فلموں میں ایک اداکار کے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔
EPAPER
Updated: August 28, 2024, 11:19 AM IST | Agency | Mumbai
پلےبیک سنگنگ سےتقریباً ۳؍ دہائیوں تک سامعین کو اپنا دیوانہ بنانے والے مکیش دراصل ہندی فلموں میں ایک اداکار کے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔
پلےبیک سنگنگ سےتقریباً ۳؍ دہائیوں تک سامعین کو اپنا دیوانہ بنانے والے مکیش دراصل ہندی فلموں میں ایک اداکار کے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔
مکیش چند ماتھر کی پیدائش۲۲؍جولائی ۱۹۲۳ءکو دہلی میں ہوئی تھی۔ ان کے والدلالہ زورآور چندماتھر ایک انجینئر تھے اور وہ چاہتے کہ مکیش ان کےنقش قدم پر چلیں لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ اس زمانے کے مشہور گلوکار و اداکار کندن لال سہگل کےبڑے پرستار تھے اور انہیں کی طرح گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ مکیش نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنےکے بعد اسکول کو خیرباد کہہ دیا تھا اور دہلی پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ سرویئر کی نوکری کرلی تھی جہاں انہوں نے سات مہینوں تک کام کیا۔ اسی دوران اپنی بہن کی شادی میں گیت گاتے وقت ان کے دور کے رشتے دار اور مشہور اداکار موتی لال نے ان کی آواز سنی اوروہ ان سے کافی متاثر ہوئے۔ موتی لال ۱۹۴۰ءمیں مکیش کو بمبئی لے آئے اوراپنے ساتھ رکھ کر پنڈت جگن ناتھ پرساد سے انہیں گلوکاری کی تعلیم دلانے کا انتظام کیا۔
یہ بھی پڑھئے:سنی دیول کی فلم بارڈر۲؍، ۲۳؍ جنوری۲۰۲۶ءکو ریلیز ہوگی
اسی دوران ۱۹۴۰ءمیں خوبرومکیش کو ایک ہندی فلم’نردوش‘ میں اداکاری کرنےکاموقع ملا۔ اس فلم میں انہیں موسیقار اشوک گھوش کے ہدایت کاری میں اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے ’دل ہی بجھا ہوا ہو تو‘ اپنا پہلا گیت گایا۔ یہ فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ اس کےبعد مکیش نے ’دکھ سکھ‘ اور ’آداب عرض ‘ جیسی دیگر فلموں میں بھی کام کیا لیکن وہ کوئی شناخت بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
اسی دوران موتی لال مکیش کو اس وقت کے مشہور موسیقارانل وشواس کےپاس لیکرگئےاور ان سے گزارش کی کہ وہ اپنی فلم میں مکیش کو کوئی گیت گانے کو موقع دیں۔ ۱۹۴۵ءمیں ریلیز ہونے والی فلم ’پہلی نظر‘ میں انل وشواس کی موسیقی میں مکیش نے ’دل جلتا ہے تو جلنے دے‘ گایا۔ اس گیت کے بعد مکیش کچھ حد تک اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ مکیش نےیہ گیت کے ایل سہگل کی طرز پر گایا تھا۔ سہگل نےجب یہ گیت سنا تو انہوں نے کہا تھا ’’عجیب بات ہے، مجھے یاد نہیں کہ میں نے یہ گیت کب گایا‘‘۔ یہ گیت سننے کے بعدسہگل مکیش سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہیں اپنا جانشیں اعلان کردیا تھا۔ اپنے شروعات دور کی فلموں میں سہگل کی گلوکاری کے انداز سے متاثر ہونے کے سبب مکیش ان کی ہی طرز پر گیت گایا کرتے تھے۔ لیکن ۱۹۴۸ءمیں نوشاد کی موسیقی سے آراستہ فلم ’انداز‘ کے بعدمکیش نےاپنا یہ طرز بدل دیا اور اپنا خالص انداز اختیار کیا۔
مکیش نے تین دہائی پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں ۲۰۰؍سے زیادہ فلموں کے لئے گیت گائے۔ مکیش کو ۴؍بار فلم فیئرکے بہترین گلوکار کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ۱۹۷۴ءمیں ریلیز ہوئی فلم ’رجنی گندھا‘کےگیت ’کئی بار، یوں بھی دیکھاہے ‘ کے لئے انہیں نیشنل ایوارڈ سےبھی نوازاگیا۔ ۱۹۷۶ءمیں مکیش، راج کپور کی فلم ’ستیم شیوم سندرم‘ کے گیت ’چنچل، نرمل، شیتل‘ کی ریکارڈنگ پوری کرنے کے بعدامریکہ میں ایک کنسرٹ میں شامل ہونے کے لئے چلے گئے جہاں ۲۷؍اگست ۱۹۷۶ءکو دل کا دورہ پڑنےسے ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے قریبی دوست راج کپور کو جب ان کی موت کی خبر ملی تو ان کے منہ سے برجستہ نکل گیا ’مکیش کے جانے سے میری آواز اور روح، دونوں چلے گئے‘۔
۔